مسائل میں الجھا کسان

چھوٹے کسان کاشت کاری چھوڑ کر مزدوری کے لیے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں
کاشف رضا
سندھ کابینہ نے گندم کی امدادی قیمت مقرر کردی ہے، جسے بے نظیر آباد کے کاشت کاروں نے ناانصافی اور ظلم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضلع شہید بے نظیر آباد میں دو لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کی پیداوار ہوتی ہے، حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت 1380 روپے فی من کو مسترد کرتے ہیں، پچھلے سیزن میں حکومت نے ایک کلو گندم بھی کاشت کار سے نہیں خریدی، ہم گندم کے سرکاری نرخ کو قبول نہیں کرسکتے، یہ ہاتھی کے دانت کی مانند ہے جو کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ حکومت اگر کاشت کار کے ساتھ مخلص ہے تو گندم کے نرخ ڈالر کے اعتبار سے مقرر کرے، باردانے کی غیر منصفانہ تقسیم اور باردانے میں ہونے والی کرپشن، اقرباء پروری، لوٹ کھسوٹ کو ختم کیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ بھر میں گندم کی بوائی شروع ہوچکی ہے اور گندم کے سرکاری نرخ فی 100 کلو بوری 1380 روپے سرکار نے مقرر کردئیے ہیں لیکن کاشت کار اس سے سخت نالاں ہیں۔ ضلع شہید بے نظیر آباد کے کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ جب کاشت کار اپنی زمین پر ٹریکٹر چلاتا ہے تو ڈیزل، ڈی اے پی یوریا اور فصل میں اگنے والی جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کے لیے زہریلی ادویہ ڈالر کے نرخ پر لیتا ہے، جس کی وجہ سے کاشت کار فی ایکڑ پر 20 سے 25 ہزار روپے خرچ کرتا ہے اور 45 سے 55 من فی ایکڑ گندم وصول کرتا ہے، اس طرح اخراجات میں اضافہ کاشت کار کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے۔ دوسری طرف کاشت کار پر اس وقت سب سے بڑا ظلم یہ کیا جاتا ہے کہ فی من پر 2 کلو کٹوتی کی جاتی ہے، اس بددیانتی کا حکومت نوٹس لیتی ہے اور نہ ہی آڑھتی اس کو کاٹنے سے باز آتا ہے، جب گندم کی سرکاری خریداری کا سلسلہ شروع ہوگا تو چھوٹے کسانوں کو اپنی چھ ماہ کی بھرپور محنت کے باوجود مناسب حصہ نہیں مل سکے گا۔
سندھ میں حکومت پچھلے سال گندم کی خریداری میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی تھی جس کی وجہ سے کاشت کار، خاص طور پر چھوٹا کاشت کار آڑھتیوں کے شکنجے میں پھنس گیا تھا۔ چھوٹا کسان گندم کی سرکاری خریداری میں مختلف وجوہ کی بنا پر حصہ نہ ملنے اور اپنے مختلف ذاتی مسائل کی وجہ سے گزشتہ سال فی من 900 روپے کے حساب سے اپنی گندم بیچنے پر مجبور ہوا، جس کے نتیجے میں اسے ایک من پر چار سو روپے کا نقصان ہوا۔ اس کا مطلب ہے ایک ایکڑ پر تقریباً بیس ہزار روپے کا نقصان ہوا تھا۔ اتنا نقصان ایک تاجر کے لیے بھی برداشت کرنا مشکل ہے تو اسے ایک چھوٹا کسان کیسے برداشت کرسکتا ہے! کاشت کاروں نے زور دے کر کہا کہ حکومتِ سندھ کو چاہیے کہ چھوٹے کسانوں کے لیے فوری طور پر امدادی پیکیج کا اعلان کرے، تاکہ ان کا نقصان پورا ہوسکے۔ کھاد اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اس سال گندم کی کاشت میں کسانوں کو، خصوصی طور پر چھوٹے کاشت کاروں کو بہت نقصان ہوا، کیوں کہ اخراجات بڑھ گئے اور ریٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ اس طرح دیکھا جائے تو ریٹ سابقہ برسوں کی مانند ہے۔ حکومت نے گندم کے نرخ نہیں بڑھائے اور امدادی قیمت نہیں دی، جس کی وجہ سے خاص طور پر چھوٹا کسان بہت بدحال ہے۔
