صنعت تجارت کو رفتہ رفتہ تالا لگایا جارہا ہے

صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ اسمال انڈسٹریز سجاد سرور چودھری سے فرائیڈے اسپیشل کی گفتگو

فرائیڈے اسپیشل:آپ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر اینڈ انڈسٹریز کے نائب صدر رہیں‘ اب اسلام آباد چیمبر آف اسمال کامرس اینڈ سمال انڈسٹریز کے صدر منتخب ہوئے ہیں ملک کی کاروباری سرگرمیوں کے حقائق سے بھی واقف ہیں یہ فرمائیں کہ اس وقت ملک کی معیشت کا گراف کس سطح پر ہے اور کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے لیے معاشی نمو کی سطح کیا رہنی چاہیے کہ ملک میں روزگار بھی بڑھے اور قومی معیشت بھی ترقی کرے۔
سجاد سرور چودھری:قومی معیشت کے لیے،چاہے وہ کسی بھی ملک کی ہو‘ معیار ایک ہی ہے‘ کہ ملک کی معیشت پر درآمدات کے بل کا بوجھ کتنا ہے‘ جس ملک کی معیشت غیر ملکی ا شیا کی مرہون منت ہوگی‘ وہاں مسائل رہیں گے۔ ہمارے ملک میں چار بنیادی باتیں ہیں کہ ہمیں اپنی ضروریات کے لیے تیل اور گیس بھی بیرون ملک سے منگوانا پڑتا ہے‘ ہمارے ملک میں مشینری نہیں بنتی ہے‘ ہم زرعی ملک ہیںاور ہماری زرعی اجناس بھی ویلیو ایڈڈ صلاحیت سے محروم ہیں، جب تک ہمیں درآمداتی بل میں کمی کا ماحول نہیں ملے گا ملکی معیشت دبائو میں رہے گی اور اگر معیشت دبائو میں ہے تو پھر ملک میں ترقی کی شرح بھی اسی تناسب سے رہے گی جس ملک کی تجارت کا توازن اس کے حق میں ہو وہ ملک جہاں بھی ہو‘ جیسے بھی ہو‘ معاشی لحاظ سے مضبوط رہتاہے اور سمجھا جاتا ہے بس یہی معیار ہے کسی بھی ملک کی معیشت پامنے کے لیے‘ ہمیں توانائی کے بحران پر قابو پانا ہوگا اور غیر ملکی قرضے کم کرنا ہوں گے ،تب کہیں ہمیں بہتر معیشت ملے گی غیر ملکی قرضے محض ہی نہیں ہیں بلکہ ہمیں ان قرضوں پر سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کاروباری طبقہ شاکی رہتا ہے کہ ٹیکس کا نظام درست نہیں ہے، آپ کی رائے کیا ہے؟
سجاد سرور چودھری: کوئی بھی ملک ٹیکس کے بغیر نہیں چل سکتا‘ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس نظام میں شفافیت ہونی چاہیے‘ جو ٹیکس دیتے ہیں انہیں امید ہوتی ہے کہ حکومت انہیں سہولتیں بھی دے گی اور سماجی مرتبہ بھی ملتا ہے لیکن ہمارے ملک میں ایسی کوئی منظر کشی ابھی تک نہیں بن سکی ہے، اس لیے ٹیکس دیتے ہوئے کاروباری طبقہ شاکی رہتا ہے، اگر ہم اپنے ملک میں چند شعبوں میں بہتری لے آئیں تو کافی فرق پڑسکتا ہے، ہماری حکومتوں کے اخراجات بہت زیادہ ہیں‘ اور ان اخراجات کی وجہ سے حکومتیں تعلیم‘ صحت‘ دفاع اور سماجی شعبوں‘ فلاحی منصوبوں میں کام نہیں کر سکتیں‘ جب یہ نہیں ہوتا تو پھر عام آدمی کو سہولتیں بھی نہیں ملتیں لہٰذا وہ سمجھتا رہتا ہے کہ ٹیکس ایک بوجھ ہے‘ ہمارے ملک میں بھی دوسروں کی طرح دو طرح کے ہی ٹیکس ہیں‘ ایک بلواسطہ اور دوسرا بلا واسطہ‘ اب بلواسطہ ٹیکس تو تقریباً ہر شہری دے رہا ہے‘ مگر انکم ٹیکس صرف وہی طبقہ دیتا ہے جو ٹیکس نیٹ میں ہے‘ حکومت اس نیٹ کو بڑھانا چاہتی ہے جس کے لیے سلیب تبدیل کیے جاتے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس کے لیے فی کس آمدنی اور اخراجات کا یک معقول اور قابل اعتماد ڈیٹا اس کے پاس ہونا چاہیے اس کے بعد وہ منظم طریقے سے ٹیکس نافذ کرے، جس میں شفافیت بھی ہو اور انصاف بھی۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک رائے یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ حکومت سی پیک منصوبے پر کام کی رفتار کم کر چکی ہے، کیا یہ رائے درست تجزیے پر مبنی ہے۔
