وزیراعظم عمران خان اقتدار سنبھالنے کے بعد جب پہلی بار سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ یمن میں امن کی کوشش کریں گے۔ اس اعلان کے بعد ایک سال گزر جانے کے باوجود تاحال اس ضمن میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی، تاہم اب سعودی عرب اور ایران کے مابین جنگ کے خطرات کو چھوتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر جناب عمران خان نے دونوں ملکوں کے مابین مفاہمت کی کوئی صورت نکالنے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، اور براہِ راست مذاکرات کے لیے ایران اور سعودی عرب کو میزبانی کی پیشکش کی ہے۔ اس ضمن میں عملی کوششوں کے آغاز میں وزیراعظم پاکستان نے پہلے ایران اور پھر سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ ایران کے دورے میں انہوں نے ایرانی صدر حسن روحانی کے علاوہ روحانی قائد آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کے دوران خطے کے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا، جب کہ وزیراعظم عمران خان نے ایرانی قیادت کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم سے متعلق بھی آگاہ کیا، اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر کے مسئلے پر ایران کی طرف سے مظلوم کشمیری مسلمانوں کی حمایت اور پاکستان کے مؤقف کی تائید پر شکریہ ادا کیا۔ صدر حسن روحانی اور وزیراعظم عمران خان نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں اس امر پر اتفاق کیا کہ دونوں ملک مل جل کر خطے کے امن اور ترقی کے لیے کام کرسکتے ہیں، اور کشیدگی کا حل امن مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔
سعودی عرب میں بھی وزیراعظم عمران خان کی مصالحتی کوششوں کو سراہا گیا اور سعودی شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے وزیراعظم عمران خان کی ملاقاتیں خاصی حوصلہ افزا رہیں۔ ایران کی طرح سعودی عرب کی طرف سے بھی مفاہمت کے عمل کا خیرمقدم کرتے ہوئے پاکستان کی کوششوں پر خوشگوار اور مثبت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے جو نہایت خوش آئند اور امید افزا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے مابین اختلافات، جو اب شدید کشیدگی کی شکل اختیار کرچکے ہیں، خاصے پرانے اور اپنے اندر بہت سی پیچیدگیاں لیے ہوئے ہیں، انہیں سلجھانا اور مفاہمت کا راستہ نکالنا آسان کام نہیں، تاہم اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی سورۃ الحجرات کی آیت9 میں یہی حکم دیا ہے کہ ’’اگر اہلِ ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو اُن کے درمیان صلح کروائو…‘‘ یہ خوش قسمتی ہے کہ ایران اور سعودی عرب دونوں برادر اسلامی ممالک سے پاکستان کے تعلقات ہمیشہ نہایت اچھے رہے ہیں۔ بعض تلخ واقعات کے باوجود پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں دونوں ممالک سے تعلقات میں توازن کو برقرار رکھا، اور ان دونوں ممالک نے بھی اپنی دوستی کو دوسرے ملک سے ترکِ تعلق یا مخالفت سے مشروط نہیں کیا۔ یوں غیر جانب دارانہ اور متوازن خارجہ پالیسی کی بدولت پاکستان آج اس قابل ہے کہ دونوں برادر اسلامی ممالک کے مابین شدید کشیدگی کے ماحول میں بہتری کی کوششیں کرسکے۔ البتہ اس ضمن میں ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ کشیدگی کو عروج پر پہنچانے میں خود کو یک محوری دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک تصور کرنے والے امریکہ کا نمایاں کردار رہا ہے، کہ اس کشیدگی سے اُس کا گہرا مفاد وابستہ ہے۔ اس نے پہلے عراق کویت جنگ کا بہانہ بناکر اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ سعودی عرب میں لا بٹھایا تھا، اور اب تیل کی تنصیبات پر حملے کو جواز بناکر سعودی عرب میں اپنی افواج میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ امریکہ جنگ کا ہوّا کھڑا کرکے سعودی عرب کو بھاری اسلحہ کی فروخت سے دونوں ہاتھوں سے دولت بھی کماتا ہے، احسان بھی جتلاتا ہے اور زیر بار بھی رکھتا ہے۔ یوں اس نے سعودی عرب کی معیشت کو جو کبھی بہت مضبوط اور مستحکم ہوا کرتی تھی، نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔
امریکہ نے اگرچہ پاکستان کی حالیہ مصالحتی کوششوں کا نہ صرف خیرمقدم کیا ہے بلکہ اس ضمن میں ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی نیویارک میں ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان کو ایران امریکہ تعلقات میں کردار ادا کرنے کے لیے کہا، مگر امریکہ کے ماضیِ قدیم کے طرزِعمل کو فراموش کردیا جائے تب بھی حالیہ دنوں کا امریکہ کا کردار اس پر اندھے اعتماد کی اجازت نہیں دیتا۔ بحث کے اس اہم اصولی پہلو کو زیربحث نہ بھی لایا جائے کہ خود بھاری ایٹمی اسلحہ رکھنے والے ملکوں کو آخر یہ حق کیوں کر حاصل ہے کہ وہ ایران کو ایٹمی صلاحیت کے حصول سے روکیں، اس کے باوجود کیا یہ حقیقت نہیں کہ دیگر پانچ ملکوں کی مخالفت کے باوجود امریکہ نے یک طرفہ طور پر ایران سے ہونے والے بین الاقوامی معاہدے کو توڑ کر اُسے مختلف معاشی، معاشرتی، دفاعی اور تجارتی پابندیوں میں جکڑ دیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی انتھک محنت اور سہولت کاری سے افغان طالبان سے تکمیل کو پہنچنے والے امن معاہدے کو بھی امریکی صدر ٹرمپ نے کسی کو اعتماد میں لیے بغیر بیک جنبش قلم مسترد کردیا۔ امریکہ کے اس کردار کے پیش نظر اُس کی حالیہ یقین دہانیوں اور دل خوش کن اعلانات پر آنکھیں بند کرکے یقین نہیں کیا جا سکتا۔ خود پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر پر کشیدگی عروج پر ہونے کے باوجود وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ایران، سعودیہ مفاہمت کی کوششیں یقینا نہایت قابلِ قدر اور خوش آئند ہیں، تاہم انہیں ٹھوس، مثبت اور نتیجہ خیز انجام تک پہنچانے کے لیے فریقین کو اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنا ہوں گے اور ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہو گا۔
(حامد ریاض ڈوگر)