حکومت نے گندم کی جو 1380 روپے فی من قیمت مقرر کی ہے، اس قیمت پر سرکاری ادارے کاشت کاروں سے خرید نہیں کریں گے۔ جس طرح گزشتہ سال ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی طرح کے 60 لاکھ ہاری خاندان جنہوں نے گندم لگائی تھی سب کے سب پریشان ہیں۔ انہیں اپنی گندم مارکیٹ میں سستے داموں فروخت کرنا پڑ رہی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ انہیں اپنی چھ ماہ کی محنت کے باوجود صرف 6000 روپےفی ایکڑ بچے ہیں۔ کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ ہم پریشان ہیں کہ اب اپنی اگلی فصل کیسے اگائیں گے، ہمارے گھریلو اخراجات کیسے پورے ہوں گے، ہمارے بچے اسکول کیسے جائیں گے، صحت کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے اور اپنے قرضے کیسے چکائیں گے؟ چھوٹے کسان اپنے مسائل پر عدم توجہی کی وجہ سے اب کاشت کاری چھوڑ کر مزدوری کے لیے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ اور چھوٹے کسانوں کے ان مسائل کی سب سے بڑی وجہ چھوٹے اور بڑے کسانوں کے لیے حکومت کی یکساں پالیسی کا نہ ہونا ہے۔ چھوٹے اور بڑے کسانوں کے لیے فصلیں اگانے میں جو فرق ہونا چاہیے، اور ان کے لیے امدادی پیکیجز میں جو فرق ہونا چاہے، حکومت کی موجودہ زرعی پالیسیوں میں اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ چھوٹے کسانوں کے لیے اپنی گندم براہِ راست حکومت کو فروخت کرنے کے لیے الگ سے کوئی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی الگ سے کوئی امدادی پیکیج موجود ہے۔ وہ پہلے ہی غربت اور قرض کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں اور انہیں اپنی فصل فروخت کرنے میں وہ منافع نہیں ملتا جو بڑے کسانوں کو حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ چھوٹا کسان ایک عرصے سے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ چھوٹے کسان کےلیے صرف گندم کے حوالے سے سوچنے سے نہ تو اس کی غربت دور ہوگی اور نہ ہی اس کے مسائل حل ہوں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ابتدائی طور پر امداد دی جائے۔ انہیں کاشت کاری کے جدید آلات اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے اور ان کے استعمال کی تربیت دی جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں قومی اور بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی کے وسائل فراہم کیے جائیں۔ تاہم کاشت کار تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ رورل انٹری پرینیورشپ، رورل انڈسٹریلائزیشن پر مرکوز بہت سے ایسے منصوبے شامل کرے، جن سے ان کی کارکردگی اور ان کی زندگیوں میں بہتری آئے۔ گندم کی خریداری کے مسئلے کے حل کے لیے حکومت کو چاہیے کہ سرکاری عملے کو سختی سے ہدایت کرے کہ چھوٹے کسانوں کی گندم ترجیحی بنیادوں پر خریدی جائے اور جن خریداری مراکز کے عملے کے خلاف کرپشن کی شکایات ہیں ان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے، اور خریداری مراکز پر چھوٹے کسانوں کو انتظامیہ میں شامل کیا جائے، تاکہ ان کے خلاف ہونے والے استحصال کو روکا جا سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ چھوٹے کسانوں کے حالات کو سدھارنے کے لیے پالیسی ساز اداروں میں چھوٹے کسانوں کو لازمی طور پر شامل کرے، اور ان کے لیے ”کسان دوست“ پالیسیاں بنائے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں چھوٹے کاشت کاروں کی گندم کی سرکاری خریداری کے مسئلے پر فوری اور ترجیحی بنیادوں پر توجہ دیں، تاکہ وہ اپنے مالی مسائل کے حل اور اپنی اگلی فصل کی کاشت کے لیے وسائل حاصل کر سکیں۔