کشمیرپر استرداد کا شکار بھارتی بیانیہ

چینی صدر کا پاکستان کی قیادت سے مشورہ کرکے بھارت جانا تکونی مذاکرات کا اشارہ ہے

کشمیر کی خصوصی شناخت پر بھارت کا وار اب رفتہ رفتہ اُس کے گلے پڑ گیا ہے۔ بھارت نے اس قدم کے جواز کے لیے ’’اندرونی مسئلہ‘‘ کا روایتی اور گھسا پٹا مؤقف اپناکر یہ سمجھ لیا تھا کہ دنیا بھارت کے اس مؤقف کو نہایت آسانی کے ساتھ تسلیم کرلے گی، جس کے بعد پاکستان کے پاس صورتِ حال کو جوں کا توں تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ وقت کی بساط پر بھارت کی یہ چال اُلٹی ہوگئی۔ زمین پر کشمیریوں نے اس قدم کو مسترد کردیا۔ قریب میں پاکستان نے ایک فریق کے طور پر اس فیصلے کی مزاحمت کا راستہ اپنایا، اور دور بیٹھی ہوئی عالمی طاقتوں نے عملی قدم تو نہیں اُٹھایا مگر قابلِ ذکر حلقے نے اندرونی مسئلہ قرار دینے کا مؤقف تسلیم نہیں کیا۔ دنیا آج بھی تنازع کشمیر کو بات چیت سے حل کرنے پر زور د ے رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل باربار بات چیت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ ثالثی پر بھی آمادگی کا اظہار کررہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ تین بار اعلانیہ طور پر ثالثی کی بات کرچکے ہیں۔ یورپی یونین، برطانیہ، چین، روس بھی اندرونی مسئلے کی گردان کو مسترد کرکے دونوں ملکوں کو بات چیت کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ ظاہر ہے دو ملکوں کے درمیان بات چیت کسی ایک ملک کے اندرونی مسئلے پر تو نہیں ہوتی، بلکہ دو طرفہ مسائل پر ہی بات چیت ہو تی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے دورۂ چین کے موقع پر کشمیر ہر محفل میں زیرِ بحث رہا، اور چینی صدر سے ترجمان دفترِ خارجہ تک سب نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے مؤقف کی تائید کی۔ چین کے صدر اب بھارت جا رہے ہیں جہاں مودی کے ساتھ ان کی ون ٹوون ملاقات ہونا طے ہے۔ اس ملاقات کا کوئی ایجنڈا تیار نہیں کیا گیا، مگر بھارت کے اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق اس ملاقات میں کشمیر پر بھی لازمی بات ہوگی۔ امریکہ میں تین صدارتی امیدوار کشمیر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ کانگریس کی رکن کاملہ حارث کا یہ دوٹوک بیان اخبارات کی زینت بن چکا ہے کہ ہم کشمیریوں کو یاد رکھے ہوئے ہیں، وہ اکیلے نہیں۔ دو دوسرے صدارتی امیدوار برنی سینڈرز اور الزبتھ وارن بھی کشمیر کے حالات سے متعلق اپنی رائے ظاہر کرچکے ہیں۔ سینیٹر وارن کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام کے حقوق بحال ہونے چاہئیں، جبکہ سینیٹر سینڈرز کا کہنا تھا کہ پانچ اگست کا بھارتی اقدام ناقابلِ قبول ہے۔ سینیٹرسینڈرز نے صدر ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیریوں کی حمایت میں دوٹوک اور کھل کر بات کریں اور اقوام متحدہ کے ذریعے حل تلاش کرنے کی حمایت کریں۔ تیرہ امریکی ارکانِ کانگریس کا مودی کو لکھا جانے والا خط بھی کم اہم نہیں، جس میں ان سے کشمیر سے کرفیو کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں انڈین امریکی پارمیلا جے پال بھی شامل ہیں۔ آزادکشمیر میں کنٹرول لائن کی طرف لانگ مارچ کے موقع پر دو امریکی سینیٹرز میگی حسن اور چیرس وین ہالن نے پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا۔ یہ دوامریکی سینیٹرز ظاہر ہے امریکی نمائندوں کے کسی مینڈیٹ کے ساتھ ہی خطے کا دورہ کررہے تھے۔ بھارتی حکومت نے انہیں سری نگر جانے کی اجازت نہیں دی، پاکستان نے انہیں آزادکشمیر کا دورہ کرایا اور یہاں انہیں عوام کے جذبات کا بخوبی اندازہ ہوا ہوگا۔
اس دوران سی آئی اے نے بھارت کی دو انتہا پسند تنظیموں بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے، جس پر ’’ہاوڈی مودی‘‘ کا جشن منانے والے انتہا پسندوں نے امریکہ اور سی آئی اے کے لتے لینا شروع کردئیے ہیں۔ ایک انتہا پسند لیڈر کا بے ساختہ تبصرہ تھا کہ ’’سی آئی اے پگلا گئی ہے‘‘۔ یعنی دماغ خراب ہوگیا ہے۔
