علم کے گمشدہ شہر

مائیکل ہیملٹن مورگن۔ترجمہ و تلخیص:ناصر فاروق
قرطبہ، عہدِ بنوامیہ، 756عیسوی۔ ایک نوجوان شہزادہ جس کے ذہن میں اب تک دمشق کی وہ رات کسی تلخ یاد کی طرح سلگ رہی تھی، کہ جب شاہی خاندان کا قتلِ عام ہوا تھا، وہ آج قدیم رومی شہر Khordoba (جسے بعد میں عربوں نے قرطبہ کا نام دیا)کے ایک پہاڑ کی چوٹی پر فاتح بن کر نمودار ہوا تھا، اور شہر پر فاتحانہ نظر دوڑا رہا تھا۔ یہ مقام (اسپین) اُس کے آبائی دارالخلافہ سے 2300 میل دورتھا۔
سن 750 کی اُس رات کے بعد، جب وہ اپنے خاندان اور دیگر احباب کی چیخ پکار سنتا رہا تھا، عبدالرحمان وہاں سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوا تھا، صرف ایک بھائی یحییٰ اور غلام بدر ساتھ تھے، بڑی بے سروسامانی کا عالم تھا۔ اُن کی دنیا اُن کے پیچھے ریزہ ریزہ ہورہی تھی۔ یہ تینوں طویل سفرکے بعد فلسطین پہنچے، وہاں سے مصر گئے، اور اب پریشان تھے کہ جائیں تو جائیں کہاں؟
دوسری جانب عباسی امویوں کا دمشق اجاڑ رہے تھے، دارالخلافہ بغداد منتقل کیا جارہا تھا۔ یہ نوجوان جو اب لاوارث ہوچکا تھا، در بہ در بھٹک رہا تھا۔ حال یہ تھا کہ اپنی اصل شناخت بھی ظاہر نہ کرسکتا تھا کہ مبادا کہیں کوئی عباسی جاسوس مخبری کردے، یاکوئی قاتل زیر کرلے۔ ہر موڑ پر امویوں کا سفید پرچم اتارا جارہا تھا، اور عباسیوں کا سیاہ جھنڈا لہرایا جارہا تھا۔ نئے خلیفہ المنصور کے جاسوس اور حامی ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے۔ جبکہ امویوں کے حمایتی یا ہمدرد، اگرکہیں باقی رہ گئے تھے، چھپتے پھررہے تھے یا خاموش تھے۔ فلسطین میں ایک مقام پر حکومتی کارندوں نے انھیں جالیا تھا، اس موقع پر جھڑپ میں عبدالرحمان کا بھائی یحییٰ مارا گیا تھا، جبکہ خدمت گار اور وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ آگے کا سفر دونوں نے تنہا ہی کیا۔ جوکچھ واقف کار ملے بھی، انھوں نے زیادہ سے زیادہ دور نکل جانے کی تاکید کی۔ اُس نے اپنی شناخت کئی بار بدلی۔ کسی مقام پرسپاہی کا روپ دھارا، کہیں مدرس اور کہیں تاجرکا حلیہ اپنایا۔ وہ نوجوان اور پُراعتماد تھا، مگر اُس رات کی دہشت عبدالرحمان کو بہت دور تک لے گئی۔ سب سے زیادہ جس بات نے اسے بقاء کی تحریک دی، وہ چچا مسلمہ کی وہ بات تھی جو اب یادداشت پر دستک دے رہی تھی کہ ’’ایک بڑی آزمائش کے بعد، نوجوان عبدالرحمان ہی بنوامیہ کی شان وشوکت دوبارہ زندہ کرے گا‘‘۔ امید کی کرن دونوں کو مغرب کی جانب لے گئی۔
وہ فیصلہ کرچکے تھے کہ اس مشکل صورت حال میں شمالی افریقہ ہی اُن کے لیے ایک محفوظ مقام ہوسکتا تھا، جہاں ماضی کے وفادار اموی امراء اپنی اپنی عمل داری میں اب تک موجود تھے۔ تاہم وہاں کسی نے عبدالرحمان کو پناہ کی پیشکش نہ کی، اور نہ ہی اُس کے قتل کی کوئی کوشش کی گئی۔ وہ اس صورت حال سے دل برداشتہ نہ ہوا۔ اُسے اندلس میں مسلمانوں کی پیش قدمی کی خبریں مل رہی تھیں، اُس نے خدمت گار کو آبنائے جبل الطارق کی جانب روانہ کیا کہ حالات کی کچھ خبر لائے۔ بدر ایک یمنی گروہ سے چند دلچسپ خبریں لے کر لوٹا۔ اُندلس کی گورنری اُس وقت امیر یوسف الفہری کے پاس تھی، عرب قبیلہ قیس عیلان اُس کا اتحادی تھا۔ یہ صورت حال عبدالرحمان کے اقتدار کی راہ ہموار کرسکتی تھی۔ وہ یمنی جو طارق بن زیاد کے لشکر کا اہم حصہ تھے، چار دہائیوں قبل مرکزی دھارے سے کاٹ دیے گئے تھے۔ عبدالرحمان نے ان کی حمایت حاصل کی۔ اُس نے ابتدا میں بیس حمایتیوں کوآبنائے سے ملحق تمام علاقوں میں روانہ کیا۔ جوں جوں وہ شمال کی جانب گئے، زیادہ سے زیادہ باغی عبدالرحمان کی حمایت میں آگے آتے گئے۔ اب وہ امیر عبدالرحمان الداخل کہلایا جانے لگا تھا۔ ان حامیوں میں سے بہت سے وہ تھے جو بنوامیہ کے وفادار تھے، اور دیگر وہ تھے جو موجودہ امارت سے غیر مطمئن تھے۔
امیرالفہری اموی شہزادے عبدالرحمان کی موجودگی سے بہت بے چینی محسوس کررہا تھا، جبکہ یمنی باغی جتھے بھی اُس کی بیخ کنی چاہتے تھے۔ اس پیشگی خطرے سے بچنے کے لیے الفہری نے عبدالرحمان کو فراخ دلانہ پیشکش کی، اپنی بیٹی سے اُس کا نکاح کرنا چاہا، ایک بڑی جائداد اور محفوظ پناہ گاہ بھی اُسے پیش کی۔ مگر عبدالرحمان نے پیشکش مسترد کردی۔
اگلے سال تک عبدالرحمان کی فوج میں کافی اضافہ ہوچکا تھا۔ 756ء میں اُس کی امیرالفہری سے قرطبہ کے محاذ پر ملاقات ہوئی۔ مفلوک الحالی کے باوجود نڈر عبدالرحمان میدان کا فاتح رہا۔ اب وہ امیر عبدالرحمان اوّل کہلایا۔ پچیس سال کی عمرکے اس نوجوان کے پاس اپنا کوئی جھنڈا تک نہ تھا کہ جسے فتح پر لہرایا جاتا، لشکر کے کسی سپاہی نے اپنا سبز عمامہ اتارا اور فضا میں لہرا دیا۔ امارت سنبھالنے کے بعد عبدالرحمان کا پہلا کام باغی یمنیوں کو قابو کرنا تھا، کہ جو فتح کے بعد بڑی قتل وغارت گری کا ارادہ رکھتے تھے، عبدالرحمان نے انھیں باز رکھا۔ وہ عدل و انصاف اور صلۂ رحمی کے معاملے پر کوئی سمجھوتا نہیں چاہتا تھا۔ یمنیوں سے نمٹنا ہی اُس کا پہلا سیاسی چیلنج تھا۔
عباسیوں سے امیر الفہری کی شکست برداشت نہ ہوتی تھی۔ انھوں نے عبدالرحمان کے قتل کے لیے ایک مہم اندلس روانہ کی جو قرطبہ کے قریب پہنچ چکی تھی۔ عبدالرحمان نے یہ مہم کامیابی سے ناکام بنائی۔ آئندہ دو صدیوں تک بنوامیہ کا یہ سلسلہ عالم اسلام کی خلافت پر پوری شان و شوکت سے متمکن رہا۔
بقاء اور امارت کی کشمکش سے فرصت ملی تو عبدالرحمان اوّل نے پتھریلے پہاڑوں اور بنجر وادیوں میں گھرے اس شہر کو ’اموی دمشق‘ بنانے کا عزم کیا، کہ جیسے ماضی کے سنہرے دن لوٹ آئیں گے! وہ یہاں اموی شہر کی ازسرنو تخلیق چاہتا تھا، ترقی کے وہ سارے مظاہر جوتباہی کی نذر ہوچکے تھے، انھیں پھر سے زندہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ قرطبہ کو انتظامی و جمالیاتی خوبیوں کا مرکز بنانا چاہتا تھا۔ وہ اس شہر میں نہ صرف دمشق کی علمی و انتظامی میراث قائم کردینا چاہتا تھا بلکہ اسے عالمی وتہذیبی شہر بنانے کا عزم کرچکا تھا۔
