ابوسعدی
مطلب:اس کا مطلب ہے کسی ملک یا کسی مخصوص محکمہ،جگہ یا ادارے میں لوٹ مار کے ساتھ ساتھ ناانصافی کا بازار بھی گرم ہونا۔ل وٹ مار ہونا اچھے اور برے کی تمیز نہ ہونا۔
قصہ:اس کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ایک گرو اور اس کا ایک چیلہ کسی ایسے شہر سے گزرے جہاں ہر چیزٹکے سیر بکتی تھی یعنی سستی سے سستی چیز اور مہنگی سے مہنگی چیز کا بھاو ایک ہی تھا ہر چیز ایک ٹکے سے ایک سیر ملتی تھی چاہے سبزی لو یا گوشت یا کچھ اور۔ اس قدر سستا شہر دیکھ کر چیلے کا جی للچا گیا اس نے گرو سے کہا یہیں رہ جاتے ہیں اور ہر چیز خوب جی بھر کر کھایا کریں گے گرو نے اسے سمجھایا کہ ایسی جگہ رہنا مناسب نہیں ہے جہاں اچھی اور بری چیز میں تمیز نہیں۔ مگر چیلہ نہ مانا گرو اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ چیلے نے بازار سے روغنی کھانے اور مٹھائیاں خوب کھائیں اور وہ دن بدن موٹا ہوتا چلا گیا۔ایک دن بازار میں کسی شخص کو قتل کر دیا گیا۔ سپاہیوں نے قاتل کو تلاش کیا مگر قاتل نہ مل سکا۔ متوفی کے رشتہ داروں نے راجہ سے فریاد کی کہ ہمیں جان کا بدلہ جان سے دلایا جائے۔ اندھیر نگری تو تھی ہی اور ساراکام کاج ویسے ہی چوپٹ تھا۔ راجا نے کہا کوئی بات نہیں جان کا بدلہ جان سے لیا جائے گا۔ شہر میں جوآدمی سب سے موٹا ہے اسے پکڑ کر پھانسی دے دو۔انصاف ہو جائے گا۔ ٹکے سیر مٹھائی کھا کر موٹا ہونے والا چیلا ہی سب سے زیادہ موٹا نکلا۔ سپاہی اسے پکڑ کر پھانسی دینے کے لیئے لے جانے لگے۔ اتفاق سے گروبھی ادھر سے گزر رہے تھے۔ چیلے نے انہیں دیکھتے ہی دہائی دی اور سارا ماجرہ کہہ سنایا گرو بولا میں نے تمھیں پہلے ہی کہا تھا یہاں رہنا مناسب نہیں خیر اب کوئی تدببیر کرتا ہوں۔یہ کہہ کر گرو نے سپاہیوں سے کہا اسے چھوڑ دو مجھے پھانسی دو تمھاری مہربانی ہو گی۔ سپاہیوں نے حیران ہو کر پوچھا کیوں۔ اس پر گرو نے جواب دیا یہ وقت موت کے لیئے بہت اچھا ہے اس وقت جو بھی پھانسی لے کر مرے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ یہ سن کر سارے سپاہی پھانسی پر چڑھنے کو تیارہو گئے کوتوال نے سنا تو وہ بھی بولاسب کو چھوڑو پہلے مجھے پھانسی دو۔ اسطرح پورے شہر میں شور مچ گیا مجھے پھانسی دو مجھے پھانسی دو،۔ راجا کو پتا چلا تو اس نے حکم کیا جنت میں جانے کا پہلا حق میرا ہے اس لیئے مجھے پہلے پھانسی دو۔اس طرح بیوقوف راجا کو پھانسی دے دی گئی اس دوران گرو جی بڑی مشکل سے چیلے کو لے کر فرار ہوئے۔
نوٹ: اس کہاوت کو یوں بھی بولتے ہیں ” ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا ” بھاجی سے مراد پکا ہوا سالن ہے جبکہ کھاجا مٹھائی کی ایک قسم کا نام ہے۔ مطلب مٹھائی اور بھاجی کا ایک ہی ریٹ ہونا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہا اچھے اور برے میں تمیز نہ ہونا۔
تاریخ کے لحاظ سے سیرۃ طیبہ(9)۔
اُم احمد
حج کی فرضیت:9 ہجری۔
