۔26مئی 2016ء کو کوئٹہ کے سول سیکریٹریٹ کے سکندر جمالی آڈیٹوریم میں ذرائع ابلاغ کے ساتھ انتہائی اہم نشست رکھی گئی تھی۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات کے نمائندے بڑی تعداد میں شریک تھے۔ پولیس اور ایف سی کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ چھ دہشت گرد پکڑے گئے تھے، جن سے تفتیش مکمل ہوچکی تھی۔ گرفتار دہشت گردوں نے اپنے جرائم کا اعتراف بھی کرلیا تھا۔ یہ سب افغان انٹیلی جنس کے اہلکار تھے جو کوئٹہ اور دوسرے علاقوں میں بم دھماکے اور ہدفی قتل کرتے تھے۔ ان کی اعترافی ویڈیو دکھائی گئی۔ پریس کانفرنس ختم ہوئی تو حکومتی نمائندے اور سیکورٹی حکام کے ساتھ مزید گفتگو بھی ہوئی۔ راقم اور شہزادہ ذوالفقار (صحافی و کالم نگار) نے ایک وزیر صاحب سے چند ساعت الگ بات چیت بھی کی۔ چوں کہ دہشت گردوں سے متعلق بتایا گیا کہ وہ افغان جاسوسی کے ادارے سے وابستہ تھے، بات ہوئی کہ صوبے کے اندر بڑی تعداد میں مہاجرین یا افغان باشندے قیام رکھتے ہیں۔ چناں چہ اس تناظر میں اس شخصیت نے بتایا کہ جے یو آئی کا ایک سینیٹر بھی افغان باشندہ ہے۔ آڈیٹوریم سے سب نکل کر چلے گئے، تاہم مجھے تشویش ہوئی کہ آخر یہ سینیٹر ہے کون؟ اس طرح میں اور شہزادہ ذوالفقار سول سیکریٹریٹ میں موصوف کے دفتر گئے، انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کیا، جس پر ان صاحب نے بتایا کہ حمداللہ افغان باشندہ ہے اور سینیٹ آف پاکستان کا رکن ہے۔ سچ پوچھیے مجھے ان صاحب کی معلومات اور ذرائع پر انتہائی حیرانی اور تعجب ہوا۔ اب جب سرکاری تعطیل کے روز (ہفتہ26اکتوبر2019ء) پیمرا کی جانب سے برقی میڈیا کو بھیجا گیا مراسلہ (مراسلہ نمبر13(87)/OPS/2016) بابت حافظ حمداللہ کی شہریت کی منسوخی اور افغان باشندہ قرار دینے کا منظرعام پر آیا تو معلوم ہوا کہ اس طرح کی احمقانہ سوچ تنہا کسی فرد کی نہیں بلکہ ملک کے بڑے معتبر ادارے اور اس سے وابستہ افراد نے بھی اپنا رکھی ہے۔ پیمرا نے میڈیا کو حکم دیا کہ انہیں ٹاک شوز میں نہ بلایا جائے۔ اس کے لیے اتنی بڑی زحمت کی ضرورت ہرگز نہ تھی۔ پیمرا یا کسی اور مقتدر شخص و ادارے کی جانب سے محض زبانی کہا جاتا تو یقیناً کوئی میڈیا ہائوس انہیں اپنے پروگرام میں نہ بلاتا۔ اتنے چھوٹے کام کے لیے ایک سابق صوبائی وزیر اور سابق سینیٹر کی شہریت کی منسوخی کی کیا تُک بنتی ہے!
