لاڑکانہ الیکشن: اصل بے وفائی کس نے کی ہے؟۔

عوام نے پیپلزپارٹی سے یا پھر پیپلزپارٹی نے عوام کے ساتھ

سندھی تحریر: جامی چانڈیو

(نوٹ: یہ کالم جمعرات 17 اکتوبر کو منعقدہ ضلع لاڑکانہ کی صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 11 پر پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل سومرو کی ضمنی الیکشن میں شکست کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پی پی امیدوار کی انتخابی مہم بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو نے چلائی تھی لیکن اس کے باوجود جی ڈی اے کے امیدار معظم عباسی تقریباً چھ ہزار ووٹوں سے جیت گئے۔)
ہفتہ 19 اکتوبر 2019ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں معروف دانشور اور کالم نگار جامی چانڈیو نے پیپلز پارٹی کے سیاسی گڑھ لاڑکانہ میں اس کے حالیہ ضمنی الیکشن میں دوسری مرتبہ شکست کھانے پر معروضی انداز میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
………

’’لاڑکانہ کی صوبائی نشست پر ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے جمیل سومرو کی شکست اور جی ڈی اے کے معظم عباسی کی کامیابی پر ممکن ہے کہ کچھ افراد کو حیرت ہوئی ہو، لیکن مجھے اس کا ذاتی طور پر امکان دکھائی دے رہا تھا۔ یہ نشست ایک پارٹی کی حیثیت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ضرور ہاری ہے، لیکن جی ڈی اے کے پلیٹ فارم نے نہیں، بلکہ اسے معظم عباسی یا عباسی خاندان نے جیتا ہے، جس کا آصف زرداری کے پارٹی سربراہ ہونے سے پہلے پارٹی کے ساتھ چار دہائیوں کا سیاسی اور تنظیمی تعلق رہا ہے۔ سندھ سے باہر ایک عام تاثر یہ ہے کہ سندھ کے لوگ آج بھی جذباتی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں اور سندھ میں عوامی سطح پر سیاسی رجحانات میں تاحال کسی نوع کی کوئی بھی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ لیکن اس تاثر کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لوگ محض سندھ میں پیپلز پارٹی کی جانب سے جیتی گئی سیٹوں کی تعداد کو دیکھ کر ہی رائے قائم کرلیتے ہیں اور گہرائی میں اصل حقائق کا جائزہ نہیں لیتے۔ میں گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل یہ لکھتا چلا آرہا ہوں کہ سندھیوں کی اکثریت کا پاکستان پیپلز پارٹی سے ماضی کا جذباتی تعلق اور لگائو اب دم توڑ چکا ہے۔ یہ جذباتی سیاسی وابستگی بے نظیر بھٹو تک ہی قائم تھی جس کے بہت سارے ٹھوس اسباب تھے، اور 2008ء کے انتخابات میں بھی یہ جذباتی وابستگی اپنا کام دکھا گئی کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے سندھ کے لوگوں کا دل بھی زخمی کرڈالا تھا۔ اب رہے سندھی عوام، تو وہ اتنے پاگل ہرگز نہیں ہیں کہ آصف علی زرداری اور اُن کی زیرِ قیادت پیپلز پارٹی سے بھی اپنی سابقہ وابستگی کو پہلے کی طرح ہی قائم اور برقرار رکھیں گے۔ ویسے جذباتی وابستگی بھی بظاہر جذباتی نظر آتی ہے، لیکن دراصل اس کے بھی اسباب اور محرکات مادی، معروضی اور معاشی ہوا کرتے ہیں۔ سندھ کو اپنی لوٹ مار کے ذریعے سے کنگال اور بدحال کرنے والی پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سے اہلِ سندھ اپنی جذباتی وابستگی کو برقرار نہیں رکھ پائے، اور نہ ہی یہ ممکن تھا۔ یوں بھی آصف علی زرداری اپنے سیاسی کردار کی وجہ سے اہلِ سندھ کے ہاں کبھی پُرکشش نہیں رہے ہیں۔ اب سندھ کے عوام کا پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق مجبوری اور مفادات پر مبنی ہے۔ جہاں بھی انہیں اس نوع کی ’’مجبوری یا مفاد‘‘ اپنے سامنے دکھائی نہیں دیتا وہاں پر ’’جمیل سومرو‘‘ سے ’’معظم عباسی‘‘ جیت جاتے ہیں۔ یہ درحقیقت جی ڈی اے یا معظم عباسی کی کامیابی کم اور آصف علی زرداری کے ماڈل کے خلاف سندھی عوام کے ردعمل کی شروعات کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہے۔
اس صورتِ حال کا اندازہ آصف علی زرداری کو 2013ء کے الیکشن سے پہلے ہی ہوچکا تھا، کہ انہوں نے سندھ میں جاگیردار اور وڈیرہ خاندانوں کے ہاں خود جاکر انہیں پارٹی میں باضابطہ شمولیت کی دعوتیں دی تھیں، اور اس طرح سے پرویز مشرف دور میں مسلم لیگ (ق) میں شامل وڈیرے پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوتے گئے، اور اسے آصف علی زرداری کی قیادت میں قائم پیپلز پارٹی نے اپنی فتح اور کامیابی گردانا، کہ اس سے حکومت سازی میں ان کی عددی اکثریت کی تعداد بھی پوری ہوگئی تھی، لیکن درحقیقت ’’کامیابی‘‘ کی صورت میں یہ پیپلز پارٹی والوں کی ’’شکست‘‘ تھی، اور اس کے تنظیمی زوال کا مظہر بھی، اور وہ اس طرح سے کہ قبل ازیں جو وڈیرے پارٹی کے ٹکٹ کے حصول کے لیے اس کے پیچھے دوڑا کرتے تھے اب وہی پارٹی آصف علی زرداری کی قیادت میں ان وڈیروں کے پیچھے بھاگتی پھر رہی تھی اور ان کی ’’منت سماجت‘‘ میں مصروف تھی کہ انہیں سیاسی نہیں بلکہ ’’خاندانی‘‘ بنیادوں پر ٹکٹ دیے جائیں گے۔ اس لیے لاڑکانہ میں جمیل سومرو کی شکست اُن کی ذاتی ہار نہیں، بلکہ لاڑکانہ کے شہری عوام کا آصف زرداری کی سیاست کے ماڈل کے خلاف ایک طاقتور اور تغیر آفریں ردعمل ہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ جمیل سومرو نے لاڑکانہ میں کبھی عوامی سیاست کی ہی نہیں ہے، اور نہ ہی اُن کا کبھی اس حلقے کے عوام کے ساتھ کوئی براہِ راست ذاتی، سیاسی یا خاندانی تعلق رہا ہے۔ 17 اکتوبر بروز جمعرات لاڑکانہ کے حلقہ پی ایس 11 کے ضمنی الیکشن کے اس انتخابی نتیجے پر اس لیے بھی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اس سے پہلے بھی 2018ء کے عام انتخابات میں نثار کھوڑو کی صاحبزادی ندا کھوڑو بارہ ہزار ووٹوں کے فرق سے معظم عباسی سے ہار گئی تھیں۔ ندا کھوڑو کا معاملہ بھی اسی طرح کا تھا کہ ان کا لاڑکانہ کے عوام سے کبھی بھی کسی نوع کا سیاسی یا عوامی رابطہ نہیں رہا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی شاید تاحال یہی سمجھ رہی ہے کہ وہ 1988ء کی طرح کھمبے کو بھی ٹکٹ دے گی تو وہ جیت جائے گا۔ یہ بیسویں صدی کا آخری عشرہ نہیں، بلکہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی ہے، اور اس دوران لوگوں کی سوچ، سیاسی رویوں، ووٹ کے رجحانات اور محرکات سمیت سیاسی انتخاب کے انداز میں بہت بڑے اور بنیادی فرق رونما ہوچکے ہیں، جنہیں سمجھنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی تیار نہیں۔