رمضان میں حضورؐ کا آخری اعتکاف: رمضان 10 ہجری۔
حجتہ الوداع: 10 ہجری۔
مدینہ سے روانگی: 26 ذی قعدہ 10 ہجری۔
ذی طویٰ میں آمد:4 ذی الحجہ 10ہجری۔
ذی طویٰ سے مکہ روانگی: 5ذی الحجہ 10ہجری۔
مسجد حرام میں داخلہ: 5ذی الحجہ 10ہجری۔
منیٰ کو روانگی: 8 ذی الحجہ 10ہجری۔
منیٰ سے عرفہ کو روانگی: 9ذی الحجہ 10ہجری۔
وقوف عرفہ: 9ذی الحجہ 10ہجری۔
خطبہ حج: 9 ذی الحجہ 10ہجری۔
عرفہ سے مزدلفہ کو روانگی: 9 ذی الحجہ 10ہجری۔
مزدلفہ سے مشعرِ حرام: 10ذی الحجہ 10ہجری۔
مشعرِ حرام سے منیٰ روانگی: 10ذی الحجہ 10ہجری۔
ٹوپ کاپی پیلس
ٹوپ کاپی پیلس ترک حکمرانوں کا بہت بڑا محل تھا جو تقریباً 400 سال تک ان کے مرکزی محلات میں شامل رہا۔ (1465ء تا 1856ء)۔ یہ محل بادشاہی رہائش کے علاوہ اہم مملکتی امور اور تقریبات کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا۔ اس کے شروع میں شاندار داخلی دروازے کی چوکیوں سے جیسے ہی اندر قدم بڑھاتے ہیں ایک چوڑی سڑک ہے جس کے دونوں طرف باغ اور کچھ رہائشی حصے ہیں، یہ کمپلیکس چار بڑے کشادہ صحن اور بہت سی بلڈنگوں پر مشتمل ہے اور اس میں چار ہزار افراد کے رہائش پذیر ہونے کی گنجائش ہے، اس کا پچھلا حصہ ساحلِ سمندر سے ملتا ہے جہاں بہت خوب صورت باغ اور بلڈنگیں ہیں۔ یہ کمپلیکس مساجد، اسپتال، بیکریز، وزارتِ خزانہ اور آمد و خرچ کا حساب رکھنے والے ایک بڑے دفتر پر مشتمل ہے۔ اس کی تعمیر 1459ء میں Sultan Mehmed II کے حکم سے شروع کی گئی، یہ شروع میں ’’نیا محل‘‘ کہلاتا تھا تاکہ پہلے سے موجود دیگر محلات سے اسے متمیز کیا جاسکے۔ اس کا نام توپ کاپی انیسویں صدی میں معروف ہوا۔ اس کی تعمیر و توسیع صدیوں پر محیط ہے اور اس کی تعمیرنو اور مختلف تبدیلیوں میں 1509ء کے زلزلے اور 1656ء میں لگی مہیب آگ کا بڑا دخل ہے۔ سترہویں صدی کے اواخر میں اس کی اہمیت اُس وقت کم ہونا شروع ہوئی جب حکمرانوں نے اپنا زیادہ وقت باسفورس کے ساتھ بنائے گئے محلات میں گزارنا شروع کیا۔ 1856ء میں سلطان Abdul Macid نے عدالتِ عالیہ کو نئے بنائے گئے محل Palace Dolmabahce میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ پہلا یورپین اسٹائل پر بنایا گیا محل تھا اور جو شہر میں واقع تھا۔ لیکن کچھ محکمہ جات جیسے آمدو خرچ کا حساب رکھنے والا محکمہ، وزارتِ خزانہ، لائبریری بدستور توپ کاپی میوزیم میں برقرار رہے۔ 1923ء میں جب سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو اسے اپریل 1924ء میں میوزیم کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کے مخصوص حصوں کو عوام کے لیے کھول دیا گیا اور کچھ حصے جو بیش قیمت ظروف، لباس، نادر و نایاب ہتھیاروں، جواہرات اور اسلامی خطاطی اور ہنرمندی کے شاہکار اور عثمانیہ سلطنت کے خزانہ جات اور سکوں کے ذخیروں پر مشتمل تھے عوام الناس کے مطالعے اور مشاہدے میں آنے لگے۔ توپ کاپی میوزیم کا کل رقبہ 75,35000 مربع فٹ ہے۔
(اقبال احمد صدیقی۔’’عمارت کار‘‘)