دیکھا جائے تو یہ عقل سے عاری اقدام حکومت اور اداروں کے لیے انتہائی سبکی کا باعث بنا ہے۔ پیمرا اور نادرا اداروں کا وقار اور اعتماد مجروح ہوا ہے، اور اُن لوگوں کا بھی کہ جنہوں نے کسی خوشامدی کے کہنے پر نادرا اور پیمرا کو ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نادرا اور پیمرا دونوں ادارے خودمختار نہیں ہیں۔ نادرا کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کا معیار عالمی سطح کا ہے، لغو بات ہے۔ اگر ایسا نہیں تو نادرا حکام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس خاندان کی شہریت کی تفصیلات کیا ہیں؟ اور محض کسی کے کہنے پر اس خاندان کی تضحیک کی گئی۔ یقیناً انہیں ٹھیس پہنچی ہے۔ عوام، خاص کر پشتون عوام و قبائل کے اندر ان تمام اداروں کے بارے میں خفگی اور عدم اعتماد کا احساس پیدا ہوا ہے۔ کم از کم نادرا کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ حافظ حمداللہ کا خاندان پاک افغان سرحدی علاقے چمن کا قدیمی گھرانا ہے۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ ان کے والد قاری ولی محمد نے جو پورے چمن میں قاری والئی کے نام سے معروف تھے، 1962ء میں کوئٹہ کے قدیم دینی مدرسے تجوید القرآن سے قرأت پڑھی اور 1968ء میں چمن میں مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن کے نام سے درسگاہ کی بنیاد رکھی، اور اس مدرسے کی رجسٹریشن بھی اتنی ہی قدیم ہے۔ نادرا کو معلوم ہے کہ قاری ولی محمد مرحوم چمن میں سرکاری اسکول میں معلم القرآن رہے۔ اور یہ امر بھی اس ادارے کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ قاری ولی محمدکے اس بیٹے حافظ حمداللہ نے1968ء میں چمن میں آنکھ کھولی۔ چمن کے محلہ حاجی حسن کی وہ رہائش گاہ اب بھی موجود ہے جس میں خاندان کے دوسرے افراد رہائش رکھتے ہیں۔ خود حافظ حمداللہ 14 جولائی 1986ء کو جونیئر عربک ٹیچر بھرتی ہوئے۔ والد کی وفات کے بعد اپنے مدرسے کے مہتمم اور مسجد کے خطیب رہے۔ گورنمنٹ مڈل اسکول مال روڈ چمن میں2002ء تک پڑھاتے رہے۔ عملی سیاست میں آئے تو ملازمت چھوڑ دی۔ 2002ء کے عام انتخابات میں ایم ایم اے کے ٹکٹ پر چمن سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ تین سال صوبے کے وزیر صحت رہے۔ پھر مارچ2012ء میں بلوچستان سے ایوانِ بالا کی جنرل نشست پر منتخب ہوئے، جہاں ان کی رکنیت کی مدت مارچ2018ء میں ختم ہوئی۔ جولائی2018ء کے عام انتخابات میں جے یو آئی کے ٹکٹ پر کوئٹہ سٹی سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑا ۔ 2005ء میں البتہ انہیں سپریم کورٹ نے بلوچستان کے رکن اور صوبائی وزیر کی حیثیت سے نااہل قرار دیا، وہ اس طرح کہ حافظ حمداللہ نے 2002ء میں انتخاب لڑتے وقت سرکاری ملازمت چھوڑنے کے بعد دو سال تک عملی سیاست نہ کرنے کے قانون پر عمل درآمد نہ کیا۔ حافظ حمداللہ کے والد نے اپنے مدرسے کی رجسٹریشن1967ء میں کرائی۔ 1974ء میں شناختی کارڈ اور 1975ء میں پاسپورٹ بنوایا۔ اس پاسپورٹ پر ویزا لگوا کر 1976ء میں افغانستان گئے۔ شنید ہے کہ حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ2018ء میں ہی بلاک کیا جاچکا ہے۔ ان کے والد قاری ولی محمد مرحوم 1970ء کی دہائی میں چلنے والی تحریک نظام مصطفی میں جمعیت علمائے اسلام کے دوسرے کارکنان اور رہنمائوںکے ساتھ گرفتار ہوئے تھے۔ تین ماہ تک سینٹرل جیل مچھ میں قید کاٹی۔ عالمی معیار کے حامل نادرا کے کرتوت اور کارکردگی سب پر عیاں ہے۔ ان کے تماشوں اور اعمال کی داستانیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ رہی بات اس خیانت کی، تو اس محکمے کو آئندہ دنوں ضرور عدالت کے سامنے جوابدہ ہونا ہے، اور اس کے پاس اختیارات کے غلط استعمال کا جواب نہ ہوگا۔ سیاسی اختلاف، رقم بٹورنے اور دیگر وجوہ کو بنیاد بناکر شہریوں کو آن میں غیر ملکی بنائے جانے کا یہ معیار عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔
دریں اثناء 29 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں حافظ حمد اللہ کی شہریت کی بحالی کے حوالے سے ان کے وکیل کامران مرتضیٰ پیش ہوئے، اور انہوں نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے استفسار پر بتایا کہ سینیٹر حمد اللہ یہاں سے پڑھے ہیں، شناختی کارڈ یہاں کا ہے، ان کے بچے یہاں پر ہیں، ایک بچہ فوج میں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماں اگر بیٹے کو قربان کر سکتی ہے تو اس کے شوہر کی شہریت پر کیسا شک؟ ہائی کورٹ نے حافظ حمد اللہ کی شہریت بحال اورانہیں ٹاک شوز میں جانے کی اجازت بھی دے دی۔