نیلی روشنی بڑھاپے کا عمل تیز کردیتی ہے؟

تحقیق کے مطابق اسمارٹ فون، کمپیوٹر اسکرین اور دیگر اشیا سے خارج ہونے والی روشنی بڑھاپے کے عمل کو تیز کرسکتی ہے خواہ آپ ان کو دیکھتے ہیں یا نہیں۔ اوریگون اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک مشہور جانور کے ماڈل پر بعض تجربات انجام دیئے ہیں۔ ان کے مطابق اسمارٹ فون اور دیگر آلات کی اسکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنی (بلیو لائٹ) کی طولِ موج (ویولینتھ) جسم کے خلیات کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ آنکھوں اور دماغ کے خلیات کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ سائنس دانوں نے پھل مکھی (ڈروسوفیلا) پر بعض تجربات کیے ہیں کیونکہ اس مکھی کو بطور انسانی ماڈل بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جامعہ کے سائنس دان پروفیسر جیگا گیبلٹوز نے پھل مکھی کو 12 گھنٹے تک نیلی ایل ای ڈی روشنی میں رکھا جو عین فون اور ٹیبلٹ کی طرح روشنی خارج کررہی تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ اس قسم کی روشنی سے مکھیوں میں عمررسیدگی بڑھ گئی۔ اسی کے ساتھ ساتھ 12 گھنٹے (نیلی) روشنی اور 12 گھنٹے اندھیرے میں رکھی جانے والی مکھیوں کی زندگی بھی کم ہوگئی۔ البتہ نیلی روشنی کے بغیر دیگر روشنیوں یا پھر مکمل اندھیرے میں رکھی جانے والی مکھیوں کی زندگی یا عمر پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس میں سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ نیلی روشنی سے مکھیوں کی آنکھوں کے ریٹینا کے خلیات اور دماغی خلیات بھی متاثر ہوتے دیکھے گئے۔ نیلی روشنی نے مکھیوں کے چلنے پھرنے کو بھی متاثر کیا، مثلاً یہ مکھیاں آ?رام سے دیوار پر چلتی ہیں لیکن نیلی روشنی سے وہ عمودی دیوار پر چلنے کے قابل بھی نہ رہیں۔ دوسرے مرحلے میں ماہرین نے روشنی میں رکھی جانے والی مکھیوں میں جینیاتی تبدیلیاں نوٹ کیں جو زندگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ نیلی روشنی کا یہ تجربہ انسانوں پر بھی لاگو ہوسکتا ہے، کیونکہ پھل مکھی پر کیے گئے کئی تجربات بعد میں انسانوں پر بھی کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ اس پر سائنس دانوں نے مشورہ دیا ہے کہ ایک جانب تو فون پر نائٹ ورژن استعمال کیا جائے اور دوسری جانب اسکرین بنانے والی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ اس خامی کو دور کریں تاکہ اسکرین سے نیلی تباہ کن روشنیوں کا اخراج کم کیا جاسکے۔

دماغی رسولی کی 87 فیصد درست تشخیص کرنے والا بلڈ ٹیسٹ

خون کی بدولت بہت سے امراض کی تشخیص کی جاتی ہے، لیکن اب ایک سادہ بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے دماغی سرطان کی درست ترین شناخت کرنا ممکن ہے، جس میں درستی کی شرح 87 فیصد ہے۔ گلاسگو میں واقع یونیورسٹی آف اسٹریچ کلائیڈ کے پروفیسر میتھیو جے بیکر اور ان کے ساتھیوں نے یہ اختراع کی ہے اور اس کا مقالہ ”نیچر کمیونی کیشن“ میں شائع ہوا ہے۔ پروفیسر میتھیو کا کہنا ہے کہ ”ہم پہلی مرتبہ کلینکل مطالعے کے اعداد و شمار پیش کررہے ہیں اور اس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ خون کا یہ ٹیسٹ تجربہ گاہ میں کام کرسکتا ہے“۔ برین کینسر پاکستان سمیت پوری دنیا میں پھیل رہا ہے لیکن اس کی شناخت بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس کی عام وجوہ میں یادداشت کی کمی، دردِسر اور چکر وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن عین یہی علامات دیگر کئی امراض کی بھی ہوتی ہیں۔ اسی بنا پر دماغی سرطان کئی مرتبہ نظرانداز ہوجاتا ہے۔ ہر مریض میں اس کی ظاہری علامات مختلف ہوتی ہیں اور کبھی کبھی بہت دیر میں ظاہر ہوتی ہیں۔ دوسری جانب اگر علاج نہ کرایا جائے تو 33 فیصد مریض ہی مرض کے پانچ سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ کم خرچ اور آسان ہے جس میں خون کے نمونے پر انفراریڈ روشنی ڈال کر بایو سگنیچرز تلاش کیے جاتے ہیں اور اس میں مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جب اسے 104 افراد پر آزمایا گیا تو اس نے کئی بار 87 فیصد درست نتائج دیئے، جس کا مطلب ہے کہ 100 میں سے 87 فیصد مریضوں میں یہ دماغی کینسر کو درست طور پر بھانپ سکتا ہے۔ زیادہ تفصیل میں جائیں تو یہ کسی درد یا دماغ کو نقصان پہنچائے بغیر ایسا عمل ہے جسے اے ٹی آر ایف ٹی آئی آ?ر اسپیکٹرو اسکوپی کے ذریعے انجام دیا گیا ہے جس میں کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت سے مدد لی گئی ہے۔

خوراک کا عالمی دن: ’گلوبل ہنگر انڈیکس‘ کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک میں انڈیا سب سے پیچھے

دنیا میں بھوک کی صورتِ حال کے بارے میں ’گلوبل ہنگر انڈیکس‘ کی تازہ ترین رپورٹ جاری کردی گئی ہے جس کے مطابق 117 ممالک کی فہرست میں پاکستان گزشتہ سال کے مقابلے میں 12 درجے بہتری حاصل کرکے 94ویں نمبر پر آگیا ہے جبکہ انڈیا ایک درجہ بہتری حاصل کرکے 102ویں نمبر پر ہے۔ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک میں سری لنکا 66ویں، نیپال 73ویں، بنگلہ دیش 88ویں، اور افغانستان 108ویں نمبر پر ہے۔ گلوبل انڈیکس میں نیچے ہونے کا مطلب ہے کہ اس ملک کی آبادی کو ضروری خوراک نہیں مل رہی، بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہے، بچوں کا وزن کم ہے اور وہ خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔
انڈیا ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ہے لیکن جنوبی ایشیا میں ’گلوبل ہنگر انڈیکس‘ کے مطابق وہ سب سے پیچھے ہے۔ انڈیا 2010ء میں 95ویں نمبر پر تھا اور اب 2019ء میں 102ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جنوبی ایشیائی ممالک اور افریقہ میں صحارائے اعظم کے جنوب میں واقع ممالک ہنگر انڈیکس میں سب سے پیچھے ہیں جو کہ ان ممالک میں خوراک کی شدید کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ ’گلوبل ہنگر انڈیکس‘ کی 2019ء کی فہرست میں لیٹویا، بیلاروس، ایسٹونیا، کویت اور ترکی کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں خوراک کے معاملے صورت حال سب سے اچھی ہے۔