خطے میں روس، چین، پاکستان اور طالبان کے افغانستان کا ایک اتحاد تشکیل پانے جارہا ہے جو امریکہ کو جنوبی ایشیا سے بے دخل کرنے کا سبب بنے گا
بین الاقوامی سیاست کی سب سے بڑی منافقت یہ ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کو وہ سرد جنگ کے خاتمے سے تعبیر کرتی ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے ایک عشرے بعد تک روس اور امریکہ کے مابین تعلقات معمول پر نظر آئے، لیکن امریکہ نے روس کی مفاہمتی پالیسی سے یہ اندازہ لگایا کہ اس کی صلح جوئی اس کی کمزوری ہے تو امریکہ نے پر پرزے جھاڑنے شروع کردیے۔ سوویت یونین کے انہدام کے باعث اس کی سرحدی مشرقی یورپی ریاستیں جو ناٹو کے مدمقابل وارسا معاہدے کی رکن ہوا کرتی تھیں، اشتراکیت کے خاتمے کے بعد ایک ایک کرکے جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ نظام اپناتی گئیں جس کی وجہ سے ناٹو کے خلاف روس کی قائم کردہ دفاعی فصیل خودبخود زمین بوس ہوگئی، جب کہ ناٹو نے وارسا معاہدے کی سابق کمیونسٹ رکن ریاستوں کی دباکر بھرتی شروع کردی، اس طرح سرد جنگ کے مقابلے میں 16 رکنی ناٹو 28 رکنی فوجی معاہدہ بن گیا۔ میخائل گوربچوف اور شراب کے نشے میں ہر دم مست رہنے والا صدر بورس یلسن روس کے غیر محفوظ مغربی محاذ پر صف آرائی کرنے کے بجائے اپنی قوم پرست پارلیمان ڈوما سے محاذ آرائی میں مصروف رہے اور پارلیمان کی عمارت اور اس کے ارکان کو توپ سے اڑا دیا۔ اتنا بڑا المیہ ہوگیا اور مغربی میڈیا نے اسے اصلاح پسند بورس یلسن اور قدامت پسند کمیونسٹ عناصر کا تصادم قرار دے کر جمہوریت کی فتح پر محمول کیا۔
سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد روس کھوکھلا ہوگیا اور اس کی معیشت بحران کا شکار ہوگئی تو مغربی میڈیا نے یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا کہ اب دنیا میں دو قطبی نظام ختم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ یک قطبی نظام نے لے لی ہے، جس کا سرخیل امریکہ ہے۔ روس کی عالمی سیاست میں بے عملی سے یہ تاثر عام ہوگیا کہ اب امریکہ دنیا کی واحد عظیم ترین طاقت ہے، کیونکہ امریکہ نے یکے بعد دیگرے افغانستان اور عراق پر فوج کشی کرکے قبضہ کرلیا، جب کہ روس خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہا۔ لیکن یہ تاثر غلط ہے کہ اگر روس نے امریکہ یا اسرائیل کی جارحیت کو لگام نہیں دی تو وہ اب عظیم تر طاقت نہ رہا، کیونکہ دو قطبی نظام میں بھی امریکہ نے 1950ء میں کوریا پر چڑھائی کردی اور روس کچھ نہ کرسکا۔ روس نے 1956ء میں ہنگری اور 1968ء میں چیکوسلواکیہ پر فوج کشی کردی تو امریکہ کچھ نہ کرسکا۔ آخر امریکہ نے 1964ء میں ویت نام پر بھرپور حملہ کردیا تو سوویت یونین نے براہِ راست مداخلت تو نہیں کی، البتہ ویت نام کو سام میزائل اور سامانِ حرب دیتا رہا، اور باقی جنگ وہاں کے حریت پسندوں نے لڑی اور جیتی۔ افغانستان میں بھی سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ جنگ رہی، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف سرد جنگ کے ’’خاتمے‘‘ کے بعد روس غیر فعال ہوگیا، کیونکہ اس جنگ کے عہدِ شباب میں بھی اگر امریکہ کسی چھوٹے ملک پر حملہ کردیتا تو روس براہِ راست مداخلت نہیں کرتا تھا۔ اس طرح جب روس کسی ملک پر چڑھ دوڑتا تو امریکہ چپ سادھے رہتا۔
تو یہ دلیل کہ سردجنگ اس لیے ختم ہوگئی کہ اب امریکہ ہی سب سے بڑی طاقت ہے، جس کا کوئی مدمقابل نہیں، زمینی حقائق کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگرچہ اقتصادی اور مالی اعتبار سے امریکہ ہمیشہ سوویت یونین سے آگے رہا ہے، لیکن فوجی اعتبار سے دونوں مساوی تھے، جس کا اندازہ دونوں کے مابین (1) 26مئی 1972ء کے میزائل شکن نظام کے معاملے پر ہونے والے معاہدے (2) میزائلوں اور انہیں داغنے والی چرخیوں کی تعداد میں توازن پر مشتمل Start Salt، INF معاہدوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ان معاہدوں کا مقصد یہ تھا کہ دونوں عظیم تر طاقتوں میں سے کسی کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہونی چاہیے کہ مبادا زیادہ اسلحہ کی حامل ریاست دوسرے پر حملہ آور ہوجائے۔ چنانچہ جب جارج بش نے میزائل شکن ڈھال میں یک طرفہ طور پر توسیع کرنا شروع کردی تو یہ نازک توازنِ طاقت امریکہ کے حق میں بدلتا ہوا محسوس ہوا۔
