سجاد میر
اپنی سیاسی تاریخ کے چند تضادات یاد آرہے ہیں، جو شخصیات کے حوالے سے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں لٹھ مارتے ہوئے سیدھا یہ کہہ دوں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو مولانا فضل الرحمن پر اعتبار نہیں ہے، تو بھی غلط نہ ہوگا۔ ان کے دل میں ایک کھد بد سی ہے کہ مولانا کس کا کھیل کھیل رہے ہیں، ان کے پیچھے کون ہے؟ کوئی تو ہوگا جو یہ ’’نظامِ ہستی‘‘ چلا رہا ہے۔ ایسی سیاست میں ڈوریاں ہلانے والے ضرور ہوتے ہیں۔ جانے ان کے مقاصد کیا ہوں! تحریک ناکام ہوگئی تو کہیں ہم بھی ساتھ نہ ڈوب جائیں، اور اگر کامیاب ہوگئی تو اس کا پھل کس کی جھولی میں جائے گا۔ صاف پوچھا جارہا ہے کہ مارشل لا تو نہیں لگ جائے گا؟ جواب ملتا ہے اب کون سا مارشل لا نہیں ہے! کہیں ہم کسی کے ہاتھوں کھیل نہ جائیں۔ یا کم از کم مولانا کے ہاتھوں کھلونا نہ بن جائیں۔ مولانا کے بارے میں ایک طرف تو یہ رائے ہے کہ وہ سیاست کے میدان کے دھنی ہیں، زیرک اور جہاندیدہ ہیں۔ دوسری طرف یہ خیال ہے کہ ان کی اسی خوبی سے تو ڈر لگتاہے۔ بات مفتی محمود تک جاتی ہے جنہوں نے ایوب خان کے ساتھ ایسا حُسنِ سلوک دکھایا تھا کہ تاریخ میں رقم ہوگیا ہے۔ پھر انہوں نے صرف 5 نشستوں کے زور پر صوبہ خیبر پختون خوا (سرحد) کی وزارتِ اعلیٰ حاصل کرلی تھی۔ یہ معمولی بات نہیں۔ تحریک نظام مصطفیؐ کا وقت آیا تو وہ قومی اتحاد کے صدر چن لیے گئے۔ اگرچہ اصل عوامی حمایت اصغر خان کے ہاتھ میں تھی۔ یہ سب کہانیاں اپنی گہرائی میں مجھ جیسوں کو بھی ازبر ہیں۔ مخالفت کا یہ عالم تھا کہ آغا شورش کاشمیری انہیں ملائے ڈبل میم اور مولانا غلام غوث ہزاروی کو ملائے ڈبل غین لکھا کرتے تھے۔ اشعار نقل نہیں کروں گا کہ گفتنی ہیں۔ پھر بھی وہ اپنی قوت کے بل بوتے پر ایک مسلمہ لیڈر گنے جاتے تھے۔ بھٹو نے 1970ء میں چار جگہ سے الیکشن لڑا، صرف ایک جگہ سے ہارے، ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود صاحب کے مقابلے میں۔ بے پناہ خوبیاں، مگر بے پناہ مسائل۔ آج بھی مولانا فضل الرحمن میں کیڑے نکالنے والے اُن کی سیاسی بصیرت کے گن گاتے ہیں۔ ان کا ایک انداز ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک معتبر شخص نے مجھ سے کہا کہ خیبر پختون خوا میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کا بھی سیاست میں ماڈل مولانا فضل الرحمن بن گئے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہوا کرتی۔ پھر ان کے پیچھے سیاست کی ایک پوری روایت ہے جو قیام پاکستان سے پہلے کی ہے۔ علماء کی وہ شاخ جسے کانگریسی علماء کہا جاتا ہے، یہ لوگ اپنے وجود کو منوانا جانتے ہیں۔ شاید یہی اس طرزِ سیاست کی خرابی ہے۔ اب حالیہ تاریخ میں مولانا فضل الرحمن نے جہاں متحدہ مجلس عمل بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا، وہاں اس کی تباہی کا بھی سبب بنے۔ جنرل پرویزمشرف کے آخری دنوں میں ایک حکمت عملی طے کی گئی کہ پرویزمشرف صدر منتخب نہ ہوسکیں۔ خیبر پختون خوا کی اسمبلی کو استعفیٰ دینا تھا۔ اُن دنوں کے اخبارات اٹھاکر دیکھ لیجیے۔ قاضی حسین احمد منہ دیکھتے رہ گئے۔ اس کے بعد آج تک مذہبی جماعتوں کا ویسا اتحاد نہ ہوسکا۔ ذاتی طور پر مجھے بھی مولانا کی ان دنوں کی درفنطنیاں سمجھ میں نہیں آئیں۔ پر کیا کریں، پیپلز پارٹی نے بھی تو یہی کیا تھا۔ پرویزمشرف کا ساتھ دیا تھا، طریقہ دوسرا تھا، اسمبلی کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ ساتھ کیوں دیا تھا؟ یہ کون بتائے۔ تو کیا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مولانا کا ساتھ نہ دیا جائے؟ نہیں میرا یہ مطلب نہیں ہے۔ مولانا اس وقت اکیلے ہی میدان میں اس طرح نکلے ہیں کہ باقی سب کو بھی اُن کی راہ سے گریز کرنا مشکل ہوجائے گا۔ بلاول نے انکار کرکے دیکھ لیا۔ ان کی پارٹی کو احساس ہوگیا کہ یہ بات چلنے کی نہیں۔ اب وہ بڑا سیاسی قسم کا مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر ماضی کو اس طرح کھنگالنا ہے تو پیپلز پارٹی کی اپنی داستان بھی اتنی صاف اور سادہ نہیں ہے۔ اس پارٹی کی مگر خوبی یہ ہے کہ اس کے کارکن مخلص اور جی دار ہیں۔ ان میں بہت سے نظریاتی بھی ہیں۔ بھٹو اور بے نظیر تک نہ جائیں۔ زرداری نے اپنے آغاز ہی سے مسلم لیگ سے معاہدہ کرکے وہ تاریخی بیان دے ڈالا کہ معاہدے کوئی قرآن و حدیث تھوڑی ہوتے ہیں۔ مجھے ماضی کی ایک بات یاد آئی۔ اچھے دنوں کے ہمارے ایک معتبر سیاست دان نے ایک امیدوار سے قرآن پر لکھ کر کوئی معاہدہ کیا۔ پھر اس سے یہ کہہ کر مکر گئے کہ اس معاہدے کے لیے قرآن پر نہیں اس کے حاشیے پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس پارٹی کا خاندان اب مسلم لیگ میں ہے اور بڑے نامور اور معتبر ہیں۔ ہمارے سیاست دان کیا کرتے رہے ہیں، آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ ممتازدولتانہ ہمارے بہت ذہین اور تعلیم یافتہ سیاست دان تھے۔ آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے تھے۔ اُس زمانے کے گویا بھٹو اور عمران تھے۔ وہ زرعی اصلاحات لے کر آئے تو ان کی اتنی مخالفت ہوئی کہ نواب کالا باغ، نواب زادہ نصراللہ خان، کرنل عابد حسین اور نوبہار شاہ وغیرہ نے ایک تنظیم بنائی جس کا نام ’’انجمن تحفظ حقوقِ زمینداراں تحت الشریعہ‘‘ رکھ دیا۔ ملاحظہ کیا آپ نے! ہم نواب زادہ کو بابائے جمہوریت کہتے ہیں، اگر ان کی باتیں سنائوں تو الامان والحفیظ۔ اب میں نے یہ لکھ دیا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ قرآن پر دستخط کرنے والے سیاست دان ممتاز دولتانہ تھے۔ جب وہ سیاست میں آئے اُن کی زمین 5 ہزار مربع تھی (یا ایکڑ)، جب گئے تو 500 رہ گئی تھی۔ اُس زمانے کے کسی سیاست دان پر آپ کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتے۔ کہنے کو تو ہم ہر روز 70سال کے گند کا راگ الاپتے ہیں، وہ تو گویا اس حساب سے پارسا تھے، پارسا۔ ان پر بھی پابندیاں لگیں۔ سہروردی، خواجہ ناظم الدین پر بھی پابندیاں لگیں۔ کہتے ہیں اگر خواجہ ناظم الدین پر پابندی نہ ہوتی تو اپوزیشن کو ایوب خان کا مقابلہ کرنے کے لیے مادرِ ملت کے پاس نہ جانا پڑتا۔ اوپر دولتانہ کا ذکر کررہا تھا۔ پاکستان بنتے ہی اُن میں اور ممدوٹ میں ٹھن گئی۔ پھر بھی جب ایوب خان کا زمانہ آیا تو بہت سے لوگ ایوب کے حامی اس لیے ہوگئے کہ کہتے تھے ہم ان دولتانوں کی حمایت کریں! یہ سب باتیں میں نے اپنے کانوں سے سنی ہیں۔ مختصر بات یہ کہ آپ جو کہانی چاہے بنا لیں، لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اصل تباہی ان سیاست دانوں کی وجہ سے نہیں آئی، بلکہ ملک میں بار بار فوجی مداخلت کی وجہ سے آئی۔ ہم ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ مجھے اور آپ کو کیا لینا اگر فضل الرحمن کامیاب ہوجاتے ہیں! یہ صرف مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کا مسئلہ نہیں، ہر کسی کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ کسی کو مارشل لا کی چاپ سنائی دے رہی ہے، کوئی کہتا ہے اب بھی کس کی حکومت ہے! پھر کہا جاتا ہے نوازشریف کا بیانیہ ہے تو درست ناں۔ اس حوالے سے میں آج عجیب مخمصے میں ہوں۔ یہ کیا ہوا کہ کیپٹن صفدر کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف نے حسین نواز کو لندن میں خط لکھ دیا ہے، وہ مولانا فضل الرحمن سے رابطے میں رہیں گے۔ ملک عجیب کشمکش میں ہے۔ ہر پارٹی کے اندر جو کشمکش ہے، اس کے نتیجے میں پارٹیاں خرابی کی طرف نہیں جا رہیں، ملک تباہی کی طرف جارہا ہے۔ شہبازشریف کے اپنے مسائل بھی ہوں گے، مگر انہیں فضل الرحمن سے مل جانے میں چند سنجیدہ تحفظات بھی ہیں۔ پس منظر میں نے بیان کردیا۔ نوازشریف کا بیانیہ درست ہے، مگر اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟ پہلے تو یہ بحث تھی کہ قیادت مریم نواز کے پاس کیوں جائے! بہت سے سوال اٹھائے جارہے تھے۔ اب کیپٹن صفدر پھر سے متحرک ہوگئے ہیں اور حسین نواز کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ بتا تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں۔ آج میں نے نوازشریف کے چہرے اور آنکھوں میں ایک عجیب کیفیت دیکھی ہے۔ میں پریشان ہوگیا ہوں۔ کہیں امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ دل کرتا ہے ایک ایک ادارے کا اور ایک ایک اہم فرد کا تجزیہ کروں، مگر بے فائدہ ہے۔ یہ جو میں نے جملۂ معترضہ کہا تھا، یہ تو سارا سیاست دانوں کے خلاف کہا۔ کیا باقی سب پارسا ہیں۔ وہ جو یہ سارا نظام چلانے کا دعویٰ کررہے ہیں، کیا وہ صراطِ مستقیم پر ہیں؟ کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ملک بہت مشکل میں ہے اور حکمرانوں کو اس کی خبر تک نہیں۔ ان کو نہیں اندازہ کہ اگر ملک غلط سمت چل رہا ہے تو ان کی بھی خیر نہیں۔
(روزنامہ92۔ 15اکتوبر 2019ء)