سجاد سرور چودھری:یہ بات کسی حد تک درست ہے‘ سی پیک ایک مرحلے میں نہیں بننا‘ بلکہ اس کے بہت سے مراحل ہیں، ہاں البتہ اسے جس رفتار سے آگے بڑھنا چاہیے وہ رفتار ضرور کم ہوتی ہوئی معلوم ہو رہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کہا جارہا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر ایسا کر رہی ہے۔
سجاد سرور چودھری: بہر حال‘ یہ ایک رائے ہے‘ تاہم کچھ حقائق ہیں لیکن ہمیں شک کی بجائے صورت حال کا درست تجزیہ کرنا چاہیے، اس وقت کاروباری حلقے میں ایک رائے یہ بھی پائی جارہی ہے کہ حکومت نے بر آمدات میںاضافے کے لیے اقدامات کے بجائے زیرو ریٹڈ کی شرط ختم کردی اور برآمدکنندگان سے 17فیصد جی ایس ٹی کی وصولی شروع کر دی گئی، برآمد کنندگان کے لیے کچھ مسائل ہیں ایف بی آر 72گھنٹوں برآمد کنندگان کے ریٹرن واپس نہیں کرر ہے ہیں عبدالرازق دائود، وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل، انڈسٹریزو پروڈکشن اینڈ انوسٹمنٹ ایک کھرے، اصول پسند، انتہائی قابل انسان، معروف اور محب وطن کاروباری شخصیت ہیں، محنتی، مخلص اور عملی شخصیت کے حامل ہیں بحیثیت مشیر ایکسپورٹس کو بڑھانے، تجارتی توازن قائم کرنے اور پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں۔رزاق دائود کی نگرانی میں وزارت تجارت و ٹیکسٹائل پانچ سالہ اسٹراٹیجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک تشکیل دے رہی ہے، پاکستان اسٹیل ایک چیلنج سے کم نہیں ہے اسے چلانا ایک ا ہم مرحلہ تھا اہم قومی ادارے کو کھیل تماشا بنا ہوا ہے۔ ادار ے کے 6ہزار سے زائد ملازمین کو سبکدوشی کے باوجود واجبات سے محروم ہیں، ملک میں معاشی نمو کم ہوئی ہے اور ہمیںان مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے صنعتکاری کے شعبے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ نجکاری کے معاملے پر ایف پی سی سی آئی کو اعتماد میںلیا جائے، نیب،ایف آئی اے اور ایف بی آر کی جانب سے بزنس کمیونٹی کو بے جا ہراساںکیا جارہا ہے۔اس کے علاوہ اسٹیل ،کپاس اور آٹو سیکٹر سمیت دیگر شعبہ جات کی ترقی نیچے آرہی ہے، ملک کی گرتی ہوئی معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی منجمد معیشت میں بہتری لائی جا سکے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا بہتری کی جانب پیش قدمی ہوئی ہے یا معاملہ رکا ہوا ہے۔
سجاد سرور چودھری: اس وقت صورت حال یہ کہ صنعت، تجارت کو رفتہ رفتہ تالا لگایا جا رہاہے اور ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت، بے روزگاری میں اضافہ جاری ہے، اسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مندی کا تسلسل، کاروباری ہفتے کے آخری روز جمعہ کوبھی اتارچڑھائو کے بعد مندی رہی تاہم کے ایس ای 100 انڈیکس33800کی نفسیاتی حدپرمستحکم رہا، مندی کے نتیجے میںسرمایہ کاروں کو41ارب49کروڑ روپے سے زائد کا خسارہ ہوا،کاروباری حجم گذشتہ روزکی نسبت16.49فیصدکم جبکہ56.40فیصد حصص کی قیمتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی۔