نوازشریف عملاً مولانا فضل الرحمان کی اس فکر سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہمیں حکومت کے خلاف حتمی اور فیصلہ کن تحریک چلانی چاہیے، اور اس میں کسی بھی طرح کا کوئی جھول نہیں ہونا چاہیے۔ اُن کے بقول ابتدا میں مولانا فضل الرحمان کی جو تجویز تھی کہ حزبِ اختلاف کو انتخابات کے فوری بعد انتخابی نتائج تسلیم کرنے کے بجائے اسمبلیوں سے فوری مستعفی ہوکر جعلی انتخابات کے خلاف تحریک چلانی چاہیے، وہ خاصی درست تھی۔ نوازشریف نے کھل کر مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ، دھرنا یا لاک ڈائون کی سیاسی حمایت کرکے خود اپنی ہی جماعت مسلم لیگ (ن) کو ایک بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) مولانا فضل الرحمان کی سیاسی حمایت کے حوالے سے سیاسی طور پر تقسیم تھی، اور اب نوازشریف کے فیصلے نے اسے اور زیادہ تقسیم کردیا ہے۔
بنیادی طور پر مسلم لیگ (ن) کا سیاسی المیہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مخالفت میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک طبقے کے بقول جس کی قیادت نوازشریف، مریم نواز اورکچھ دیگر راہنما کررہے ہیں، ہمیں موجودہ صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہوکر جمہوریت اور پارلیمانی بالادستی کو فوقیت دے کر جمہوریت کی حمایت میں بڑا مقدمہ لڑنا چاہیے۔ جبکہ شہبازشریف اور کچھ دیگر ساتھی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کی پالیسی کو پسِ پشت ڈال کر آگے بڑھنے کو بہتر سیاسی حکمتِ عملی سمجھتے ہیں۔ یہ ٹکرائو کوئی نیا نہیں، بلکہ شروع سے ہی مسلم لیگ (ن) کی سیاست اسی دائرے یعنی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مزاحمت کے گرد گھومتی رہی ہے۔
اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی صدارت شہبازشریف کے پاس ہے، لیکن عملی طور پر پارٹی کا کنٹرول براہِ راست نوازشریف، مریم نواز اور اُن کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے ہاتھ میں ہے۔ نوازشریف کا خیال ہے کہ مزاحمتی سیاست سے وہ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرسکتے ہیں اور دوسری طرف اپنے خلاف مقدمات کو بھی سیاسی رنگ دے کر خود کو سیاسی شہید کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔ نوازشریف یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس مزاحمتی سیاست سے سیاست کا ریموٹ کنٹرول بھی ان کے پاس یا ان کی بیٹی مریم نواز کے پاس ہی رہے گا۔ کیونکہ نوازشریف کو اندازہ ہوگیا ہے کہ شہبازشریف کی مفاہمتی سیاست سے بھی ان کو اور ان کے خاندان کو کوئی بڑا سیاسی ریلیف نہیں مل سکا، اور اب بھی اگر وہ مفاہمتی سیاست کے ساتھ جڑے رہے تو ان کی سیاسی ساکھ مزید متاثر ہوسکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا مسئلہ یہ ہے کہ شہبازشریف اسٹیبلشمنٹ کو مفاہمت کا پیغام دیتے رہے ہیں کہ ہم کسی بھی طرز کے ٹکرائو کی سیاست سے گریز کریں گے اورکوئی ایسی مشکل پیدا نہیں کریں گے جو کسی بڑے ٹکرائو کا سبب بنے۔ لیکن شہبازشریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی سوچ کو تو سب کے سامنے پیش کرتے ہیں، مگر اس سوچ پر اپنے بھائی اور بھتیجی مریم نواز کو قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنی مفاہمتی فکر سے ابھی تک نوازشریف کو بھی کوئی بڑا ریلیف نہیں دلوا سکے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں بھی یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ شہبازشریف کسی بھی طرح نوازشریف کو کھل کر چیلنج نہیں کرسکیں گے اور ان سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنا وقت کا ضیاع ہے۔
لیکن نوازشریف بھول رہے ہیں کہ مفاہمت یا عدم ٹکرائو کی سیاست میں شہبازشریف تنہا نہیں ہیں،کیونکہ پارٹی میں مجموعی طور پر ایک بڑا گروپ جو انتخابی سیاست کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے، اس کے بقول ٹکرائو کی سیاست ہمیں سیاسی طور پر مزید دیوار سے لگادے گی اور اس کا فائدہ ان کے سیاسی مخالف تحریک انصاف اور عمران خان کو ہورہا ہے۔ اگر نوازشریف یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت کا مجموعی مزاج ان کی مزاحمتی سیاست کے ساتھ کھڑا ہوگا اور سخت دیوار ثابت ہوگا تو وہ غلطی پر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ایک بڑی سیاسی طاقت ضرور ہے، اور اس کا بڑا ووٹ بینک پنجاب میں موجود ہے، لیکن مزاحمتی سیاست کا کوئی رجحان نہیں رکھتا۔ اگر نوازشریف میڈیا کو بنیاد بناکر سمجھ رہے ہیں کہ بڑی تحریک چل سکتی ہے تو یہ درست تجزیہ نہیں ہوگا۔
