مائیکل ہیملٹن مورگن/ترجمہ و تلخیص:ناصر فاروق
۔’’اے رب، میرے علم میں اضافہ کر۔‘‘(القرآن)۔
سن813 عیسوی، بغداد پر اُس رات تاروں بھرا آسمان تھا۔ عباسی خلیفہ المامون ساری رات بے چینی سے ٹہلتا رہا تھا، کروٹیں بدلتا رہا تھا۔ رات گئے آنکھ لگی تو ایک روشن ہیولا نمودار ہوا، یونانی چوغہ میں ایک بزرگ ہستی سامنے آموجود ہوئی، زیتون کی خوشبو سے ماحول مہکنے لگا۔
’’آپ کون ہیں؟‘‘ خوف زدہ امیر نے پوچھا۔
’’میں ارسطو ہوں‘‘ بزرگ روح نے جواب دیا۔
’’آپ میرے پاس کیوں آئے ہیں؟‘‘ خلیفہ نے پھر سوال کیا۔ عظیم یونانی مفکر کی موجودگی سے اُس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ المامون بچپن سے ارسطو کے بارے میں کافی کچھ سنتا آیا تھا، اُس کے بازنطینی، شامی اور فارسی احباب اور اساتذہ ارسطو کی دانش کا کثرت سے ذکر کیا کرتے تھے۔
’’میں تمہارے سوال کا جواب دینے آیا ہوں‘‘ ارسطو نے کہا۔
’’اور میرا سوال کیا ہے؟‘‘ خلیفہ نے پوچھا۔ وہ اپنے دل میں اس سوال کی بازگشت سنتا آیا تھا، مگر بزرگ روح سے سننا چاہتا تھا۔
’’تمھارا سوال یہ ہے کہ انسان اور معاشرے کے لیے معاملات کی درست راہ کون سی ہے؟ عقل یا وحی؟‘‘
خلیفہ نے سر ہلایا۔ وہ جانتا تھا کہ یہی وہ سوال ہے جس نے اُسے برسوں سے الجھایا ہوا تھا۔ یہ سوال اب ایک ایسا پہاڑ بن چکا تھا جس کو سر کرنا دشوار ہورہا تھا۔ یہ انسانی وجود پر اٹھنے والا سب سے بڑا سوال بن چکا تھا۔
’’تمھارے پاس اس الجھن کا کیا جواب ہے؟‘‘ خلیفہ نے پوچھا۔
ارسطو مسکرایا اور اپنے ہاتھ خلیفہ کے کاندھوں پر رکھے۔
’’میرے بیٹے!‘‘ اُس نے کہا، ’’ان دونوں میں کوئی مخالفت یا عدم اتفاق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچی وحی کی تلاش کے لیے آدمی کو عقل سے کام لینا چاہیے۔ کیونکہ عقل وحی تک پہنچنے کا رستہ ہے۔ انسان کو اپنا ذہن کھولنا چاہیے اور فہم کی قوت سے سچائی کی بلندی تک پہنچنا چاہیے۔ یہی وہ رستہ ہے، جہاں آدمی غوروفکر کے ذریعے خدا کی معرفت حاصل کرتا ہے‘‘۔ اور خلیفہ دانش و حکمت سے لبریز اس بات پردم بخود اور جذبات سے مغلوب ہوگیا۔ یہی تھی وہ بات جو اُس کے دل کی گہرائی میں کہیں چھپی ہوئی تھی۔
’’عقل اور غوروفکر کی صلاحیتیں خدا کی دین ہیں۔ اپنے تمام ذرائع دنیا بھر کے علوم کے حصول میں استعمال کرو۔ دیگر علوم کے تراجم عربی زبان میں کرواؤ، خواہ وہ یونانی ہو یا لاطینی، یا پھرفارسی اور سنسکرت وغیرہ۔ علم کی کوئی سرحد نہیں۔ دانش کسی نسل یا قوم کی میراث نہیں۔ عقل اور تفکرات کا رستہ روکنا خدا کی خدائی میں حائل ہونا ہے‘‘۔ ارسطو نے سمجھایا۔