حکومتی مالیاتی اداروں، مقامی بروکریج ہائوس سمیت دیگرانسٹی ٹیوشنز کی جانبسے توانائی،ٹیلی کام، فوڈز،بینکنگ،سیمنٹ،اسٹیل اورکیمیکل سیکٹر سمیت دیگرمنافع بخش سیکٹرمیں خریداری کے باعث کاروبار کا آغاز مثبت زون میں ہوا،ٹریڈنگ کے دوران ایک موقع پر کے ایس ای 100 انڈیکس34094پوائنٹس کی بلندسطح پر بھی دیکھا گیاتاہم سیاسی افق پر بے یقینی کی کیفیت،ملکی معاشی ناگفتہ بہ صورت حال، فروخت کے دبائو اور پرافٹ ٹیکنگ کے باعث مقامی سرمایہ کار گروپ تذبذب کا شکار نظرآئے اور سرمایہ کاری سے گریزکیا، جس کے نتیجے میں تیزی کے اثرات زائل ہوگئے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ فرمائیں کہ دنیا بھر میں حکومتیں اپنی نوجوان نسل کو باصلاحیت بنانے کے لیے اخراجات کرتی ہے انہیں تعلیم‘ کھیل کے مساوی مواقع د یے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ رواج نہیں بڑھ سکا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا اسمال چیمبر نوجوان کاروباری طبقے کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔
سجاد سرور چودھری:نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا ایک عظیم سرمایہ ہیں کیونکہ انہوں نے ہی آگے چل کر ملک کو چلانا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے ایک ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا نظام تشکیل دے، جس کی بدولت تمام اداروں کو مستقبل میں نہ صرف چلانے بلکہ انھیں بہتر سے بہتر بنانے والے لوگ سامنے آ سکیں۔ اسی لیے کہا جا تا ہے کہ نوجوان ہی دراصل کسی قوم کے مسقبل کا تعین کرتے ہیں۔لیکن کیا پاکستان کا تعلیمی نظام اس طرح مربوط کیا گیا ہے کہ یہ آنے والی نسل کو مستقبل کے لیے تیار کر سکے تو اس کا جواب ہے نہیں۔ اور جب تک نوجوانوں کی صلاحیتوں کا مفید استعمال نہیں کیا جاتا، آئندہ بہتر نتائج آنے کی بھی امید نہیں کی جا سکتی۔
فرائیڈے اسپیشل:کیا آپ چیمبر کے پلیٹ فارم کو اس کام میں لائیں گے۔
سجاد سرور چودھری: ہم اس بارے میں سوچ رہے ہیں ہمیں علم ہے کہ پاکستان کی تقریبا 64 فیصد آبادی کی عمر چالیس سال سے کم ہے جبکہ 41 فیصد آبادی کی عمر پندرہ سے تیس سال کے درمیان ہے۔لیکن اگر حالیہ صورت حال پر بحث کی جائے تو تقریباً 34 فیصد بیس سے چوبیس سال کی آبادی، جس عمر میں عموما انسان گریجویٹ ہو جاتا ہے، بالکل غیر تعلیم یافتہ ہے۔ اور پھر وہ لوگ جو اس قدر خستہ حال تعلیمی نظام میں رہ کر اپنے بل بوتے پر کچھ سیکھ بھی لیتے ہیں تو ملکی معاشی صورت حال کے پیش نظر اب بے روزگاری کی شرح 6 فیصد تک پہنچ رہی ہے۔ جس کا ایک نتیجہ فی لانسنگ کا بڑھتا ہوا رجحان ہے، جس میں زیادہ تر منافع بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو کچھ نہ کچھ کہیں نہ کہیں کام کر بھی رہے ہیں تو آپ کوئی بھی شعبہ اٹھا کر دیکھ لیں، چاہے وہ سائنس، آرٹس، معاشیات، ادب، فلسفہ، میڈیکل یا انجینئرنگ ہو، ان کی حالت ایک مزدور سے کم نہیں ہوتی جو صرف چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھنے تک محدود ہیں۔ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے نام پر چیزوں کا رنگ، نام یا انداز بیان تبدیل کر دیا جاتا ہے۔اگر بدلتے رجحان کو دیکھنا ہو تو وہ ٹک ٹاک پر ہمارے نوجوانوں کی تعداد سے واضح ہے یا پھر یوٹیوب پر چینلز کی نوعیت کا جنھوں نے لوگوں کا ہنسانے کا ٹھیکہ لیے ہوا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کے اندر آرٹ، لٹریچر، وغیرہ کو پروموٹ کرنے کے لیے جس قدر اور جس طرح کی کوششں کی جارہی ہیں وہ سب جانتے ہیں۔ اصل میں نوجوانوں کی تربیت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔اور جن مسائل کا ہمیں آج سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی سیاسی صورت حال ہے، جہاں ہر نئی حکومت ملک کے مستقبل کی بجائے اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ پریشان رہتی ہے۔ اور ہر سال قابل لوگ مایوس ہو کر باہر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، جن کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچنی والی ہے۔ لہٰذا مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے اور حالات بہتر بنانے کے لیے مثبت سوچ کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہنے چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل:کاروباری طبقے کی اصل میں تو اپنے کاروباری مفاد پر ہی نظر ہوتی ہے لیکن کشمیر میں بھی کاروباری طبقہ متاثر ہورہا ہے، اس بارے میں ہمارے کاروباری طبقے کے جذبات کیا ہیں۔
