رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ

چودہ سو برس ہوچکے جب قرآن نے اپنے متعلق اعلان کیا کہ دنیا بھر کے انسان مل کر بھی میری مثل پیدا نہیں کرسکتے۔ یہ دعویٰ ہنوز تشنہ ٔ جواب ہے، بلکہ سب لوگ خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر، اس بات کے معترف ہیں کہ صفحہ زمین پر قرآن کے برابر کوئی کتاب نہیں، نہ ایسی کتاب پیدا ہی کی جاسکتی ہے۔ اس دعوے کی حقانیت کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ تمام عرب دنیا قرآن پر ایمان رکھتی ہے۔ پھر اس کی زبان کی بے مثل فصاحت و بلاغت کے علاوہ اس کے معانی پر غور کرو تو اس کی بیان کی ہوئی ابدی اور عالمگیر سچائیاں کسی اور کتاب میں نہ اس تکمیل اور کثرت سے ملتی ہیں، اور نہ اس وضاحت سے۔ اس کی توحید، اس کا تصورِ آخرت، اس کا فلسفہ ہلاکتِ اقوام، اس کا قانونِ جزا بالعمل، ہاں! وحدتِ خالق کے بعد وحدتِ کائنات، وحدتِ حیات، وحدتِ آدم، وحدتِ انبیا، وحدتِ قانون وغیرہ عرشِ معلّیٰ کو چھونے والے مسائل ہیں جن کے آگے دنیا کے سب حکیموں کی کتابیں بازیچہ اطفال ہیں۔ اور بات یہیں پر بس نہیں، انسانی ضروریات کی چھوٹی ہدایات بھی تفصیل سے لکھی ہیں، اور ان کی صحت کا یہ عالم ہے کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔
پھر قرآن وہ واحد الہامی کتاب ہے جو اپنے اصلی الفاظ میں قائم ہے، جس کی زبان آج تک زندہ ہے، جس پر اوّل سے آخر تک عمل کراکر دکھایا گیا، جس کی حقانیت کو عمل سے سچا ثابت کردیا گیا، جس کا ایک ایک حرف سینوں میں محفوظ ہے، جس کے ایک ایک حرف کی ادائیگی کا طریقہ مقرر ہے، جس کا ایک شوشہ نہیں بدلا، جو نمازوں میں پڑھا جاتا ہے، جسے کروڑوں ہر روز تلاوت کرتے ہیں، جو دلوں پر جادو کا اثر رکھتا ہے، ہاں! آج اگر کوئی کسی رسول کا معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے تو محمدؐ کے قرآن کو دیکھے اور اس پر تدبر کرے۔ یہ معجزہ اسے اور کہیں نہ ملے گا۔
محمد عربی صلعم وہ واحد رسولِ خدا ہے جو تاریخ کی روشنی میں ظاہر ہوا، جس کی زندگی اوّل سے آخر تک تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے اور جو ساری کی ساری ایک معجزہ ہے۔ وہ ایک یتیم ہے، بغیر ماں باپ اور بھائی بہنوں کے جو بارہ برس کی عمر سے تجارت میں مشغول ہے، جو پچیس برس کی عمر میں اپنے سے کہیں بڑی عمر کی عورت سے شادی کرتا ہے اور چالیس برس تک کائنات کا خاموش تماشائی رہتا ہے۔ پھر اچانک دعویٰ رسالت کرتا ہے اور تیرہ برس تک مکہ کی دکھ سے بھری ہوئی زندگی اور جانی دشمنی کے بالمقابل انسانی مسائل سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اس کی شخصیت میں وہ جادو ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اس کے قریب جانے سے روک دیتے ہیں، اور اس کا قرآن سن کر کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ پھر وہ ایک دوسرے شہر میں ہجرت کرتا ہے اور ایک حقیر سی جمعیت لے کر کفر سے بے دریغ نبرد آزما ہوجاتا ہے، اور قیصر و کسریٰ کے سرنگوں ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ وہ عین بڑھاپے میں میدانِ جنگ میں آکر دشمن کو پچھاڑ دیتا ہے۔ سب بھاگتے ہیں مگر وہ اپنا قدم تک پیچھے نہیں ہٹاتا۔ ہاں! وہ راتوں کو بھوکا سونا گوارا کرتا ہے مگر کسی سے ایک دانہ لینا گوارا نہیں کرتا، اپنے ننھے نواسے کے منہ سے صدقے کی کھجور نکال کر پھینک دیتا ہے۔ ننگی چارپائی پر استراحت کرتا ہے اور اپنا جوتا خود گانٹھتا ہے۔ اپنے لیے کوئی پہرہ نہیں رکھتا۔ متعدد بیویوں کا بوجھ اس خوش اسلوبی سے اٹھاتا ہے کہ وہ سب اس کے حسن سے عمر بھر مسحور رہتی ہیں۔ جھوٹ سے ادنیٰ سمجھوتہ نہیں کرتا۔ جنگ کی شبانہ روز مصروفیت کے باوجود مدنی سورتوں میں ایک مفصل قانون ہویدا کرتا اور ہر قدم پر صحابہ کو تعلیم دیتا چلا جاتا ہے۔ ہاں! صرف تیئس برس میں الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْکا اعلان کردیتا ہے، صرف تیئس برس میں ایک پورے ملک کو یوں سرنگوں کرتا ہے کہ لوگ دور دور سے چل کر آتے ہیں اور سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔ پھر، دنیا میں غلبہ اسلام کی بنیاد رکھ دیتا ہے کہ اس کے ماننے والے تین سو برس تک سربکف اطرافِ عالم میں بڑھتے ہیں اور اس کی دی ہوئی حرکت تھمنے میں نہیں آتی۔
کیا تاریخِ عالم کوئی دوسرا شخص پیش کرسکتی ہے جو بیک وقت قانون ساز بھی ہو، مصلح بھی ہو، ہادی بھی ہو، سپہ سالار بھی ہو، فاتح بھی ہو، بہادر بھی ہواور سخی، قانع اور فقیر بھی ہو- کیا یہ منفرد اعجاز معجزہ نہیں؟
(” حضورؐ کی زندگی اور معجزات“، از:ڈاکٹر ایوب)

