فیشن پرستی

آج کل جو انتہا درجے کی فیشن پرستی رائج ہے، اس سے ہیجان انگیز جذبات پیدا ہوتے ہیں، چین و سکون غارت ہوتا ہے، حرص و ہوس کی آگ ہمیشہ سلگتی رہتی ہے، انسان کی خواہش دم نہیں توڑتی، قناعت کی جگہ اسراف کی عادت ہوجاتی ہے، جھوٹی نمائش کا انسان عادی ہوجاتا ہے، واقعی اور حقیقی ضرورتوں کی جگہ مصنوعی ضرورتوں کو ترجیح دی جاتی ہے، عارضی چمک دمک کی ہر چیز مرکزِ توجہ بن جاتی ہے۔
مولانا قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے لکھا ہے کہ فیشن پرستی کے مرض نے مسلمانوں کی اسلامی معاشرت کو سخت نقصان پہنچایا، اور سادگی اور بے تکلفی جو اسلام نے معاشرت کے راستے مسلمانوں میں پیدا کی تھی، اسے شدید نقصان پہنچا ہے۔ مسلمانوں کی مسلم خصوصیات کالعدم ہوکر رہ گئی ہیں۔
فیشن پرستی کا ہی نتیجہ ہے کہ السلام علیکم کی جگہ پرانی تہذیب میں آداب و تسلیمات نے لی، اور اب ہیلو ہیلو، ٹاٹا بائے بائے کا رواج ہے، حالانکہ ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنا سب سے اچھا ہے۔ سنن ابی دائود میں ہے کہ صحابی عمران بن حصینؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ اسلام سے پہلے صبح میں ملاقات کے وقت آنعمہ صباحاً (صبح بخیر) کہا کرتے تھے، لیکن ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی اور اس کے بجائے السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ فیشن کے مرض کی وجہ سے ہی نوجوان سگریٹ نوشی پر مائل ہوتے ہیں، یورپ کی طرح ہندوستان میں بھی کاک ٹیل پارٹیاں عام ہیں۔ ان میں مسلمان مرد، عورتیں بھی شریک ہوتے ہیں۔ آج کل کمپیوٹر پر کاک ٹیل پارٹی کی ایک تصویر دیکھنے کو ملتی ہے جس میں بھارت میں صدر پرویزمشرف اور ان کی بیگم کو جام تھامے کاک ٹیل پارٹی میں دکھایا گیا ہے۔ ان کے جام میں شراب نہیں کوئی اور مشروب ہوگا۔ اس طرح کی کاک ٹیل پارٹیوں کا فیشن یا رواج خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں نہیں، لیکن سفارت خانوں کی تقاریب میں یہ پارٹیاں ہوتی ہیں اور ان میں حکام سے لے کر صحافی تک سب شریک ہوتے ہیں، حالانکہ جرأتِ ایمانی اور غیرتِ ایمانی کا تقاضا ہے کہ اس طرح کی پارٹیوں سے دور رہا جائے۔
مغرب میں فیشن پرستی کا آغاز مغرب کی نئی خوش حالی کے دور میں ہوا تھا، لیکن ہم نے اس کا آغاز اپنی معاشی بدحالی کے دور میں کیا ہے، اور معاشی بدحالی کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مغرب میں یہ فیشن پرستی ابتدا میں معصوم نظر آرہی تھی لیکن اس نے ہی وہاں کی معاشرتی اقدار کو توڑ پھوڑ دیا ہے، اور اس فیشن پرستی نے جنس پرستی پیدا کی ہے جو مغربی دنیا کے لیے مسئلہ بن گئی ہے۔ نیویارک سے اسرار احمد کسانہ نوائے وقت میں لکھتے ہیں کہ امریکی شعبہ صحت اور ہیومن سروسز کے شماریاتی بیورو کے مطابق خودکشی کرنے والے 63 فیصد نوجوان اور گھروں سے بھاگ جانے والے 90 فیصد نوجوان بن باپ کے گھروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکی شعبہ انصاف کی خصوصی رپورٹ کے مطابق امریکی ریاستوں کی جیلوں میں موجود نوجوان مجرموں کی 70 فیصد، نوجوان نفسیاتی مریضوں کی 85 فیصد، ریپ (زنا بالجبر) کے نوجوان مجرمین کی 80 فیصد، اسکولوں میں ڈراپ آئوٹ ہونے والوں کی 71 فیصد اور تمام جیلوں میں موجود نوجوانوں کی 85 فیصد تعداد کا تعلق بن باپ کے گھروں سے ہے۔