لاڑکانہ کے ضمنی الیکشن میں بلاول کا بھی سیاسی نقصان ہوا ہے جو لاڑکانہ میں الیکشن کے حوالے سے اپنا کیمپ لگائے بیٹھے تھے اور اس کے باوجود جمیل سومرو الیکشن ہار گئے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا پیغام یہ گیا ہے کہ بلاول کی جانب سے الیکشن مہم کا چلایا جانا بھی امیدوار کے جیتنے کی ضمانت نہیں ہے۔ گھوٹکی میں بھی مہر امیدوار اس لیے جیت پایا کہ وہ مقامی طور پر بذاتِ خود ایک مضبوط امیدوار تھا۔ مطلب واضح یہ ہے کہ اب الیکشن میں بلاول کا ’’کارڈ‘‘ ہر جگہ پر نہیں چل سکے گا۔ اس سے وہیں کچھ فرق پڑے گا جہاں پر امیدوار پارٹی کے علاوہ خود بھی مضبوط ہوگا۔ بلاول ایک نوجوان رہنما ہیں، بہادر اور روشن خیال بھی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بنیادی معاملات میں ایک تو وہ آج بھی اپنے والد ِمحترم کے محتاج ہیں، اور دوسرا یہ کہ ان پر جذباتیت اور لفاظی زیادہ حاوی ہے۔ ان میں ٹھوس سوچ، معاشرے کو سمجھنے کی صلاحیت، اور سب سے اہم بات یہ کہ کسی طویل المیعاد پروگرام یا وژن کی کمی دکھائی دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال سے یعنی حکومتِ سندھ میں مراد علی شاہ کے آنے کے بعد سندھ کی باگ ڈور عملی طور پر بلاول کے پاس ہے۔ سوال یہ ہے کہ سندھ میں اس دوران روڈ بننے، یا ایک حد تک پہلے پانچ برس کے مقابلے میں مائیکرو کرپشن میں کچھ کمی کے سوا سندھ کے کون سے شعبے میں کوئی اہم تبدیلی رونما ہوئی ہے؟ کون سے اداروں میں معیاری فعالیت عوام کو نظر آئی ہے؟ اس کے لیے مطلوبہ وسائل کی کمی کی تو حکومت شکایت اور واویلا کرتی ہے، لیکن اصل قلت مالیاتی وسائل کی نہیں بلکہ ذہنی اور منصوبہ بندی یا سنجیدگی کے وسائل کی ہے۔ بلاول سندھ کے غریبوں کو کیا اکیسویں صدی میں بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت چلائیں گے یا ان کے لیے حکومتِ سندھ کے توسط سے کوئی ٹھوس فائدہ مند منصوبے بروئے کار لائیں گے اور ان پر عمل کرائیں گے جن سے ایک دہائی کے اندر ان کی زندگیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی آسکے۔ جذباتی وابستگی تو ظاہری ہوتی ہے، اصل بات معاشی اور مادی تعلقات میں مضمر ہے۔ فی الحال تو بلاول جذباتی، عوامی اور روشن خیالی پر مبنی تقاریر ہی کو سب کچھ سمجھ رہے ہیں۔ انہیں کوئی تو سمجھائے کہ اس ملک میں این ڈی خان، معراج محمد خان اور طارق عزیز جیسے بڑے بڑے مقرر بھی تھے جو لوگوں کو اب یاد بھی نہیں رہے۔ لوگوں کو تو محض اپنے معاشی اور مالی فوائد اور زندگی میں آنے والی بہتری ہی یاد رہتی ہے۔ بلاشبہ بلاول نے پنجاب میں اپنی زوال پذیر پارٹی کو سرگرم کرنے اور عوامی رابطوں میں گزشتہ چند برس میں خاصی محنت کی ہے، لیکن لاڑکانہ کے ضمنی الیکشن میں پارٹی کی شکست کے بعد پنجاب کے پاس کون سا پیغام گیا ہوگا؟ جو پارٹی لاڑکانہ میں صوبائی حکومت اور وہ بھی مضبوط حکومت ہوتے ہوئے ہار جائے، اُسے لاہور کون سے ووٹ اور کیوں کر دے گا؟ 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے پنجاب سے بھی کافی نشستیں جیتی تھیں، لیکن 2013ء میں اس کا پنجاب سے خاتمہ بالخیر ہوگیا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ 2008ء تا 2013ء پہلے حکومتی دور میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی مثالی حد تک نااہلی، اقربا پروری اور بدعنوانی پر مشتمل رہی۔ آج کا پنجاب ایک کاروباری طبقے کی قیادت میں چلنے والا پنجاب ہے۔ وہ ایک ایسی پارٹی کے پیچھے 2013ء میں کیوں کر لگتا جس نے اپنے صوبے میں 2008ء تا 2013ء انتہائی حد تک مبینہ بدحالی کا ماحول تخلیق کیا، اور اس کی ٹیم کے ہاتھ میںصرف کیلکیولیٹر ہوا کرتے تھے، اور ان کے گھروں میں ناجائز نوٹوں کے گودام بھرے رہتے تھے۔ پیپلز پارٹی کو یہ بات کبھی بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ سندھ ان کا بنیادی سیاسی گھر ہے، اور وہاں پر ان کی جو کارکردگی ہوگی اس کا اثر ان کی مجموعی ملکی سیاست پر لازمی پڑے گا۔ یہ پڑا ہے اور پڑتا رہے گا۔ سندھ ان کا چہرہ ہے، اسے اتنا زیادہ مسخ کیا گیا کہ دیگر صوبے نہ صرف سمجھ گئے بلکہ سندھیوں پر رحم اور ترس بھی کھانے لگے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ خبر ہونی چاہیے کہ وہ اب ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نہیں، بلکہ تین بڑی پارٹیوں میں اب تیسرے نمبر پر ہے۔ اور مجھے یہ نہیں لگتا کہ یہ پارٹی اپنا سابقہ عروج کبھی حاصل کرپائے گی۔ سندھ میں اس کی حکومت کا لگاتار تیسرا ٹرم چل رہا ہے، اور ظاہر ہے کہ مسلسل اقتدار میں رہنے سے کوئی بھی پارٹی اپنی عوامی مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکتی۔ اس لیے پیپلز پارٹی کا گراف تیزی سے خواہ نہ سہی لیکن روز بہ روز بہرحال نیچے گرتا چلا جائے گا۔ اس کے سیاسی وجود کی بقا اب سندھ میں حکومت کی کارکردگی سے ہی مشروط ہے۔ بلاول کی جذباتی تقریریں نہ عوام کو پینے کے لیے صاف پانی دے سکتی ہیں، نہ محنت کشوں کو روزگار کی ضمانت، اور نہ ہی نوجوانوں کو محفوظ مستقبل کا کوئی حقیقی آسرا دے سکتی ہیں۔ اور ان تقاریر سے سندھ میں انتظامی اصلاحات اور ادارتی فعالیت پیدا کرنا بھی ناممکن ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی سندھ میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی سلسلہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی آگے چل کر اس حوالے سے کوئی کام ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ سندھ میں یونیورسٹیاں سراپا احتجاج ہیں اور تباہی کا منظر پیش کررہی ہیں۔ اگر وائس چانسلر قابل، ایماندار اور تعلیم دوست نہ رکھے گئے تو پھر یہ احتجاج کرنا ہی ہمارے نصیب میں رہ جائے گا۔ لاڑکانہ کے ضمنی الیکشن نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک طاقتور اور براہِ راست پیغام اور اشارہ دے دیا ہے کہ لوگوں کو اب اندھا، گونگا اور بہرا نہ سمجھا جائے۔ یہ اکیسویں صدی کے عوام ہیں، جو سنتے، دیکھتے اور بولتے ہیں۔ آنکھیں بند کرکے ٹھپے نہیں لگائیں گے۔ اگر پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ دھاندلی کا واویلا کرکے وہ لاڑکانہ کے عوام سے اُن کی تبدیل کردہ وفاداریوں کو واپس لاسکتی ہے تو پھر اس خود فریبی کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں ہے۔ اصل سوال تو ابھی یہ ہے کہ کس نے کس کے ساتھ بے وفائی کی ہے؟ عوام نے پیپلز پارٹی سے، یا پھر پیپلز پارٹی نے عوام کے ساتھ؟ اس کا جواب ایک کھلا راز ہے، جسے اب شاید افشاء کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