جامعہ بلوچستان، طلبہ و طالبات کی ہراسگی، وائس چانسلر مستعفی، تحقیقاتی کمیٹی قائم

جامعہ بلوچستان کے اندر سے طلبہ و طالبات کی ہراسگی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہ بات 14اکتوبر کو ذرائع ابلاغ پر نشر ہوئی،جس کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دی۔ بلوچستان کے اندر تو تادم تحریر (21اکتوبر) کہرام مچا ہوا ہے۔ سیاسی جماعتیں، سماجی تنظیمیں، عوامی حلقے اور اسی طرح طلبہ تنظیمیں احتجاج پر ہیں۔ بعد ازاں بلوچستان کی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن بھی احتجاج میں شامل ہوگئی۔ گویا صوبہ، یہاں کے عوام، بالخصوص والدین شدید پریشانی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ اس مسئلے پر ہر طبقہ بے مہار بول بھی رہا ہے۔ ملوث افراد کے خلاف بھرپور قانونی کارروائی کا مطالبہ ہورہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہراسگی کی بات وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے نکلی ہے جس نے اس ضمن میں یونیورسٹی کے اندر سے تمام مطلوبہ ریکارڈ قبضے میں لے کر تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس ادارے نے بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر تحقیقات میں پہل کی ہے۔ اور دوسرے تفتیشی و تحقیقاتی ادارے بھی غافل نہیں ہیں،گویا تحقیقات ہورہی ہے۔ چناں چہ اب طرح طرح کی باتوں، قیاس آرائیوں، دشنام طرازی اور الزامات کی ضرورت نہیں ہے۔ ایف آئی اے کام کررہی ہے جو اپنی رپورٹ 29 اکتوبر کو بلوچستان ہائی کورٹ میں پیش کرے گی، جس کے بعد مزید راست اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
جامعہ کے اندر اقرباء پروری، منظورِ نظر ملازمین کو نوازنے، خلافِ ضابطہ و قانون اقدامات کے الزامات بھی لگ چکے ہیں، مثلاً درجہ چہارم کے ملازم (سیف اللہ) کو سرویلنس روم کا انچارج بنایا گیا یا 14گریڈ کے ٹرانسپورٹ آفیسر کو اٹھاکر18گریڈ کی کرسی پر بٹھادیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس وقت اصل مسئلہ ہراسگی کا ہے جس میں لگنے والے الزامات کے مطابق یونیورسٹی کے اندر 30 خفیہ کیمرے لگائے گئے ہیں جن کے ذریعے طلبہ و طالبات کی نقل و حمل، حرکات و سکنات کی خصوصی مانیٹرنگ کی جاتی تھی۔ جہاں لڑکا اور لڑکی ساتھ بیٹھے گفتگو کرتے، ہاتھ ملائے بیٹھتے، اس کی ویڈیو بناکر طالبات کو بلایا جاتا اور انہیں ویڈیو دکھائی جاتی۔ یوں انہیں ہراساں کیا جاتا۔ کہا گیا ہے کہ یہ عمل عرصے سے جاری تھا، کئی طالبات اس ضمن میں بلیک میل کی جاچکی ہیں، اور یہ ویڈیوز سینکڑوں کی تعداد میں محفوظ ہوچکی ہیں۔ چناں چہ معاملہ طشت از بام ہونے کے بعد یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل سے کئی طالبات گھروں کو چلی گئیں۔ یقینا کئی طالبات کا تعلیمی مستقبل دائو پر لگ چکا ہوگا۔ مزید حقائق ہائی کورٹ میں رپورٹ آنے کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔ گورنر بلوچستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ملوث ملازمین سے رعایت نہیں برتی جائے گی۔ یہاں اساتذہ پر بھی
گرفت ہوئی کہ وہ مختلف حربوں سے طالبات کو ہراساں کرتے رہے ہیں۔ ایک استاد کلیم اللہ مندوخیل کو مس کنڈکٹ کے الزام میں معطل کیا جاچکا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے اراکن پر مشتمل کمیٹی بن چکی ہے۔ اس کمیٹی میں صوبائی وزیر سلیم کھوسہ، میر اسد اللہ بلوچ، نعیم بازئی، ثناء بلوچ، دنیش کمار، نصر اللہ زیرے، سید فضل آغا، سید احسان شاہ، ماہ جبین شیران اور شکیلہ دہوار شامل ہیں۔ یہ کمیٹی بھی اس باب میں تحقیقات کرے گی۔ اس پوری صورت حال میں جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال بھی تنقید کی زد میں آئے، انہیں شامل گردانا جاتا ہے۔ چناں چہ بلوچستان اور ملک بھر میں احتجاج کے دوران وائس چانسلر کو برطرف کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا، اور بالآخر انہیں 20اکتوبر کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ گورنر سیکریٹریٹ سے اتوار کے دن نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق وائس چانسلر سے ان کی اپنی درخواست پر خدمات واپس لے کر پروفیسر محمد انور پانیزئی کو قائم مقام وائس چانسلر مقرر کردیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے اکیڈمک اسٹاف نے بھی وائس چانسلر کے خلاف احتجاج کیا۔ تنظیم کے نائب صدر پروفیسر فرید اچکزئی نے تو یہاں تک کہا کہ وائس چانسلر خود 1992ء میں اسکالرشپ پر آئی ایک ایرانی طالبہ کو ہراساں کرنے کے جرم میں ملازمت سے نکالے گئے تھے، تب محمد خان رئیسانی جامعہ کے وائس چانسلر تھے۔ جب دوسرے وائس چانسلر ڈی کے ریاض بلوچ آئے تو انہیں ملازمت پر دوبارہ بحال کیا گیا۔ مابعد خلافِ ضابطہ ترقیاں دی گئیں، یہاں تک کہ جامعہ کے وائس چانسلر بنائے گئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے اور پروفیسر فرید اچکزئی کے بارے میں کہا کہ وہ خود غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ بہرحال یونیورسٹی کے اندر معاملات اچھے نہیں۔ میرٹ کی پامالی ہورہی ہے۔ اقرباء پروری اور نوازشات کی جارہی ہیں۔ خصوصاً طالبات کئی حوالوں سے ہراسگی کا نشانہ بن چکی ہیں۔ چناں چہ جامعہ کے اندر بڑے پیمانے پر تحقیقات اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہاں ضروری ہے کہ گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی ان سارے معاملات کو باریک بینی سے دیکھیں، خود کو بالادست رکھیں۔ البتہ صوبائی حکومت کی رٹ کا مضبوط ہونا لازم ہے۔ تعلیمی ادارے یرغمال نہ بننے دیئے جائیں۔ سول حکمرانی اور گرفت نمایاں ہونی چاہیے اور اس کا احساس عوام اور طلبہ و اساتذہ کے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس احتجاج میں غلط لوگ غلط ارادوں کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں۔