اندازِ نگہ

(اقبال نے خود لکھا ہے کہ یہ شعر کابل میں کہے گئے)

مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
مروتِ حسن عالمگیر ہے مردانِ غازی کا
شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا!
بہت مدت کے نخچیروں کا اندازِ نگہ بدلا
کہ میں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا!
قلندر جز دو حرف لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا!
حدیثِ بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو
نہ کر خارا شگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا!
کہاں سے تُو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا!

-1مسلمان کی فطرت ہی یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ حُسنِ اخلاق، ہمدردی اور محبت سے پیش آئے اور ان کی دل نوازی کرے، جو مردانِ حق خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، لطف و احسان اور شفقت و مروت ان کی عالمگیر خوبیاں ہیں۔ یعنی ہو نہیں سکتا کہ مسلمان جو راہِ خدا کا غازی ہے ان خصلتوں سے خالی ہو۔
-2اے خدا! مجھے درس گاہوں کے منتظموں سے یہ شکایت ہے کہ وہ شہبازوں کے بچوں کو مٹی میں کھیلنے کا سبق دے رہے ہیں۔
-3جو لوگ مدت دراز سے دوسروں کا شکار بنے ہوئے تھے ان کی نگاہوں کا انداز بدل گیا۔ یہ اس امر کا نتیجہ ہے کہ میں نے شہبازی کا طریقہ روزِ روشن کی طرح آشکارا کردیا۔
-4خدا مست درویش کے پاس لا الٰہ کے دو حرفوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وہ سب کو توحید کا پیغام دیتا ہے، اور توحید کے پابند بناتا ہے۔ شہر کے فقیہ کے پاس عربی الفاظ کے بے شمار خزانے موجود ہیں۔ وہ تقریر و تحریر میں بڑے بڑے لفظ استعمال کرتا ہے۔ پھر ان کی تشریح میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا ہے، لیکن حقیقی پیغام نہیں پہنچاتا۔
-5مجھے عام شاعروں کی طرح شراب، صراحی اور پیالے کی باتیں نہیں آتیں، لہٰذا مجھ سے یہ باتیں سننے کی امید نہ رکھ، میں تو پتھروں کو چیرنے والا ہوں۔ تعجب یہ ہے کہ تُو مجھ سے شیشے بنانے کا تقاضا کررہا ہے۔
-6اے اقبال! تُو نے یہ درویشی کہاں سے سیکھی جس نے تجھے اس درجے پر پہنچا دیا کہ بادشاہوں میں بھی تیری بے نیازی کا چرچا ہورہا ہے؟ جس درویش کی بے نیازی پر بادشاہوں کو بھی اچنبھا ہو، اس کی عظمت و بلندی کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے؟