تاریخ کے لحاظ سے سیرۃ طیبہ (8)۔

ابوسعدی
تحریر: اُم احمد
اُم المومنین حضرت صفیہ بنت ِ حی بن خطبؓ سے نکاح:7ہجری۔
غزوہ ذات الرقاع: جمادی الاوّل 7 ہجری۔
عمرۃ القضاء: ذی قعدہ 7 ہجری۔
معرکہ موتہ: جمادی الاولیٰ 8 ہجری۔
مشرکینِ مکہ کی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی: رجب 8 ہجری۔
غزوہ فتحِ مکہ: رمضان 8 ہجری۔
مدینہ سے روانگی: 10 رمضان 8 ہجری۔
صحابہ کی تعداد جو آپؐ کے ساتھ تھی: 10 ہزار
مکہ میں داخلہ: 17 یا 20 رمضان 8 ہجری۔
مکہ میں نبیؐ کا قیام: 19 روز۔
سود کی حرمت کا حتمی حکم: فتح کا موقع 8 ہجری۔
غزوہ حنین: شوال 8ہجری۔
غزوہ طائف: شوال 8 ہجری۔
نبیؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کا انتقال: 8 ہجری۔
نبیؐ کے فرزند حضرت ابراہیمؓ کا انتقال: 8ہجری۔
غزوہ تبوک: رجب 9 ہجری (رومیوں کے ساتھ)

شہزادہ مسجد

سڑک پار ہی ایک بہت خوب صورت قدیم مسجد نظر آئی۔ عصر کی نماز کا وقت تھا، اذان ہوتے ہی ہم باوضو مسجد کی طرف روانہ ہوئے، عصر کی نماز کے بعد مسجد کے معائنے کا موقع ملا۔ مسجد کے چاروں طرف ایک وسیع و عریض باغ تھا جس کے ایک کونے پر کچھ قبریں تھیں جو سڑک کی سمت والی چار دیواری میں نصب گِرل سے صاف نظر آتی تھیں۔ قبریں اونچی کرسی کی تھیں جس کے چاروں طرف سفید سنگِ مرمر لگا تھا اور درمیان میں گلاب کے خوب صورت پھول کھلے تھے جو لال، پیلے اور سفید رنگ کے امتزاج سے ایک عجیب بہار دکھا رہے تھے۔ یہ مسجد Princes Mosque کہلاتی ہے۔ یہاں مغرب کی نماز تقریباً ساڑھے 8 بجے ہوتی ہے، چنانچہ مغرب کی نماز میں شرکت کا موقع بھی مل گیا۔ امام صاحب کی قرأت منفرد تھی اور کانوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ مسجد کا بلند و بالا ہال اور اس پر کندہ قرآنی آیتیں اور آرائشی نقش و نگار کمال کا جمالیاتی توازن رکھتے تھے اور انہیں دیکھ کر قدیم ترک نقاشوں اور ماہرینِ فن تعمیر کے لیے بے ساختہ داد و تحسین کے کلمات نکلتے تھے۔ مسجد کے اطراف خوب صورت باغ میں قدیم درختوں کے درمیان روشیں اور سبزہ، گلاب کے پھولوں سے مزین کیاریاں اپنی بہار دکھا رہی تھیں۔ دوسرے دن عصر کی نماز کے بعد انھیں بغور دیکھنے پر اندازہ ہوا کہ روزانہ ان کی خوب دیکھ بھال کی جاتی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ عملہ متعین ہے۔ ’’شہزادہ مسجد‘‘ سولہویں صدی عیسوی میں شاہی مسجد کی حیثیت سے تعمیر کی گئی۔ یہ استنبول کے ڈسٹرکٹ ’’فتح‘‘ میں واقع ہے۔ یہ مسجد “The Magnificent Sultan” نے اپنے بیٹے “Shezada Mehmed” کی یاد میں تعمیر کرائی تھی جس کا انتقال 1543ء میں ہوا تھا۔ اس کے عمارت کار کا نام “Mimar Sinan” تھا۔ اس عمارت کی تعمیر1543ء میں شروع ہوئی اور تکمیل 1548ء میں ہوئی۔ اس کے مرکزی گنبد کی بلندی 121 فٹ ہے اور اس کا Diameter، 62 فٹ ہے جس کے ساتھ چار ہاف گنبد ہیں، اس سے کچھ فاصلے پر دو مینار ہیں جن کے سرے مخروطی ہیں جیسا کہ ترکی کی مسجدوں کے میناروں میں نظر آتے ہیں، اور ان کی اونچائی 180 فٹ ہے۔ ان کی تعمیر میں Granite Cut Stone اور ماربل کا استعمال ہوا ہے۔ مرکزی گنبد کے سہارے کے لیے نیچے ہال میں 4 پلر ہیں جن کی موٹائی 6 فٹ اور اونچائی 121 فٹ ہے۔
(اقبال احمد صدیقی، ”عمارت کار“)

وقت

٭جب موت کا وقت آجاتا ہے تو نہ ہی ایک ساعت پیچھے ہوتا ہے اور نہ ہی ایک ساعت آگے۔
٭دنیا کی تمام اشیا ضائع ہوجانے کے بعد پھر دستیاب ہوسکتی ہیں لیکن ضائع شدہ وقت کبھی واپس نہیں آتا۔
٭ہر ایک کام کا وقت ہے مگر انسان موت کا وقت نہیں جانتا۔
٭وقت ضائع کرتے وقت یاد رکھنا چاہیے کہ وقت بھی آپ کو ضائع کررہا ہے۔
(نذیر انبالوی،اقوال زریں کا انسائیکلوپیڈیا)

حجاج کا دربار اور تین چور

تین آدمی چوری اور آوارہ گردی کے الزام میں پکڑے گئے اور حجاج بن یوسف کے سامنے پیش ہوئے۔ حجاج نے پوچھا: تم کون ہو؟ ان میں سے ایک نے جواباً ایک شعر پڑھ دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ میں اُس شخص کا فرزند ہوں جس کے سامنے بڑے بڑے معزز اور بااقتدار لوگوں کی گردنیں جھکی رہتی ہیں، یہ سب لوگ میرے باپ کے پاس مجبوراً آتے ہیں۔ حاضرین نے سمجھا کہ یہ عرب کے شرفا اور رئیسوں میں سے ہے۔
دوسرے نے کہا: میں اس باپ کا بیٹا ہوں جس کی ہانڈی کبھی چولہے سے نہیں اترتی، اور اگر اترتی ہے تو پھر چڑھ جاتی ہے۔ عوام میرے باپ کی جلتی آگ کی طرف جوق در جوق آتے ہیں۔ حاضرین نے سمجھا کہ یہ اہلِ سخاوت اور اہلِ کرم میں سے ہے۔
تیسرا بولا: میں اُس کا بیٹا ہوں، جو اپنے ارادے سے صفوں کو چیرتا اور تلوار سے ان کو سیدھا کرتا ہے یہاں تک کہ وہ سیدھی اور درست ہوجاتی ہیں، اس کے پائوں ہمیشہ رکابوں میں رہتے ہیں۔ حاضرین نے خیال کیا یہ شجاعانِ عرب میں سے معلوم ہوتا ہے۔
جب ان تینوں کے حالات و بیانات کی تحقیق کی گئی تو پہلا شخص حجام، دوسرا نان بائی اور تیسرا جولاہا نکلا۔
(ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ ، جون 2004ء)