امریکہ میں ہر ذی شعور شخص یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر یہ کیا ہورہا ہے! یہ ہورہا ہے کہ امریکہ میں جنس کی آزادی ہے، بلکہ اب تو ہم جنس پرستی کی بھی آزادی ہے۔ شادی کا ادارہ دن بدن کمزور پڑ رہا ہے۔ اکثر لوگ شادی جیسے جنجال میں پڑتے ہی نہیں، اور اس کے بغیر ہی بچے پیدا کرتے چلے جاتے ہیں، اور جو یہ رسک لے لیتے ہیں اُن کی پچپن فیصد تعداد سال دو سال کے اندر ہی طلاق کے مرحلے سے گزرتی ہے جو یقیناً ایک تکلیف دہ اور مہنگا مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جس کے دوران میاں بیوی سے بھی بڑھ کر جس کا نقصان ہوتا ہے، وہ ان کے بچے ہیں جو ماں باپ کے درمیان تقسیم ہوکر رہ جاتے ہیں اور ان کی شخصیت زندگی بھر مکمل نہیں ہوپاتی۔
فلوریڈا کے طلاق سے متعلق نیشنل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ریسرچ ڈاکٹر جوناتھن منی کٹ کے مطابق 90 فیصد باپ بچوں کی مکمل کسٹڈی حاصل نہیں کرپاتے، جبکہ امریکی شماریاتی بیورو کا کہنا ہے کہ 37.9 فیصد باپ اپنے بچوں کو ملنے یا ان کو دیکھنے کے حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہ مرحلہ نہ صرف ایک باپ کے لیے نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے اور بچوں سے دوری کا ایک ایک لمحہ صدیوں کی مانند گزرتا ہے بلکہ اُس کے بچے اُس سے دور ایک عجیب قسم کی تکلیف محسوس کررہے ہوتے ہیں۔ وہ بچپن سے ہی احساسِ محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ باپ کی صورت میں مضبوط ہاتھ کھو جانے کی صورت میں وہ اپنے اسکول کے اُن دوستوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جن کے باپ انہیں اسکول لے کر آتے اور جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر مائیں باپ کے بچوں سے ملنے سے ہی مکمل اختلاف کرتی ہیں۔ مشہور کتاب ’’سروائیونگ دی بریک اَپ‘‘ کی مصنفہ جون کیلی اور جوڈتھ ویلر اسٹائن کے مطابق 50 فیصد مائیں طلاق کے بعد باپ کے بچوں کے ساتھ مستقل رابطے کے خلاف ہیں، جبکہ ایسی مائوں کی تعداد صرف 11 فیصد ہے جو اس رابطے کو ضروری سمجھتی ہیں۔
امریکن جرنل آف آرتھوسائیکیٹری کا کہنا کچھ یوں ہے کہ غصے اور انتقامی احساسات کی وجہ سے اکثر مائیں اپنے بچوں کو باپ سے ملنے سے روکتی ہیں۔ اینیٹ وینسی اور ایڈورڈ ڈنکلز کی اسٹڈی کے مطابق عدالت کے فیصلے کے باوجود مائوں کی مداخلت کی وجہ سے 77 فیصد باپ اپنے بچوں سے مل نہیں پاتے۔ وہ باپ جنہیں بچوں سے ملنے کے حقوق حاصل ہیں اور وہ ان کا خرچ برداشت کررہے ہیں اُن کی تعداد 79 فیصد ہے، جبکہ 44.5 فیصد ایسے باپ بھی ہیں جن کو ملنے کے حقوق بھی حاصل نہیں اور وہ پھر بھی خرچ برداشت کررہے ہیں۔ جو افراد بچوں کی ذمہ داری نہیں ادا کرپارہے ان کی 66 فیصد تعداد ایسی ہے۔
کسی بھی معاشرے کی طاقت اُس کا خاندان ہوتا ہے۔ اور خاندان میاں بیوی اور بچوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب تک اکائی کی صورت میں رہتا ہے پورے معاشرے کو تقویت بخشتا ہے، لیکن جب ٹوٹنے پر آتا ہے تو پورا معاشرہ تار تار ہونے لگتا ہے۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی نظام توڑ پھوڑ کی زد میں ہے اور اس انجام کا آغاز فیشن پرستی سے ہی ہوا تھا۔