معاشی بحالی، دعوے، تجزیے اور زمینی حقائق

وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی حکومت نے ایک سال میں ملکی معیشت بحال کردی ہے۔ ابلاغیات میں نئی متعارف ہونے والی صنف ٹویٹ کے ذریعے اپنے پیغام میں وزیراعظم نے نوید دی ہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 111.5 فیصد اضافہ ہوا ہے، جب کہ برآمدات میں تقریباً 6 فیصد اضافہ اور درآمدات میں 18.5 فیصد کمی ہوئی ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر میں اضافے کی اطلاع بھی اسی ٹویٹ میں دی گئی ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں پاکستانی اقتصادی ماہرین کے ایک وفد نے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کا دورہ کیا ہے اور عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف کے عہدیداران سے ملاقاتیں کیں۔ وفد نے سارک کے وزرائے خزانہ کے اجلاس اور امریکہ پاکستان بزنس کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ ان ملاقاتوں اور اجلاسوں کے دوران مشیر خزانہ اور ان کے وفد کے ارکان نے اپنے مخاطبین کو یہ یقین دہانی کرائی کہ پاکستان معاشی بحران سے نکل کر اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا ہے، اور یہاں سرمایہ کاری کے لیے بھی ماحول نہایت سازگار ہوگیا ہے جس سے استفادہ کرتے ہوئے امریکی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ ان ملاقاتوں میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے سرمائے سے پاکستان میں زیرِ تکمیل منصوبوں پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے بینک کے صدر نے حکومتِ پاکستان کی طرف سے معاشی استحکام اور معیشت کی بہتری کے لیے کی گئی اصلاحات پر اطمینان کا اظہار کیا، جب کہ عالمی بینک کے عہدیداروں نے بھی معاشی بحران سے نکلنے کے لیے روبہ عمل لائے گئے اقدامات کو سراہا۔
وزیراعظم عمران خان نے 18 اگست 2018ء کو اقتدار سنبھالا تو یہ بات قوم کے سامنے آئی کہ ان کو ملنے والا خزانہ بالکل خالی ہے اور ملک تیزی سے دیوالیہ ہونے کی جانب گامزن ہے۔ وزیراعظم نے صورت حال کو سنبھالنے کے لیے پہلے تو تحریک انصاف کی ٹیم کو آزمایا اور اندرون و بیرونِ ملک ہر طرح کی بھاگ دوڑ کی، مگر جب حالات قابو میں آتے دکھائی نہ دیئے تو ’’یوٹرن‘‘ لیتے ہوئے نہ صرف اپنی معاشی ٹیم کو ایک طرف کرکے مشیر خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر کے مناصب پر عالمی مالیاتی ادارے کے ماہرین کا تقرر کردیا اور ساتھ ہی قرض کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع جیسا اقدام بھی کرڈالا، جسے وہ ماضی میں ’’خودکشی‘‘ سے تعبیر کرتے رہے تھے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے اپنی من پسند شرائط پر 6 ارب ڈالر کے قرض کی قسط وار ادائیگی کی منظوری دی جس میں سے ابھی صرف پہلی قسط پاکستان کو ادا کی گئی ہے۔ اس قرض کے استعمال اور اس کے اثرات کا پہلی سہ ماہی کا جائزہ عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے اکتوبر کے آخر میں لیا جائے گا، تاہم گزشتہ دنوں اس ادارے کے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے ڈائریکٹر کی قیادت میں ایک پانچ رکنی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس وفد نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسے کوئی بڑی پیش رفت تو نہیں کہا جا سکتا، پھر بھی پاکستانی معیشت نے درست سمت میں سفر کا آغاز ضرور کردیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بینک زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بہتری لانے اور سخت مانیٹری پالیسی کے ذریعے افراطِ زر پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیاب رہا ہے۔ ٹیکس آمدن بڑھانے اور ٹیکس گزاروں سے معاملات میں بہتری کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی کارکردگی کی بھی رپورٹ میں تعریف کی گئی ہے، تاہم ان تمام معاملات کو محض آغاز قرار دیتے ہوئے جی ڈی پی میں اضافے کی شرح محض 2.4 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
سطورِ بالا میں حکومت اور اس کے سرپرست بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے پاکستانی معیشت کی جو تصویرکشی کی گئی ہے وہ صورتِ حال کا ایک رخ ہے، جب کہ دوسری جانب اقتصادی جائزے کے بین الاقوامی ادارے ’’بلوم برگ‘‘ نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں غیر فعال قرضوں کی شرح بڑھنے پر رپورٹ میں کہا ہے کہ بڑھتا غیر فعال قرض پاکستانی معیشت کو بحال کرنے میں نیا خطرہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کے غیر فعال قرضوں میں اضافہ آٹھ سال میں بلند ترین ہے۔ قومی بینکوں کے بڑھتے غیر فعال قرضے نیا قرض دینے کی صلاحیت کو متاثر کررہے ہیں۔ جون سے اب تک غیر فعال قرضوں کی شرح 23 فیصد بڑھی ہے۔ صنعتی پیداوارمتاثر ہوئی ہے، ورک فورس کم کی گئی ہے، بلند شرح سود قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ انہی اسباب کے باعث حکومت نے سالانہ شرح نمو کا ہدف 2.4 فیصد مقرر کیا ہے جو گزشتہ ایک عشرے میں کم ترین شرح نمو ہے۔
حکمرانوں کے یہ دعوے اور عالمی اداروں کے یہ مثبت اور منفی اشاریے اپنی جگہ، مگر برسرِ زمین عملی حقیقت یہی ہے کہ جب سے تحریکِ انصاف کی حکومت وجود میں آئی ہے مہنگائی، بے روزگاری اور ٹیکسوں کے ایک منہ زور طوفان کا عوام کو مسلسل سامنا ہے۔ غریب اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے تو ایک طرف، متوسط طبقے کے لیے بھی روزمرہ ضروریات کی فراہمی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے، مختصر مدت میں مہنگائی کی شرح میں دو سو فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے، خود حکومت کی جانب سے معاشی استحکام کے نام پر جو مزید اقدامات کیے جارہے ہیں اُن کا نتیجہ بھی ’نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز‘ کی صورت میں برآمد ہورہا ہے۔ حکومت کے براہِ راست کنٹرول میں بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات وغیرہ کی قیمتیں بھی کسی معقول جواز کے بغیر آئے روز بڑھائی جارہی ہیں۔ حالات اس قدر دگرگوں ہوچکے ہیں کہ بچوں کی تعلیم اور علاج معالجہ کے اخراجات برداشت کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں رہا، چنانچہ بچوں کو تعلیم دلانے کے بجائے انہیں کم کمری ہی میں کسی کام پر لگا دینے کا رجحان فروغ پارہا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے بڑی امیدوں اور آرزوئوں کے ساتھ تحریک انصاف کو عام انتخابات میں ووٹ دیے تھے، اب اُن کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ اس لیے وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کو اب ایسے فوری اور ٹھوس اقدامات بروئے کار لانا ہوں گے جن کے نتیجے میں محض حکمرانوں کے بیانات اور ذرائع ابلاغ کے تجزیوں میں نہیں بلکہ حقیقت میں لوگ کرپشن، مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی محسوس کریں۔ ورنہ عوام مایوسی کی جن اتھاہ گہرائیوں میں گرتے جارہے ہیں، حکمران طبقہ زیادہ دیر تک خود کو اس کے خوفناک اثرات سے محفوظ نہیں رکھ سکے گا۔
(حامد ریاض ڈوگر)