یہ کس قدر تلخ سچائی ہے، کہ اگر تاریخ میں ذرا پیچھے اور قدرے فاصلے سے دیکھا جائے، تو عباسی اور اموی سلسلوں میں فرق بہت کم اور مماثلتیں بہت زیادہ نظر آئیں گی۔ ان کے باہم تنازعات کی نوعیت محض نسلی و عقائدی تھی۔ ایک طرف سفید دوسری جانب سیاہ پرچم لہراتے تھے۔ مگر حصولِ علم اور اسلام کی عظمت کے لیے دونوں کا رویہ ایک جیسا تھا۔ دونوں نئے علوم اور ایجادات کے لیے اپنی توانائیاں صرف کررہے تھے۔ دونوں علم و تہذیب کی تشکیل و تکمیل چاہتے تھے۔ اس معاملے میں کہیں کوئی فرق، کوئی تساہل، کوئی سمجھوتا نہ دیکھا گیا۔
عبدالرحمان اوّل نے سب سے پہلے شہر کے انتظامی ڈھانچے پر توجہ دی۔ شاہراہوں کے جال بچھائے گئے۔ پُل تعمیر کیے گئے۔ مساجد اور مدارس قائم کیے گئے۔ پانی کی فراہمی کا مؤثر نظام بنایا گیا۔ یہاں دمشق اور شامی پیڑ پودے لاکر لگائے گئے۔ زیتون، کینو، اور لیموں وغیرہ کی بھرپور کاشت کی گئی۔ اس بے آب وگیاہ مغربی خطے کی گویا تقدیر ہی بدل گئی۔ کاشت کاری کے دمشقی طورطریقے یہاں رائج کیے گئے، ہائیڈرالکس وغیرہ کا استعمال عام ہوا۔
اندلس کا شہر اشبیلیہ، جو بعد میں Seville کہلایا، شام کے شہر حمص سے اس قدر مشابہ تھا کہ شاعروں نے اسے اندلس کا حمص پکارا ہے۔ بعد میں جب کبھی اندلس کے مسافروں نے مشرق کا سفر کیا، انھیں اس بات پر خوشگوار حیرت محسوس ہوئی کہ شامی شہر انھیں اپنے گھر کی یاد دلاتے تھے۔
عبدالرحمان نے دارالحکومت میں ایک بہت وسیع وعریض باغ تعمیر کروایا، اس کا نام الرصافہ رکھا۔ ایک شاندار محل تعمیر کروایا، جس کا نام دمشق محل تھا۔ سن 786ء میں اُس نے عظیم تاریخی مسجد قرطبہ کی تعمیر شروع کروائی، اس کی تکمیل میں باسٹھ سال کا عرصہ لگا۔
بوڑھے امیر نے مسجد قرطبہ پر ایک نظم کہی:
’’کھجور کا ایک شجر جو الرصافہ کے بیچ کھڑا ہے
مغرب کی مٹی میں جس کی آبیاری ہوئی، کھجوروں کی سرزمین سے دور
میں کہتا ہوں اُس سے: تُو بھی مری طرح دور ہے دیس سے
دوستوں اور عزیزوں سے بچھڑا ہے کئی زمانوں سے
ایسی مٹی میں نمو پائی ہے تُو نے، جو اجنبی اور انجان ہے تجھ سے
تو مری طرح ہے، دور ہے گھر سے
تاہم ابتدا کی اس تنہائی اور ماضی کی یادوں بھری اداسی کے باوجود عبدالرحمان کا وژن جانشینوں نے بڑی خوبی سے تین صدیوں تک آگے بڑھایا، اور اس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ اندلس ہی اب ان کا وطن تھا۔ امویوں کا اندلس اپنی ہی ایک صورت اختیار کرچکا تھا۔ مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سوسال پورے یا بیشتر ہسپانیہ پر حکمرانی کی۔
مسلم ہسپانیہ کے اس دور میں اموی امارت مستحکم ہوئی، اور پھر خلافت میں ڈھل گئی۔ شہری ریاستیں جو طائفہ کہلاتی تھیں، مسلمانوں یا عیسائیوں کی انتظامیہ کے تحت آچکی تھیں۔