ایک سوچ یہ بھی ہے کہ نوازشریف سمجھتے ہیں کہ مفاہمتی سیاست کو بنیاد بناکر وہ اسٹیبلشمنٹ سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکیں گے، اور کچھ حاصل بھی ہوگا تو اس میں وہ کمزور ہوں گے۔ ان کے بقول، مزاحمت دکھانے پر ہی وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر بڑا دبائو ڈال کر اپنے حق میں کوئی فیصلہ کروا سکتے ہیں۔ نوازشریف سمجھتے ہیں کہ وہ تنِ تنہا کوئی بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں، اس لیے وہ مولانا فضل الرحمان کو سیاسی ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ نوازشریف کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ پیپلز پارٹی مزاحمتی تحریک کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرسکے گی، اور وہ چاہے گی کہ اسٹیبلشمنٹ سے اپنے لیے مفاہمت کا کوئی راستہ تلاش کرسکے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہبازشریف اس ساری صورت حال میں کیا کریں گے؟ ان کے پاس دو ہی راستے ہیں:
(1) وہ اپنے قائد و بھائی کا سیاسی فیصلہ تسلیم کرکے سیاسی میدان میں کودیں، اور ان کی شمولیت کھلے دل سے ہونی چاہیے، نیم دلی سے نہیں۔
(2) وہ خاموشی اختیار کریں اور معاملات کو اپنے بھائی پر چھوڑ دیں۔
دیکھنا ہوگا کہ شہبازشریف کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ مگر وہ واقعی ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ ان کو کوئی حتمی فیصلہ کرنا ہوگا، وگرنہ وہ خود بھی بہت پیچھے چلے جائیں گے۔ ویسے نوازشریف کے بقول انہوں نے اپنے بیٹے حسین نواز کو خط لکھ دیا ہے اور وہ خود براہِ راست مولانا فضل الرحمان سے رابطے میں رہیں گے، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ عمل یقینی طور پر شریف خاندان میں مزید بدگمانیاں پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
نوازشریف کو سمجھنا ہوگا کہ مولانا فضل الرحمان خود ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کے طور پر کام کرتے رہے ہیں، اور اب بھی اگر انہیں موقع ملا تو وہ اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے، اور اس معاملے میں وہ نوازشریف کو پیچھے چھوڑ کر اپنے مفاد کو ترجیح دیں گے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ مولانا اقتدار کے کھلاڑی ہیں، اور وہ اپنی مزاحمت کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک ٹرمپ کارڈ کے طور پر کھیلنے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے نوازشریف کا مولانا فضل الرحمان پر حد سے زیادہ انحصار گھاٹے کا سودا بھی ہوسکتا ہے۔ اصولی طور پر تو نوازشریف کو مولانا فضل الرحمان کی کھل کر حمایت کرنے سے قبل پیپلزپارٹی کو ان کی حمایت پر راضی کرنا چاہیے تھا۔ کیونکہ اگر واقعی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی مل کر اور مشترکہ طور پر دھرنا دیتے تو اس کے نتائج مختلف ہوتے۔
نوازشریف یا مولانا فضل الرحمان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو سڑکوں پر لاکر فوری طور پر حکومت کو گھر بھیج سکتے ہیں تو اس کے امکانات بہت محدود ہیں۔ کیونکہ محض دھرنوں کی بنیاد پر نہ پہلے حکومت گری ہے اور نہ اب گرے گی۔ جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس دھرنے کو پسِ پردہ قوتوں کی حمایت حاصل ہے، وہ بھی شاید غلط تجزیہ کررہے ہیں۔نوازشریف یہ بھول جاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں ایک بڑ ی سیاسی مزاحمت ایک مضبوط سیاسی نظام اوربالخصوص مضبوط سیاسی جماعتوں کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں ہماری سیاسی قیادتوں کے تضادات بھی نمایاں ہیں اور اس تناظرمیں جمہوریت کے حق میں مقدمہ لڑنا آسان نہیں ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر ہی دھرنے کی تاریخ دے کر دیگر جماعتوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا تھا۔ اب نوازشریف نے مولانا فضل الرحمان کی کھل کر حمایت کا اعلان کرکے اپنی جماعت سمیت پیپلز پارٹی کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ نوازشریف کی حمایت کے بعد پیپلز پارٹی کس حد تک خود کو علیحدہ رکھتی ہے یہ بھی اہم نکتہ ہوگا۔بہرحال یہ سمجھنا ہوگا کہ نوازشریف کا مقدمہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کوئی آسان تحریک نہیں، اس کے لیے نوازشریف سمیت دیگر سیاست دانوں کو پہلے اپنے داخلی تضادات کو ختم کرنا ہوگا۔کیونکہ عوام میں یہ اعتماد کہ ہمارے اہلِ سیاست واقعی حقیقی جمہوریت کی لڑائی لڑرہے ہیں ایک مشکل مرحلہ ہے، اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست دان جمہوریت سے زیادہ اپنے سیاسی مفاد میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور یہی تضاد جمہوریت کی حقیقی جنگ کو دور کردیتا ہے۔