سجاد سرور چودھری: یہ بہت تلخ حقائق ہیں کہ لاکھوں کشمیری تاریخ کا بد ترین لاک ڈاؤن اور بلیک آؤٹ بھگت رہے ہیں برطانیہ‘ امریکہ اور مسلم دنیا انہیں اس سنگینی سے نجات دلائے پاکستان کا دورہ کرنے الے شاہی جوڑے سے بھی اپیل کی جانی چاہیے تھی کہ وہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے عوام کے جذبات براہ راست دیکھ چکے ہیں لہٰذا وہ کوشش کریں کہ برطانیہ مسلئہ کشمیر کے حل کے لیے انصاف کے مطابق کشمیری عوام کے رائے شماری کے حق کے لیے بھارت پر دبائو ڈالے، یہ صورت حال ایک سنگین المیے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، صحت عامہ کے اداروں اور بین الاقوامی میڈیا کی ٹیم کو مقبوضہ وادی کا دورہ کرنا چاہیے اور وہاں معصوم بچوں کی حالت زار اور دیگر حالات کو اپنی نظروں سے دیکھنا چاہیے بین الاقوامی قوانین اور ادارے اندھے نہیں ہو سکتے اداروں کی ساکھ، غیر جانب داری، اپنے منشور کی پاسداری اور اپنے قوانین کی عملداری پر ہوتی ہے۔ اس دیرینہ مسئلے کے دیرپا اور مستقل حل کی جتنی ضرورت ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی کشمیر ابھی تک محصور ہے اور المیہ کشمیر کے معاشی، سیاسی،عسکری اور اخلاقی اثرات ومضمرات عالمی سطح پر مرتب ہوں گے ان پابندیوں کے دورانیے اور مواصلاتی نظام کے تعطل کو اب مزید طویل نہیں ہونا چاہیے۔ مانچسٹر سٹی کونسل کے ایک نمائندہ وفد نے رچرڈ لیز کی سربراہی میںاسلام آباد سمال چیمبر کے دفتر کا دورہ کیا‘ وفد میں سینئر ممبر نسرین علی اور دیگر بھی موجود تھے ہم نے توجہ دلائی کہ عالمی برادری بھارت پر دبائو ڈالے کہ کشمیر میں بدترین کرفیو کی صورت حال ایک سنگین المیے کی طرف بڑھ رہی ہے پوری قوم کشمیری عوام کے ساتھ ہے اور ان کے دکھوں کے مداوا کے لیے عالمی برادری کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلارہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں،بین الاقوامی میڈیا کو مقبوضہ وادی کا دورہ کرنا چاہیے اور وہاں حالات کو اپنی نظروں سے دیکھنا چاہیے۔ پیلٹ گن کے استعمال سے کشمیریوں کی بینائی چھینی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی قوانین اور ادارے نوٹس لیں اداروں کی ساکھ، غیر جانب داری، اپنے منشور کی پاسداری اور اپنے قوانین کی عملداری پر ہوتی ہے اس دیرینہ مسئلے کے دیرپا اور مستقل حل کی ضرورت کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق جتنی اب ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔کشمیر ابھی تک محصور ہے اور المیہ کشمیر کے معاشی، سیاسی،عسکری اور اخلاقی اثرات ومضمرات عالمی سطح پر مرتب ہوں گے، پابندیوں کے دورانیے طویل ہوتے جارہے ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق لاکھوں کشمیری دوماہ سے اس کیفیت کا شکار ہیں اور تاریخ کا بدترین لاک ڈاؤن اور بلیک آؤٹ بھگت رہے ہیں برطانیہ اور عالمی دنیامسئلہ کشمیر کے حل کے لیے انصاف کے مطابق کشمیری عوام کے رائے شماری کے حق کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