اموی خلافت کے دور میں قرطبہ کی عظیم مسجد فنِ تعمیر کا شاہکار بن چکی تھی۔ شہر کے نواح میں قصبہ مدینہ ازہرہ تعمیر کیا جاچکا تھا۔ گیارہویں صدی میں قرطبہ یورپ کا سب سے ترقی یافتہ شہر بن چکا تھا۔ یہاں کی آبادی پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ یہاں تین سو حمام تھے، تین سو مساجد تعمیر کی جاچکی تھیں، پچاس اسپتال قائم کیے جاچکے تھے، خواندگی کا معیار اعلیٰ، عوامی اور ذاتی کتب خانے بے شمار تھے۔ صرف اس شہر کی کتابوں کی تعداد باقی پورے یورپ کی کتابوں سے زیادہ تھی۔ اور پھر ایک عرصہ دنیا اس شہر کے علوم سے فیض یاب ہوئی۔
پھر حالات بدلے، قرطبہ پر شمالی افریقا کے المرابطون نے حملہ کیا، اموی خلافت زوال پذیر ہوئی، ریاست کا ڈھانچہ کمزور پڑنے لگا، شہری ریاستوں میں چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم ہوئیں۔ بعد میں الموحدون اور بنو نصر کی مزید مداخلتوں نے مسلم اندلس کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ سقوطِ غرناطہ کے وقت بنونصر ہی اندلس کے شاہی حکمران تھے۔
تاہم معجزاتی طور پر امویوں کی علم دوستی کے ثمرات اور اثرات آخری ایام تک ظاہر ہوتے رہے۔ شہری ریاستوں میں بھی تعلیم وتہذیب کے فروغ پر مسابقت جاری رہی۔ نت نئی ایجادات اور تحقیق کے سلسلے برقرار رہے۔ طائفے جیسے میڈرڈ، سیویل، زاراگوزا اور ٹولیڈو میں مسلمانوں کی مزید کامیابیاں سامنے آئیں۔
ان شہری ریاستوں میں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی ہم آہنگی مثالی تھی۔ سہ مذہبی معاشرے کی اعلیٰ روایات قائم کی گئی تھیں۔ اہلِ کتاب کو منصفانہ طور پر دوسرے درجے کی شہری حیثیت دی گئی تھی، وہ مکمل سلامتی میں تھے، مذہبی آزادی انھیں میسر تھی، تاہم اسلام کی بیخ کنی کسی صورت قابلِ برداشت نہ تھی۔
قدیم آئبیرین عیسائی جن کا جھکاؤ اب تک روم کی جانب تھا، عربی بول اور لکھ رہے تھے۔ یہ مستعرب کہلاتے تھے۔ ان کی لسانیاتی مہارتیں بغداد کے نسطوریوں کی طرح تھیں۔ انھوں نے لاطینی، یونانی اور عبرانی کلاسیک کو عربی میں ڈھالا اور متوازی سائنس اور ادب کو فروغ دیا، جو بغداد سمیت کسی بھی مسلم شہر سے مسابقت میں پیچھے نہ رہا تھا۔ آئبیریا کے یہودی جو عہدِ روم سے قبل اور بعد کے تھے، مغربی گوتھ کے مظالم سے دوچار رہے تھے، مسلمانوں میں اپنے لیے بھرپور تحفظ اورسلامتی دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے بھی عربی زبان سے فیض حاصل کیا۔ اس سرزمین پر پہلی بار کسی یہودی نے دوسرا اعلیٰ ترین سیاسی عہدہ حاصل کیا تھا، کہ جب رابی ہسدائی ابن شاپرت کو وزیر خارجہ کے منصب پر فائزکیا گیا۔ یہ عبدالرحمان سوئم کا زمانہ تھا۔ یہودیوں نے اس دور میں تجارت اور تعلیم میں کمال حاصل کیا، اور اندلس کی علمی میراث میں بھرپور حصہ ڈالا۔ دنیا بھرکے جلا وطن یہودی تیزی سے اندلس کا رخ کررہے تھے۔ یہ اندلس کی بکھری ہوئی کمیونٹیز کے درمیان سب سے منظم اور اہم گروہ بن چکا تھا۔ یہودیوں کا یہ نیا گھر عبرانی میں صفارد کہلایا، اور یہ یہودی کمیونٹی صفاردی پکاری گئی۔ یہ آٹھ صدیوں تک مسلمانوں کی ریاست میں پھلے پھولے۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلم اندلس میںکوئی افسوسناک واقعہ پیش نہیں آیا۔ غرناطہ میں یہودیوں کے ایک سو پچاس خاندان اور قرطبہ کے اڑتالیس عیسائی قتل کیے گئے تھے، ان واقعات کی وجہ توہینِ اسلام اور توہینِ رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمِ) کا ارتکاب تھا۔ ان اکا دُکا واقعات کے سوا صورت حال باہمی ہم آہنگی سے عبارت تھی۔ بلکہ بعض اوقات ایک دوسرے سے تعاون میں یہ بہت آگے بھی بڑھ جاتے تھے۔ اپنے اپنے عقائد میں کٹر پن کے باوجود باہمی احترام اور عزت موجود تھی۔
اسلامی دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسجد قرطبہ جب کیتھڈریل کے لیے وقف کی گئی، یہ عیسائیوں کی دوبارہ فتح کا سال تھا۔ نسل پرست ملکہ ازابیلا جو یہودی دوستوں کے ساتھ یہیں پلی بڑھی تھی، غرناطہ کے آخری امیر کو طلب کرنے سے پہلے اُس نے مسلم لباس زیب تن کرلیا تھا۔ سقوطِ غرناطہ کے بعد بھی گرجاگھروں اور سیناگاگز میں عربی نقش اور کندہ تحریریں مٹائی نہ گئی تھیں۔ آج بھی اسپین میں مدیجار فنِ تعمیر کے اعلیٰ نمونے دیکھے جاسکتے ہیں، جو اُس وقت کے شام اور عرب کی شان و شوکت یاد دلاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب گرجا گھروں سے گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں، تو لاطینی زبان میں عربی لب و لہجے کی گونج سنائی دیتی ہے، یہ تاریخ گُم گَشتہ کی میراث ہے۔
طارق بن زیاد کی فتح سے سقوطِ غرناطہ تک کے طویل وقفے میں، اندلس نے دنیا کو معجزاتی ترقی سے ہمکنار کیا۔ فنِ تعمیر، موسیقی، ادب، فلسفہ، دوا سازی، اور سائنس اپنے کمال پر پہنچی۔ مگر افسوس کہ یہ بھی بیشتر تاریخ گُم گَشتہ ہوچکی۔ اس تاریخ کا بیشتر حصہ اسپین انکوئزیشن کی دہشت کی نذر ہوا، مسلمانوں اور یہودیوں کی بڑی تعداد میں اسپین سے جبری بے دخلی سے یہ میراث منتشر ہوگئی۔ اندلس جو صدیوں سے ان کا آبائی وطن تھا، اُن سے چھین لیا گیا تھا۔ انمول کتب خانوں کو آگ لگادی گئی تھی۔
انکوئزیشن کے پانچ سو سال بعد، تاریخ گُم گَشتہ دھیرے دھیرے بازیافت کی گئی۔ مگر یہ اب بھی بیشتر گُم شدہ ہی رہی، اکثر لوگ اس سے ناواقف ہی رہے، یہاں تک کہ وہ عرب اور مسلمان بھی جن کے آباء کی یہ میراث تھی۔
سولہویں صدی کی نظم، جو اندلسی مسلمان محمد ربدان نے لکھی، عیسائی استبداد کا نقشہ کھینچتی ہے:
خدا کی اسی میں رضا تھی
کہ عیسائی بادشاہی میں مسلمان ظلم سہیں
سزاوار ٹھہرائے جائیں، غلام بنائے جائیں
کتابیں جو ہم سے کھوئی گئیں
جن کے نشاں تک نہ بچے آثاروں میں
عالم عالم ِموت میں جاچکے تھے
یا اندھیری کال کوٹھریوں میں گُم ہوچکے تھے
عیسائی مظالم کا دور دورہ تھا
جبر اور تشدد کا دور دورہ تھا
ہر طرف زمین کانپ رہی تھی
مسلماں ہرطرف ہراساں تھے دربدرتھے
وطن سے نکالے جاچکے تھے، عیسائی بنائے جاچکے تھے
لمحہ لمحہ قیامت تھی جو گزری اُن پر
گلی گلی ذلت تھی جو گُزری اُن پر
کیوں ہوئے ایسے مظالم اُن پر
یہ راز کیا ہے… خدا ہی جانے!
