کتاب : روبوٹ بوبی
(سائنس فکشن)
مصنفہ : تسنیم جعفری
ضخامت : 156 صفحات قیمت:260 روپے
ناشر : ابابیل پبلشرز
ملنے کا پتا : تعمیر پاکستان پبلی کیشنز،کمرہ نمبر 16۔ دوسری منزل۔ ڈیوس ہائٹس،38 ڈیوس روڈ۔ لاہور
فون : 0300-4137820
برقی پتا : TasneemjafriI@gmail.com
ویب گاہ : www.tasneemjafri.com
بچوں کے لیے لکھنا بچوں کا کھیل ہے اور نہ ہر کس و ناکس کے بس کا روگ۔ خاص طور پر سائنسی موضوعات پر لکھنا تو اور بھی زیادہ مشکل اور محنت طلب کام ہے، کہ اس کے لیے عام کہانیاں لکھنے کی طرح محض تخیل کی پرواز کافی نہیں، بلکہ سائنسی دنیا کے ہر روز بدلتے حالات اور جدید سائنسی تحقیق کے نتائج سے آگاہی بھی لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی موضوعات پر بچوں کے لیے کہانیاں اور مضامین لکھنے والے خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں، حالانکہ آج انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور بے پناہ معلومات و جدید سہولتوں سے آراستہ موبائل فون کے دور میں پرورش پانے والی نئی نسل کے ذوق کی تسکین کے لیے ایسے لکھنے والوں کی شدید ضرورت ہے۔ محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ چونکہ خود درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور اپنے فرائضِ منصبی کے سلسلے میں ان کا ہمہ وقت بچوں سے ربط و تعلق رہتا ہے، اس لیے وہ آج کی نسلِ نو کی مصروفیات اور ضروریات سے بخوبی آگاہ ہیں، وہ ذاتی طور پر بھی سائنسی موضوعات میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں، اس لیے جب انہوں نے قلم سنبھالا تو ان کی پہلی تحریر ایک سائنسی کہانی ہی تھی۔ پھر ان کا قلم سائنسی موضوعات پر ایسا رواں ہوا کہ 2012ء میں ماحولیاتی آلودگی کے موضوع پر اقوام متحدہ کے ادارے ’’یونیسکو‘‘ کے زیراہتمام لکھوائی گئی ان کی پہلی کتاب اردو سائنس بورڈ کی طرف سے شائع کی گئی۔ اس کے بعد ’’مریخ سے ایک پیغام‘‘ اور ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کے نام سے سائنسی کہانیوں اور مضامین پر مشتمل دو مزید کتب اردو سائنس بورڈ نے شائع کیں جو بالترتیب 2015ء اور 2018ء میں منظر عام پر آئیں۔ ان کے علاوہ ’’بچوں کی الف لیلہ‘‘، ’’پریوں کی الف لیلہ‘‘، ’’جانوروں کی الف لیلہ‘‘ اور ’’لڑکیوں کی الف لیلہ‘‘ کے نام سے الف لیلہ سیریز کی چار کتب بھی شائع ہو چکی ہیں… اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
تسنیم جعفری صاحبہ کی تازہ کتاب ’’روبوٹ بوبی‘‘ حال ہی میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر سامنے آئی ہے۔ اس میں سائنسی حقائق کو آشکار کرتی13 دلچسپ کہانیاں شامل ہیں جن میں مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی سے انسان کو درپیش مسائل، اس کے فوائد اور نقصانات کو کہانیوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ پہلی کہانی ’’روبوٹ بوبی‘‘ ایک ایسے نوجوان کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جو روز گار کے حصول کی خاطر روبوٹ کا روپ دھار کر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ اس کہانی کے عنوان کو کتاب کے نام کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ دیگر بارہ کہانیاں بھی جدید دور کی ایجادات کو بنیاد بنا کر تحریر کی گئی ہیں، جن کا مطالعہ کرتے ہوئے بچے خود کو بھی اسی سائنسی دنیا کے چلتے پھرتے کردار محسوس کرتے ہیں اور کہانی کے آخر تک اُن کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ کہانیوں کو پڑھتے ہوئے مصنفہ کے مذہب سے لگائو کا اظہار بھی جا بجا ہوتا ہے۔ انہوں نے سائنس کی بے پناہ ترقی کو بھی دین کی صداقت کے ثبوت کے طور پر پیش کرکے اُن لوگوں کا منہ بند کرنے کی مؤثر کوشش کی ہے، جن کا یہ تکیہ کلام ہے کہ مذہب جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ چلنے سے قاصر ہے۔
کتاب کے آخری 34 صفحات سائنسی دنیا کی چار ممتاز و معروف شخصیات کے حالاتِ زندگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ ان شخصیات میں آئن اسٹائن، پہلی روسی خلا نورد خاتون ویلنٹینا ٹیرش کووا، حال ہی میں وفات پانے والے معذور مگر غیر معمولی ذہن اور زبردست صلاحیتوں کے مالک سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ، اور ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دینے والی امریکی بائیو کیمسٹ خلا باز خاتون پیگی وٹسن شامل ہیں۔ تاہم خالصتاً سائنسی دنیا کی ان اہم شخصیات سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہوئے بھی روکھے پھیکے اور سنجیدہ اندازِ تحریر کے بجائے شگفتہ، رواں دواں اور جان دار اسلوبِ بیان اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ دورانِ مطالعہ بچے بوریت محسوس نہیں کریں گے۔ کتاب اپنے موضوع پر ایک عمدہ پیشکش ہے، تاہم حروف خوانی پر مزید توجہ دی جانی چاہیے تھی، اسی طرح سرِورق بھی تھوڑی سی مزید محنت سے زیادہ جاذبِ نظر، بامعنی اور با مقصد بنایا جا سکتا تھا، یوں کتاب کے اندر موجود کہانیوں کی عکاسی بھی زیادہ بہتر انداز میں کی جا سکتی تھی۔