خلیفہ نے سرہلایا۔ وہ اس بات کی سچائی پر یقین رکھتا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ الوداع کرتا، ارسطو صبح کے ملگجے میں غائب ہوچکا تھا۔ البتہ خواب خلیفہ کی یادداشت میں محفوظ رہ گیا تھا۔ خلیفہ ابوجعفر عبداللہ المامون بیدار ہوا تو کچھ دیر خواب کی حقیقت پر غور کرتا رہا۔ دن شروع ہوچکا تھا۔ دیواروں کے پیچھے اور بالکونی کے نیچے گھوڑوں کی ٹاپوں اور اونٹوں کی چلت پھرت سنائی دے رہی تھی۔ مسجد ابوحنیفہ کے میناروں سے اذان فضا میں گونج رہی تھی۔ مامون نے رات کے خواب پر خدا کا شکر ادا کیا۔ وہ عمر کے چالیسویں سال میں تھا۔ وہ آج خود کو پھر کافی تروتازہ محسوس کررہا تھا۔
یہ آدمی علم کا پیاسا تھا۔ اُسے ناکامی اور ناممکن کا کوئی خوف نہ تھا۔ اُس نے زیادہ سے زیادہ کوشش سے گریز سیکھا ہی نہ تھا۔ اُسے یقین تھا کہ اب ما قبل تاریخ بہت دور کہیں پیچھے رہ چکی تھی۔ اب جو کچھ بھی رکاوٹیں علم کی راہ میں حائل تھیں، وہ یا اُس کے اپنے ذہن کی اختراع تھیں یا دشمنوں کی مسلط کردہ تھیں۔ بغداد اُس کا شہر تھا۔ وہ اُسے دنیا کا مرکز بنانا چاہتا تھا۔ اُس وقت روئے زمین پر خلافتِ عباسی جیسی کوئی سلطنت موجود نہ تھی۔ یہ خلافت چاہتی تھی کہ اپنی عمل داری میں آنے والی ہر تہذیب اور معاشرے کے علوم اور فنی مہارتیں جذب کرلے۔ اس طرح فاتح اور مفتوح کے تعلقات مثالی صورت اختیار کرگئے تھے۔
بغداد، یہ شہر کیا تھا؟ یہ اب اسلام کا سیاسی دارالخلافہ تھا، جو دمشق میں کشمکش کے بعد منظر پر ابھرا تھا۔ یہ بابلیوں کی بھولی بسری باقیات سے زیادہ دور نہ تھا، فارس کے قدیم شہروں سے قریب تھا۔ یہ دریائی مچھیروں کا قدیم قصبہ تھا، مگر اب مامون نے اسے بہت کچھ بنانے کا ارادہ کرلیا تھا۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے وصال کو دو سو سال بیت چکے تھے۔ قرآن وحدیث ضبطِ تحریر میں آچکے تھے۔ مامون کا یقین تھا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں غور و فکر اور تخلیقات کی نئی جہتیں تلاش کرنی ہوں گی، تاکہ مسلمان انسانی تہذیب کی رہنمائی جاری رکھ سکیں۔ المامون بغداد کو مستقبل کا شہر بنانا چاہتا تھا۔ اُس کے لیے ایمان باللہ علم کی جستجو کا دوسرا نام تھا۔ یہ دنیا بھر کی علمی روایات سے واقفیت کی شدید خواہش تھی۔ ہر وہ علم جو ایمان کے دائرے میں مفید قرار پائے۔ یہ ایک ایسی آمادگی تھی، جودنیا بھر کے لوگوں، تہذیبوں، رویوں، اور تاریخی روایات کی یکجائی چاہتی تھی۔ ایک ایسا ہم آہنگ ماحول جہاں سب سما سکیں۔