قاہرہ، سمرقند، اصفہان، دہلی… اب مسلمانوں کے علوم اور تہذیب مراکز سے نکل کر باقی دنیا میں فروغ پارہے تھے۔ قرطبہ، بغداد، اور دمشق کے سنہرے ادوار آنے والی صدیوں میں دیگر کئی سنہرے ادوار تشکیل دے رہے تھے۔ یہ نئے شہر اور ادوار مسابقت میں نئی پیش رفت کررہے تھے۔ تخلیقات اور ایجادات کی نئی صورتیں پیدا ہورہی تھیں۔ ابتدائی مسلم روایات میں جدتیں آرہی تھیں۔ نظریات و کلیات میں ندرتیں نمایاں تھیں۔ علم ودانش کی طلب میں اضافہ ہورہا تھا۔ مصر کا اسکندریہ بھی مسلمانوں کی عمل داری میں ترقی کررہا تھا، نیل کنارے آباد قلوپطرہ کا یہ شہر نئے تجربوں سے گزر رہا تھا۔ سن 642ء میں عرب یہاں پہنچے تھے۔ مسلمانوں نے یہاں قلعہ نما شہرتعمیر کیا، جو القاہرہ کے نام سے پہچانا گیا۔969 ء میں تیونس سے اسمٰعیلیوں نے مصر پرحملہ کیا، اور اپنی ریاست مستحکم کی۔ وہ عباسی خلافت کے سیاسی انتشار اور انتظامی زوال سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ یہ فاتحین شیعہ فاطمی کہلاتے تھے۔ یہ کسی حد تک اپنے عزائم میں کامیاب رہے،گو ابتدا میں یہ غیر ممکن لگتا تھا۔ گیارہویں صدی میں فاطمی عروج پر پہنچے، انھوں نے شمالی افریقا کے کئی حصوں میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ ان حصوں میں مصر، فلسطین، شام، سسلی، اور یمن وغیرہ شامل تھے۔
یہ فاطمی تھے، جنھوں نے قاہرہ میں ازمنہ وسطیٰ کے خطوط پر ہی اپنا نظام استوار کیا، قاہرہ کو علمی سرگرمیوں کا عالمی مرکز بنایا۔ انھوں نے بین الثقافتی معاشرہ بندی کی، اور سنی مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کوترقی کے مساوی مواقع فراہم کیے۔ یہ لوگ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز کیے گئے۔ فاطمی علمی سرگرمیوں میں عباسیوں اور امویوں کے نقشِ قدم پر چلے۔ انھوں نے قاہرہ میں ایک عظیم الشان مسجد اور تعلیمی ادارہ جامعہ ازہر تعمیر کیا، جو بعد کی کئی صدیوں تک صفِ اول کی جامعات میں شمار ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ماہرِ فلکیات ابن یونس اور عراقی ماہر طبیعات ابن الہیثم جیسے بڑے علماء نے قاہرہ کا رخ کیا۔ ابن الہیثم نے روشنی اور بصارت سے متعلق انقلابی کلیات پیش کیے، ان کلیات کی بنیاد پر صدیوں بعد Leeuwenhoek نے اس شعبے میں نئے اکتشافات کیے۔
جامعہ الازہر اصل میں ایک اسمٰعیلی مدرسہ ہی تھا، مگر 1171ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں اس ادارے نے بڑے علمی مرکز کی حیثیت اختیار کی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے نہ صرف مسلم معاشرے کی علمی وتہذیبی ترقی میں بھرپور دلچسپی لی، بلکہ میدانِ جنگ میں عیسائی صلیبیوں کے طوفان کا رخ موڑ دیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی یورپیوں کے لیے شانِ سپہ گری کی علامت بن چکا تھا۔ یروشلم کی فتح کے موقع پر عیسائیوں سے اُس کا رحم دلانہ سلوک تاریخ پر انمٹ نشان چھوڑگیا، اور رچرڈ شیردل سے باہمی احترام کا تعلق عمدہ مثال بن کر سامنے آیا۔
تیرہویں صدی میں منگولوں کے ہاتھوں سقوطِ بغداد کے ہولناک واقعے نے قاہرہ کی سیاسی اورعلمی مرکزیت کو مزید اہم بنادیا تھا۔ مفکرین، محققین اور موجدین نے قاہرہ کو ہی اپنا مستقر بنالیا تھا۔ تیرہویں صدی کے آغاز میں شامی نژاد ابن نفیس نے جو قاہرہ کے المنصوری اسپتال میں درس و تدریس سے وابستہ تھا، پہلی باریونانی ماہر طبیعات جالینوس کی غلطی کی نشاندہی کی۔ ابن نفیس نے انسانی جسم میں خون کی گردش کو بہتر طور پر واضح کیا۔ اُس نے بتایا کہ خون کس طرح دل سے پھیپھڑوں اور پھر باقی جسم میں گردش کرتا ہے، اور واپس دل کا رخ کرتا ہے۔