بس اس دن سے دونوں کے مابین چپقلش اور سردجنگ کی بداعتمادی در آئی اور پیوٹن نے پولینڈ اور چیکوسلواکیہ کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے امریکی منصوبے پر عمل کرتے ہوئے اپنی سرزمین پر ریڈار اور میزائل شکن ڈھال کی تنصیب کی تو روس اسے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے حفظِ ماتقدم کے طور پر انہیں نشانہ بنا سکتا ہے۔ ہرچند کہ اُس وقت کے امریکی صدر اوباما نے لیپا پوتی کرنی شروع کردی کہ دراصل یورپ میں میزائل شکن ڈھال اور ریڈار کی تنصیب کا مقصد یورپ کو ایران کے ممکنہ حملے سے محفوظ رکھنا ہے، لیکن پیوٹن کوئی دودھ پیتا بچہ تو نہیں تھا کہ اوباما کی طفل تسلی سے مطمئن ہوجاتا۔ جب ایک بار فضا میں بداعتمادی در آئے، جس کی عمل غمازی کرتا ہے تو نفسیاتی جنگ اُسی دن سے شروع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سرد جنگ شروع ہوئی تھی اور دنیا کے مختلف خطوں میں تصادم شروع ہوگیا۔ آخر آج بھی شام میں امریکہ اور روس اسی طرح متصادم ہیں جیسے ویت نام یا افغانستان میں (1980-88ء) تھے۔ کیا سرد جنگ کے دور میں امریکہ اور سوویت یونین نے سلامتی کونسل میں ایک دوسرے کی مجوزہ قراردادوں کو ویٹو نہیں کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ سرد جنگ ابھی جاری ہے اور افغانستان ایک بار پھر اس کا مرکز و محور بننے جارہا ہے۔ حالیہ دنوں میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ کے بعد مذاکرات کے محاذ پر بھی اپنی شکست دیکھ کر اچانک مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا تو روس نے اس کے اگلے ہی روز طالبان کو ماسکو کے دورے کی دعوت دی اور طالبان وفد کا پُرتپاک استقبال کیا جو اس بات کا اظہار تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں مزید کوئی چالاکی دکھانے کی کوشش کی تو روس طالبان کے ساتھ مل کر اسے ناکام بنانے کے لیے تیار ہے۔
ابھی تین چار سال پہلے ہی کی بات ہے کہ کریمیا میں روسی آبادی کے مقامی حکومت پر قبضے اور روس سے الحاق کے اعلان پر ناٹو نے میزائل شکن نظام سے لیس امریکی جہاز کو بحیرہ اسود میں جانے کا حکم دے دیا، نیز روس سے ملحقہ بحیرہ بالٹک کی ریاستوں لٹویا، لیتھوینیا اور اسٹونیا میں یوکرین کی سرحدوں کی نگرانی کرنے والے جاسوس طیاروں کو بھیج دیا۔ یہ کتنا اشتعال انگیز اقدام تھا۔ ایسی کشیدگی کی فضا میں اگر کوئی طیارہ غلطی سے روس کی سرحد میں بھٹک جاتا تو روس کا ردعمل کیا ہوتا؟ کیا یہ سرد جنگ نہیں ہے؟ یہ خیال کہ 1945ء تا 1991ء جاری سرد جنگ نظریاتی تھی، جب کہ اب نظریات کا دور ختم ہوگیا، اس لیے موجودہ تصادم کو سرد جنگ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، بڑا سطحی ہے۔ کیونکہ سرد جنگ کا موجب پہلے بھی نظریہ نہیں، تزویراتی عوامل تھے، جب کہ فریقین نے اپنے اپنے تزویراتی مفاد کے جواز کے لیے نظریے کو بطور آلہ استعمال کیا، اور آج بھی کیا امریکہ مختلف ممالک میں جمہوری نظریے کو اپنی مداخلت کا جواز نہیں بتارہا ہے؟ اور کیا اسلامی بنیاد پرستی اور مذہبی انتہا پسندی کا واویلا کرکے وہ اعتدال پسند جمہوریت کا ڈھنڈورا نہیں پیٹ رہا؟ اور اس کی بناء پر روس، چین، ایران، عوامی جمہوریہ کوریا، کیوبا، وینزویلا اور پاکستان کی حکومتوں کو بلیک میل نہیں کررہا؟ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ اس کی یہ بلیک میلنگ زیادہ دیر چلنے والی نہیں ہے۔ خطے میں روس، چین، پاکستان اور طالبان کے افغانستان کا ایک اتحاد تشکیل پانے جارہا ہے جو امریکہ کو جنوبی ایشیا سے بے دخل کرنے کا سبب بنے گا۔