ہر جانب سے لوگوں کا سمندر بغداد کی جانب امنڈ آیا تھا۔ فارسی، مصری، بربر، مغربی گوتھ، یہودی، عیسائی، ہندو، بدھسٹ، کرد، آذری، ترک، ازبک، قازق، اور پشتون، سب ہی خلیفہ مامون کی عمل داری میں کھنچے چلے آئے تھے۔ یہ سب زندگی میں توانائی کی نئی لہر محسوس کررہے تھے۔ وہ اس لہر کا حصہ بن جانا چاہتے تھے، اور ماحول اس کی بھرپور اجازت دے رہا تھا۔ ان میں سے اکثر عربی زبان سیکھ رہے تھے، خوش نویسی اور کتابت کا فن سیکھ رہے تھے، اور اس کی نقالی کررہے تھے۔ فارسی جو کبھی اپنی زبان پر سمجھوتا نہیںکرتے، وہ بھی عربی رسم الخط میں لکھ رہے تھے۔
علوم وفنون کے اس بحرِ ذخار میں مسلمانوں کو اپنی بالادستی بھی قائم رکھنی تھی۔ وہ کیا تھے، اور کون تھے؟ المامون نے راہِ عمل متعین کردی تھی۔ اس سے قطع نظر کہ اُس کا خواب کتنا روحانی اور کتنا سیاسی تھا، اب یہ ریاست کی پالیسی قرار پاچکا تھا، اور یہی خلیفۂ وقت کی سیاسی پالیسی کا حصہ تھا۔ یہ پالیسی بتدریج المامون کے سیاسی بیانیے کی دفاعی دلیل بھی بن چکی تھی۔
خلیفہ کی سیاسی صورت حال کچھ یوں ہوچکی تھی: فارسیوں کی انتظامی اور علمی صلاحیتوں کواعلیٰ سطح پر اہمیت دی گئی۔ ان میں سے بہت سے فارسی زرتشتی مذہبی روایات کا احیاء چاہتے تھے، اور اسلام کی خاموش بیخ کنی چاہتے تھے۔ اسی دور میں بہت سے روایت پسند مسلمان عباسی خلافت کی طرزِ سیاست سے بے چینی محسوس کررہے تھے۔ خلیفہ کی طرزِ زندگی سے اسلامی سادگی رخصت ہورہی تھی اور شاہانہ طور طریقے بڑھتے جارہے تھے۔
اس سے قبل کہ فارسی اشرافیہ یا روایتی مسلمان کوئی قدم اٹھاتے، خلیفہ المامون نے مذہب اور لوگوں کے بارے میں ایک فیصلہ کیا۔ عباسی شاہی سلسلے اورطرزِ حکومت کو جواز مہیا کرنے کے لیے مامون نے معتزلی مکتبہ فکر کو اختیار کرلیا۔ گو کہ معتزلین کو روایتی مسلمان علماء کی حمایت عام حاصل نہ ہوسکی، مگر خلیفہ مامون کی بھرپور حمایت نے انھیں پھلنے پھولنے کا خاصا موقع فراہم کیا۔ المامون نے معتزلین کی کھُل کر جانبداری کی، کیونکہ وہ خلیفۂ وقت کی طرزِ حکومت پرراضی تھے۔ وہ اس طرزِ ریاست کاری کو مذہبی جواز مہیا کرتے تھے۔ مامون نے معتزلین کی شاگردی اختیار کرلی تھی، اور معتزلین طلبہ اُس کے شاگرد بن گئے تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ : عقل خدائی علم کا بہترین اظہار ہے، جبکہ قرآن مخلوق ہے جس کی آیات کو ابدی قرار نہیں دیا جاسکتا(1)۔
غرض خلیفہ المامون کی سرپرستی میں معتزلین کا یہ یقین تھا کہ خدا اور حکمت ودانش تک رسائی کے لیے عقل ہی واحد رستہ ہے۔ یہی کچھ عناصر یونانی فلسفے کے بھی تھے۔ یونانی فلسفہ نویں صدی میں تین ذرائع سے اسلامی دنیا میں پہنچا تھا: فارسی اشرافیہ، جنھوں نے عباسیوں کے دور میں اہم انتظامی امور سنبھالے ہوئے تھے۔ عیسائی معالجین اور ماہرینِ الٰہیات، یہ بھی یونانی فلسفے سے متاثر تھے(2)۔ تیسرے حران کے سابئین تھے جو شمالی عراق سے آئے تھے، یہ قدیم سامی گروہ تھا، جن کا آبائی مذہب ستارہ پرستی تھا۔ فارس، بازنطین، شام اور عراق چاروں جانب سے ارسطو، سقراط، افلاطون، اور فیثاغورث کے فلسفے لاطینی، یونانی، شامی اور فارسی زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہورہے تھے۔