سن 1250ء سے 1517ء تک قاہرہ پر مملوکوں کی حکومت قائم رہی۔ انھیں عثمانی ترکوں نے نکال باہرکیا۔ 1000ء سے 1500ء تک، سیاسی زلزلوں کے باوجود مسلمان دنیا میں قاہرہ کی علمی مرکزیت متاثر نہ ہوئی۔
یہی وہ زمانہ تھا جب فارس میں بغداد کی عباسی حکومت ذہانت، ذکاوت اورعلمی قابلیت کے جوہر دکھا رہی تھی۔ بے مثال مسلم تعلیمی مراکز قبل از اسلام کے فارسی اداروں کو گہنا رہے تھے۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد فارس کے شہر خراسان، قزوین، اور تبریز اپنے سنہرے ترین دور میں داخل ہوئے۔ اصفہان نے سلجوق ترکوں کے دور میں ترقی کی نئی منزلیں طے کیں۔ سلجوق حکمران ملک شاہ اور اُس کے جانشینوں نے اہلِ علم کی بھرپور پذیرائی کی۔ اُس کے دربار میں دانشوروں اور شاعروں کی بڑی قدر ومنزلت تھی۔ سلجوق ترکوں نے اُن انتظامی خوبیوں کا مظاہرہ کیا جو گیارہویں صدی سے چودہویں صدی تک عثمانی سلطنت کی وسعت و عظمت میں نمایاں نظرآتی ہیں، یہ وہ خطہ ہے جو آج کے پاکستان سے ترکی جدید تک پھیلا ہوا ہے۔ اُن کے شہر نیشاپور اور اصفہان عظیم شاعروں اور سائنس دانوں کی جائے قرار تھے، عمر خیام اور اُس کے سرپرست نظام الملک نمایاں نام ہیں۔ نظام الملک نے اسی عہد میں مدرسہ نظامیہ کا سلسلہ پورے مشرق وسطیٰ میں قائم کیا تھا۔ سلجوق ترکوں کا دارالحکومت اناطولیہ کا شہر کونیا تھا۔ کونیا صوفی بزرگ مولانا روم کا شہرہے، مسلمانوں اور عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد اُن کی معتقد ہے، مولانا روم کی شہرۂ آفاق مثنوی آٹھ صدیوں سے دنیا بھر کے اہلِ علم کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔
جب ایشیا کے شہر نقشے پر پہلی بار نمایاں ہوئے، تو اُن پر فارسی ثقافت اور روایات کی چھاپ کسی بھی دوسری ثقافت سے زیادہ واضح تھی۔ یہاں تک کہ فارسی سیاست کی حیثیت بھی ثانوی تھی۔
عباسیوں کے عروج سے زوال تک، اور ہندوستان میں مغلوں کے آخری ایام تک، اور ترک عثمانیوں کے معدوم ہونے تک فارسی ثقافت کے اثرات یوں مرتب ہوئے تھے کہ جیسے نارمن فتوحات سے اکیسویں صدی تک فرانس کے اثرات یورپ پر مرتب ہوئے۔ استنبول کے عثمانی دربار سے سمرقند کے تیموری دربار تک، اور مغلوں کے ہندوستان میں فارسی بول چال کی عام زبان بن چکی تھی، فارسی رسم الخط ہی میں ادب تخلیق کیا جارہا تھا۔ فارسی قالینوں سے فارسی روزنامچوں تک کی نقل کی جاتی تھی۔
وسطی ایشیا میں اسلام اور اس کی تہذیب نے آٹھویں صدی میں قدم جمائے تھے۔ کابل، بخارا، اور غزنی مسلم تہذیب، فکر اور جدتوں کے اعلیٰ مظاہر بنتے جارہے تھے۔
تیرہویں صدی کی ابتدا میں گو کہ منگول عراق سے مشرقی یورپ اور روس تک تباہی مچا رہے تھے، جلد ہی اسلامی تہذیب میں جذب ہوچکے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کی علمی اور سائنسی کامیابیوں کی بھرپورسرپرستی کی۔
سن 1406ء میں جب منگول کمزور پڑنے لگے تھے، سمرقند کے قریب منگول حکمران تیمورلنگ کی عمل داری قوت پکڑ رہی تھی۔1306 ء سے1336 ء تک کے مختصر دورِ حکمرانی میں تیمورلنگ نے روس سے شمالی ہندوستان تک فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ اس عہد میں شہر سمرقند دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا تھا، تعلیمی ودینی ادارے یہاں قائم کیے جاچکے تھے۔ منگول ہونے کے باوجود تیمور نے فارسی ثقافت اور طور طریقوں کو ازسرِنو رواج دیا۔ نسلوں تک ہزاروں وسطی ایشیائی علماء اور سائنس دان اناطولیہ سے مصر اور اندلس تک پھیل چکے تھے۔ منگول جو بغداد جیسے عظیم الشان شہرکوزمین بوس کرچکے تھے، اب اسلام کے سفیر بن چکے تھے۔ بغداد کے غارت گر ہلاکو خان نے اسلامی ریاست میں دنیا کی پہلی عظیم الشان رصدگاہ تعمیر کروائی، جہاں اجرام فلکی کا مشاہدہ و مطالعہ کیا جاتا تھا۔
