مولانا فضل الرحمن اور حکومت گراؤ سیاست

کیا طاقت کے مراکز حکومت کو گراکر کوئی متبادل سیاسی یا انتقامی نظام لانا چاہتے ہیں؟۔

پاکستان کی مجموعی سیاست المیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس سیاست میں کوئی بھی جماعت کسی کا سیاسی مینڈیٹ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ جو بھی سیاسی جماعت انتخابات جیتتی ہے اُس کے نزدیک انتخابات شفاف ہوتے ہیں، اور ہر ہارنے والی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ اسے ایک سازش کے تحت پسِ پردہ قوتوں نے ہرایا ہے۔ اسی طرح اگر اسٹیبلشمنٹ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کرتی ہے توسب اچھا ہوتا ہے، اور یہی اسٹیبلشمنٹ اگر ان کے خلاف کھیل کا حصہ بن جائے تو سب خراب ہوجاتا ہے۔ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا تعلق ہے تو اس کی کوئی بھی حمایت نہیں کرسکتا، لیکن اسٹیبلشمنٹ کے اس کھیل کو کمزور کرنے یا ختم کرنے کے لیے جو کردار اہلِ سیاست کا بنتا ہے اس کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔
جو تماشا پاکستان کی سیاست میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اس نے ملک میں نہ تو سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط کیا، اور نہ ہی جمہوری اقدار یہاں پنپ سکیں۔ ایک سوچ اور فکر اہلِ سیاست میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے کہ وہ ہر آنے والی حکومت کو سازشی تھیوریوں کی مدد سے گرانا چاہتے ہیں۔ حکومتوں کو گرانے کے لیے اگر حزبِ اختلاف کی قوتوں کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ملے تو وہ اس کے حصول کے لیے فوری طور پر تیار ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سیاسی قوتوں کا گٹھ جوڑ ہمیشہ سے ملکی سیاست میں غالب رہا ہے۔ فرق صرف اتنا پڑتا ہے کہ سیاسی کردار بدل جاتے ہیں، جبکہ ایجنڈا حکومتوں، سیاست اور جمہوریت کو عملی طور پر کمزور کرنا ہوتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن حزبِ اختلاف کی دیگر قوتوں کی مدد سے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اُن کے بقول حکومت کو ہر صورت میں ختم کرنا ہے۔ اُن کی شرائط میں وزیراعظم کا استعفیٰ اور پارلیمنٹ توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ وہ حکومت کے خاتمے تک اسلام آباد سے نہیں جائیں گے، اور حکومت گرانے کے لیے آخری حد تک جائیں گے چاہے اس کے لیے کیسی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اس مارچ کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کے ساتھ مولانا کی پشت پر کھڑے ہیں۔ بلاول بھٹو اور شہبازشریف کے مقابلے میں نوازشریف عملی طور پر مولانا کے ساتھ آخری حد تک جانے کی حمایت کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے ڈنڈا برداروں کی مدد سے ریاست اور حکومت کے لیے بھی ایک نئی پریشانی پیدا کی ہے۔
ایک برس کے بعد ایک سیاسی حکومت کو زبردستی ڈنڈے یا طاقت کے زور پر گھر بھیجنے کی سیاست پاکستان میں ہی ممکن ہے۔ ماضی میں اس طرز کے ڈرامے ہم ناکامی اور کامیابی کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی دھرنے کی مدد سے طاقت کے زور پر حکومت گرانے کا کھیل ماضی میں کھیل چکے ہیں۔ شکر کریں عمران خان کو دھرنے کی مدد سے حکومت گرانے میں ناکامی ہوئی اور حکومت نے اپنا مینڈیٹ پانچ برس تک پورا کیا۔ وگرنہ اگر عمران خان کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایک غلط سیاسی روایت پڑتی، اور اس کو بنیاد بناکر آنے والی حکومتوں کو بھی گرایا جاتا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادتیں ماضی کے غلط تجربات یا غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے ان ہی پرانی غلطیوں کو مزید شدت کے ساتھ دہراتی ہیں۔ جمہوریت اور سیاست میں سیاسی احتجاج ایک بنیادی حق ہے جسے ہر سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ لیکن یہ حق بھی ایک سیاسی اور قانونی دائرۂ کار میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم اپنی سیاسی حدود کو قانونی دائرہ کار سے نکل کر استعمال کرتے ہیں تو ریاستی رٹ چیلنج ہوتی ہے اور قانون حرکت میں آتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے پاس ایسی کیا سیاسی طاقت ہے جس کے زور پر وہ حکومت کو گرا سکتے ہیں؟ کیا واقعی اُن کو پسِ پردہ قوتوں کی حمایت حاصل ہے؟ اور کیا طاقت کے مراکز حکومت کو گراکر کوئی متبادل سیاسی یا انتظامی نظام لانا چاہتے ہیں؟ ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ مولانا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دبائو میں لاکر اپنے سیاسی کردار کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ مولانا ماضی میں بالخصوص عمران خان کے دھرنے میں سڑکوں پر جلائو، گھیرائو اور ڈنڈے کے زور پر حکومت گرانے کی شدید مخالفت کرتے رہے ہیں، اور ان کی کہی باتیں پارلیمنٹ میں تقریروں کی صورت میں موجود ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفاد کی بنیاد پر اپنے ہی سابقہ مؤقف کی نفی کرکے تضادات کو فروغ دیتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے مطالبات کیا ہیں یہ بھی واضح نہیں۔ وہ صرف یک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ موجود ہیں کہ حکومت کا ہرصورت میں خاتمہ کرنا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان مذاکرات کا امکان بھی کمزور نظر آتا ہے۔ کیونکہ مولانا فضل الرحمن حتمی طور پر حکومت کے لیے ایک بڑے انتشار اور عدم استحکام کی سیاست کو پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یقینی طور پر مولانا نے سیاسی ماحول میں خود کو نمایاں کرلیا ہے اور ساری حکومت مخالف جماعتیں اُن کی حمایت سے بھی گریز نہیں کررہیں۔ لیکن کیا سیاسی حکومتیں ایسے دھرنوں یا مظاہروں سے اپنی ہی حکومت کو ختم کرسکتی ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ اگر حکومت گرتی ہے تو وہ کسی سازشی تھیوری کی مدد سے ہی گرسکتی ہے۔ مگر اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا مولانا فضل الرحمن نئے انتخابی نتائج کو قبول کرلیں گے؟ اگر وہ دوبارہ ہارتے ہیں تو اس کے بعد ان کا ردعمل کیا ہوگا؟ اسی طرح موجودہ حکومت انتخاب ہارتی ہے تو وہ کیوںکر ان نتائج کو قبول کرے گی؟ مولانا فضل الرحمن کا مجموعی ایجنڈا ایک بڑا سیاسی انتشار پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
اگر دھرنا یا آزادی مارچ ناکام ہوتا ہے، اور حکومت نہیں گرتی تو حزبِ اختلاف کی جماعتیں کہاں کھڑی ہوں گی، اور ان کے پاس اس آخری آپشن کے بعد سیاسی محاذ پر کیا کچھ بچے گا؟ اگر حکومت واقعی گرتی ہے تو یہ عمل جمہوریت کو اور زیادہ کمزورکرنے کا سبب بنے گا اور ہم ایک بڑے سیاسی بحران کا شکار ہوں گے۔ اگر مولانا کے آزادی مارچ میں کوئی تشدد ہوتا ہے، یا حکومتی سطح سے اسے طاقت کے زور پر روکا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ پُرتشدد ہوتا ہے تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ پاکستان کی ریاست اور حکومت دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہیں کہ ہم نے اپنے عملی اقدامات سے انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں، جتھوں یا مسلح گروہ کو ختم کردیا ہے، ایسے میں مولانا فضل الرحمن نے اپنا جتھہ اور مذہبی کارڈ پیش کرکے ریاستی اور حکومتی مشکلات کو بھی بڑھا دیا ہے اور یہ عمل خود نیشنل ایکشن پلان کے بھی خلاف ہے۔
پاکستان میں وہ طبقہ جو واقعی جمہوریت کا حامی ہے، اُسے ہر صورت میں مولانا فضل الرحمن کے سیاسی عزائم سے اپنا دامن بچانا ہوگا۔ مولانا ایک ہی وقت میں اسلام اور جمہوریت کو بطور ہتھیار استعمال کرکے اسٹیبلشمنٹ سے اپنے معاملات طے کرنے کا ہنر جانتے ہیں، اور جو لوگ مولانا کی تحریک سے جمہوریت کے بھلے کا سوچ رہے ہیں وہ معصوم ہیں یا سیاسی تعصب کا شکار ہیں۔ مولانا عملی طور پر دو بڑی سیاسی جماعتوں کو سیاسی ڈھال بناکر اپنے لیے محفوظ راستہ تلاش کررہے ہیں، اور اگر اس کے حصول کے لیے اُن کو ان دونوں بڑی جماعتوں کو قربانی کا بکرا بھی بنانا پڑا تو وہ لمحہ بھر بھی دیر نہیں لگائیں گے۔
جب پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، پختون خوا ملّی عوامی پارٹی اور جے یو آئی سمجھتی ہیں کہ عمران خان کی حکومت ناکام ہوگئی ہے اور یہ ملکی تاریخ کی بدترین حکومت ہے تو یہ ساری صورت حال سیاسی بنیادوں پر ان کے حق میں جاتی ہے۔ کیونکہ اگر عمران خان کی پاپولر سیاست کو بڑا خطرہ اپنی ہی حکمرانی کے نظام سے ہے تو اس سے تو بہت جلد عمران خان کی حکومت کے غبارے سے ہوا نکلے گی اور اگلی بار وہ انتخابی میدان میں سیاسی طور پر شکست خوردہ ہوں گے۔ ایسی ناکام حکومت کو دھرنوں سے گرانے کے بجائے اسے ووٹ کی مدد سے ہی نکالا جائے تو اس سے جمہوری عمل آگے بڑھے گا، وگرنہ جبر کی بنیاد پر کسی بھی حکومت کو گرانے سے وہ حکومت سیاسی مظلوم بن کر آج کی حزبِ اختلاف کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گی۔ اس لیے دھرنوں کی مدد سے حکومتوں کو ختم کرنا منفی سیاست ہے اور اس کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہیے۔