کشمیر کے حالات امریکہ بھارت ہنی مون کو بھی کسی نہ کسی انداز سے متاثر کررہے ہیں۔ یوں مودی کا یہ فیصلہ سری نگر کی زمین پر ہی نہیں، عالمی ایوانوں میں بھی بری طرح پٹ گیا ہے۔ اس دبائو کو قائم رکھنا ہی نہیں بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہونا چاہیے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے بھارت کا دو روزہ غیر رسمی دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں چینی صدر بھارتی وزیراعظم کے ساتھ خوش گوار موڈ میں تامل ناڈو کی قدیم ثقافتی عمارتوں اور سیاحتی مقامات پر کھلے ڈلے انداز سے گھومتے پائے گئے۔ یوں لگ رہا ہے کہ شی جن پنگ اور نریندر مودی اسکول کے زمانے کے دو بچھڑے ہوئے کلاس فیلو ہیں جنہیں وقت نے اتفاقاً ملادیا۔ چینیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کبھی اپنے تاثرات چہرے پر ظاہر نہیں کرتے۔ اپنے جذبات پر قابو رکھنے والے گہرے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس نریندر مودی ایک متلون مزاج آدمی ہیں اور ان کا ماضی بھی ان کے مزاج کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ وہ چھوٹی سی خوشی پر لڈیاں ڈالتے، اتراتے اور فخر کرتے ہیں۔ دو مختلف مزاج قوموں کے نمائندوں کے درمیان یہ ملاقات بظاہر سیاست کی باریکیوں اور پیچیدگیوں سے آزاد تھی، مگر اس ملاقات سے پہلے چینی صدر اور قیادت نے پاکستان کی سول اور عسکری قیادت سے ملنا اور مشاورت کرنا ضروری سمجھا۔ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ دونوں چین گئے، جہاں انہوں نے بہت اہم مذاکرات اور فیصلے کیے۔ اندازہ یہی ہورہا ہے کہ چینی صدر کشمیر کے حوالے سے کچھ اپنے اور کچھ پاکستان کے واضح اور دوٹوک پیغامات لے کر بھارت گئے ہیں۔گویا کہ وہ بھارت کو چین کی ریڈلائن سے آگاہ کرنے گئے ہیں۔
آرمی چیف کے دورے کے حوالے سے آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اخبارنویسوں کو بتایا کہ چینی صدر نے بتادیا ہے کہ پاکستان کو جب بھی ضرورت پڑے گی چین خاموش نہیں رہے گا، اور یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ بھارتی اقدامات چین پر حملہ ہیں۔ چینی صدر پاکستان کو یہ پیغام دینے کے بعد بھارت روانہ ہوئے تو لامحالہ بھارت کے لیے بھی کچھ اپنے اور کچھ پاکستان کے پیغام ہوں گے۔ جواباً بھارت بھی اپنی ریڈلائن سے آگاہ کرچکا ہوگا۔کشمیر کی خصوصی شناخت کا خاتمہ یا اس کی بحالی بھارت کی ریڈ لائن نہیں ہوسکتی، کیونکہ بھارت 72 برس اس تشخص کے ساتھ گزار چکا ہے، اور ان 72 برس میں بھی کشمیر پر بھارت کا ہی قبضہ تھا اور وہ وہاں سیاہ وسفید کا مالک تھا۔ بھارت کی سپریم کورٹ میں بھی یہ مقدمہ زیر سماعت ہے اور کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا جیسی جماعتیں کھلے بندوں اس قدم کی مخالفت کررہی ہیں، جس سے یہ مترشح ہے کہ بھارت کی ریڈلائن اس سے ہٹ کر کوئی اور ہوگی۔ پاکستان بھارت کے ساتھ موجودہ حالات میں بات چیت کا روادار ہے نہ متحمل۔ دونوں کے درمیان سفارتی چینل یا تو محدود ہیں یا بند ہیں۔ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں اپنی ایٹمی پالیسیوں کا ازسر ِنو جائزہ لے رہی ہیں۔ پاکستان کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان بھارت کی ایٹمی اسٹریٹجی میں تبدیلی پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ یہ تبدیلی کیا ہے؟ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کے بھارتی وزیر دفاع کے بیان کی روشنی میں اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دو پڑوسی ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس ماحول سے چین اور امریکہ دونوں کا پریشان ہونا فطری ہے۔ دونوں مادے اور سرمائے کی دنیا کے باسی ہیں اور دونوں نے بہت محنت سے عالمی سیاست اور اقتصادیات میں موجودہ مقام حاصل کیا ہے۔ بے قابو اور غیر محدود جنگیں اس ماحول کو برباد کرسکتی ہیں، اور یہ تصور بھی دونوں بڑی طاقتوں کے لیے ہولناک ہے۔اس لیے امریکہ اورچین کا موجودہ حالات میں محتاط انداز سے سرگرم رہنا اور نظرآنا قطعی غیر معمولی نہیں۔ بھارت ثالثی اور سہولت کاری کے نام سے بدکتا ہے اور دنیا کو یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ اپنے اندرونی معاملے پر کسی تیسرے فریق کی مداخلت قبول نہیں کرے گا۔ عملی طور پر بیل کو سینگوں سے پکڑنے کی کوشش ہورہی ہے۔ چینی صدر کا پاکستان کی قیادت سے مشورہ کرکے بھارت جانا تکونی مذاکرات کا اشارہ ہے۔ یعنی چین ایک خاموش کردار ادا کررہا ہے۔ امریکی سینیٹرز کا دہلی اور اسلام آباد کا دورہ کشمیر پر امریکی سفارتی چینل کے کام کرنے کا ثبوت ہے۔ یہ ساری سرگرمیاں اس لیے ملفوف ہیں کہ بھارت ابھی تنازعے کی حقیقت اور حیثیت کو اس انداز سے تسلیم نہیں کررہا جو بین الاقوامی ضرورت اور کشمیریوں کی خواہش ہے۔ پاکستان دوقدم پیچھے ہٹ چکا ہے۔ وہ اپنے شہریوں کے ہاتھ میں آزادکشمیر کا پرچم تھماکر کشمیر کی شناخت اور تشخص کو رسمی طور پر تسلیم کرنے کا اشارہ دے چکا ہے۔ پاکستان کے پیچھے ہٹنے سے چین اور امریکہ جیسے ملکوں کے لیے پائوں رکھنے کی گنجائش بڑھ گئی ہے۔ اب اصل مسئلہ بھارت کا ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے، جس کے بعد جو’’گرے ایریا‘‘ بنے گا اُس میں امریکہ اور چین اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوں گے۔ چینی صدر نے مودی کو یہ بتایا ہوگا کہ جنگ کا آپشن ترک کردے، کیونکہ اس صورت میں چین ایک فعال کردار ادا کرنے پر مجبور ہوگا، اور چین کے فعال کردار ادا کرنے کے بعد امریکہ کو بھی کوئی نہ کوئی پوزیشن لینا پڑے گی۔
آثار وقرائن سے پتا چل رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر چین اور امریکہ ایک صفحے پر آرہے ہیں۔ ماضی میں امریکہ کشمیر کی ایک آزاد ریاست میں دلچسپی رکھتا تو چین اس تصور سے خوف کھاتا تھا۔ نوّے کی دہائی بھی اس خاموش رسّاکشی میں ضائع ہوگئی تھی۔ کشمیر میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد کو بالواسطہ طور پر امریکہ کی حمایت حاصل تھی، کیونکہ اسی مزاحمت کے بعد پاک بھارت تنازع گہرا ہوا، اور یوں تنازعے کی سنگینی نے امریکہ کو خطے میں قدم جمانے اور سرگرم ہونے میں مدد دی۔ امریکی سینیٹر اسٹیفن سولارز اُسی دور میں کشمیر کی ایک آزاد ریاست کا فارمولا لیے دہلی اور سری نگر گئے تھے۔ سی آئی اے کے سربراہ نے اُس وقت کنٹرول لائن کا فضائی جائزہ لے کر اپنی حکومت کو ممکنہ حل کی تجاویز پیش کی تھیں۔ چین اس منصوبے سے خائف اور محتاط تھا اور شاید اُسے یہ ڈر تھا کہ امریکہ اس بفر اسٹیٹ کو چین کے خلاف اڈے کے طور پر استعمال کرے گا۔ پاکستان اور امریکہ اُس وقت بفر اسٹیٹ کے نکتے پر متفق ہوچکے تھے، مگر پاکستان کے اندر اس حوالے سے دو آراء موجود تھیں۔ بعد میں اس تصور کی مخالف لابی بالادست ہوگئی اور یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑگیا۔ اب لگتا ہے کہ چین نے بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا ہے، اور دونوں بڑی طاقتیں اس حوالے سے کسی نہ کسی حل پر اتفاق کی صورت ایک صفحے پر آچکی ہیں۔ بھارت پر جس انداز سے دبائو ڈالا جا رہا ہے ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ سانڈ سینگوں کو آسانی سے ہاتھ نہیں لگانے دے گا۔ بھارت نے اس روش پر قائم رہنے کی ضد جاری رکھی تو کشمیر کی تاریخ میں مزاحمت کا ایک نیا خونیں باب شروع ہوجائے گا۔ چند دن قبل سری نگر سے باہر آنے والی ایک وڈیو کلپ چشم کشا ہے جس میں ایک گھر کے اندر نقاب پوش بچی بتا رہی ہے کہ اس کے گھر کے تمام مردوں کو اُٹھا لیا گیا ہے اور اب گھر میں صرف خواتین ہیں۔ حالات یہی رہے تو عورتیں بندوق اُٹھانے پر مجبور ہوں گی۔ یہ سوچ بارود کا ایک ایسا ڈھیر ہے جس کو دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔ پاکستان نے دیا سلائی نہ دکھائی تو خطے میں کئی اور ملک اس کام کے لیے تیار ہیں۔