ترک عثمان سلجوقوں کے تہذیبی وارث ہوئے تھے۔ اناطولیہ میں ان کی بادشاہت سن 1299ء میں قائم ہوئی تھی۔ سن 1453ء میں محمد دوئم کی قیادت میں عثمانی ترکوں نے قسطنطنیہ فتح کیا اور اس کا نام استنبول رکھ دیا۔ عثمانیوں نے اصل عرب خلافت کا بیشتر علاقہ اپنی قلمرو میں شامل کرلیا تھا، یونان اور بلقان بھی ان کے زیر نگیں آچکے تھے، مگر اندلس تک وہ نہ پہنچ سکے تھے۔ سلطان سلیمان کے دور میں عثمانیوں کی سلطنت عروج پر پہنچی، یہ عہد بھی مذہبی رواداری اور علمی روایات کی ترویج کا شاہکار تھا، مسلمانوں کی فوجی قوت پھر سے یورپ پردباؤ بڑھا رہی تھی۔ ہنگری کی مہم سے ویانا کے محاصرے تک یہ سلسلہ جاتا ہے۔
دور جنوب مشرق میں عرب مسلمان شمالی ہندوستان کے علاقے سندھ کوفتح کررہے تھے، آگے بڑھ رہے تھے، بحیرہ عرب کے رستے تجارت کررہے تھے، ہندوستان کی بندرگاہوں پرمسلم تہذیب درآمد ہورہی تھی۔ بارہویں صدی تک وسطی ایشیا سے مسلمانوں کی فوجی کارروائیوں نے لاہور سے دلی تک انمٹ نشان ثبت کیے تھے۔ افغان سرحدوں سے بنگال تک مسلمانوں کی عظیم سلطنت پھیلی ہوئی تھی، دلی دارالحکومت تھا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا سنہرا دور مغلوں کے ساتھ آیا، اور 1857ء تک یہ سلطنت قائم رہی۔ پہلا فاتح مغل بادشاہ بابر تھا۔ بابر تیمورکی نسل سے تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب تیموری سلطنت وسطی ایشیا میں دن پورے کرچکی تھی۔ لاہور اور دلی کے علاوہ آگرہ شہر میں مغلوں کی عظیم روایات کے اثرات گہرے ہیں، ہندوؤں کے لیے مسلم رواداری کی تاریخ بے مثال ہے۔ مغل طرزِ تعمیر کے شاہکار دنیا بھرمیں مقبول ہیں۔ شہاب الدین محمد شاہ جہاں کا عجوبہ تاج محل، دلی کا لال قلعہ، اور دیگر تعمیراتی شاہکار اپنی مثال آپ ہیں۔ شاہ جہاں نے فارس کی شہزادی نورجہاں سے شادی کی تھی۔ نورجہاں نے فارس سے سینکڑوں ماہرینِ فنِ تعمیر، شاعروں اور دانشوروں کو ہندوستان آنے کی دعوت دی۔ مغلوں کے دربار اہلِ علم کی آماج گاہ تھے۔ یہاں ان کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ تاہم نورجہاں اور فارسی مہمانوں پر بدعنوانی کے الزامات لگے، مقامی درباری بھی شاہ جہاں سے ناراض ہوئے۔ یوں شاہ جہاں کو بیٹے کے ہاتھوں اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ سترہویں صدی کے آغاز تک، ہندوستان کے مغلوں کی دولت دنیا کی مجموعی دولت کا پچیس فیصد تھی، اور یہاں کی چودہ کروڑ کی آبادی پر مبنی قوم کا کوئی مقابلہ سارے عالم میں نہ تھا، سوائے چین کے۔ چودہویں صدی کے سیاح ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ شمالی افریقا سے ہندوستان تک جغرافیہ، زبان اور رنگ ونسل کے فرق کے باوجود علمی وتہذیبی ہم آہنگی اور یک رنگی اپنے کمال پر تھی۔ یہی وہ دانشور، ماہرین اور سائنس دان تھے، جنھوں نے جدید دنیا کی علمی، فنی و تہذیبی بنیادیں رکھی تھیں۔
یورپ اور دیگر مقامات پر موجود غیر مسلم اس عظیم علمی میراث پر مبہوت اور حیران تھے، مگربعد میں وہ نہ صرف یہ عظیم نام بھول گئے بلکہ اُن کے بنیادی کام بھی فراموش کرگئے، اور خیال یہ کرنے لگے کہ انھوں نے تنہا دنیائے جدید تخلیق کی ہے۔
تاریخِ گم گشتہ (باب2)۔