اس ہنگامہ خیز دور میں مسلمان علماء کے طویل مباحث کی پیچیدہ باریکیاں بھی تاریخ میں کہیں گُم کردی گئی تھیں۔ بیرونی دنیا کے محققین نے صدیوں بعد اس علمی بحث کو بہت زیادہ سادہ بناکر پیش کیا، کہا گیا کہ یہ محض سیاسی اور مذہبی طبقات کی کشاکش تھی، جسے معقولیت پسندی اور مذہبی راسخ العقیدگی کا تنازع قرار دیا گیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں Orthodox اور Rationalistکی اصطلاحوں کا استعمال درست علمی رویہ نہیں۔ اسلام میں آرتھوڈکس عیسائیت کی سی کوئی شے نہ تھی۔ مسلمان علماء معقولیت پسند لوگ تھے، وہ ہرگز کوئی سیکولر فلسفی نہیں تھے۔ غیر ملکی محققین نے ایک اور غلط تصور عام کیا کہ اسلامی تعلیمات کی معقولیت پسندی دراصل یونانی علوم کا حاصل ہے۔یہ گمراہ کن تصور اکیسویں صدی تک یوں ہی چلا آتا ہے۔
درحقیقت اسلام کی اعلیٰ علمی روایات اور معقولیت پسندی چھٹی اور ساتویں صدی سے ہی مسلم مفکرین کی تحریروں میں نمایاں تھی۔ یونانی فلسفے کے اثرات سے بہت پہلے، مسلمان قرآن حکیم میں متواتر موجود علم اور عقل کی اہمیت سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اسے حرزِ جاں بنائے ہوئے تھے۔ آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں اسلام بہت تیزی سے پھیلا اور مسلمان دیگر تہذیبوں اور ثقافتوں کی علمی روایات، رسومات، عادات وخصائل، اور دیگر اثرات کو قبول کرتے چلے گئے۔ ان میں فلسفہ اور قوم پرستی کے اثرات گہرے تھے۔ اسلامی ریاست کا کثیر الثقافتی ہونا ایک فطری اور ناگزیر عمل تھا، اس کے بغیر ہم آہنگ تہذیب کی نشوونما ممکن نہ تھی۔
المامون نے جب خلافت سنبھالی، درجنوں مکتبہ فکر موجود تھے، مگر مامون نے فرقۂ معتزلہ کے سوا سب پر جبر کی پالیسی اختیار کی، جو بعد کی مسلمان دنیا میں ناپسندیدہ قرار پائی۔ اُس عہد کے بلند پایہ فقیہ اور عالم امام احمد بن حنبلؒ نے خلیفہ مامون کی مزاحمت کی۔ امام حنبلؒ کے کوئی سیاسی عزائم نہ تھے، اور نہ ہی وہ کسی دنیاوی جاہ و حشم کے خواہش مند تھے۔ انھوں نے خلیفہ المامون کو دینی معاملات میں جبر اور اجارہ داری سے روکا، اور یوں دونوں میں تصادم ہوا۔ مامون ریاست کے سیاسی اور دینی امور پر مکمل گرفت چاہتا تھا۔ چنانچہ ابن حنبلؒ نے قید اور تشدد دونوں صبر واستقامت سے برداشت کیے، مگر عقل کی وحی پر بالادستی قبول نہ کی۔ یہاں تک کہ المامون کے جانشین المعتصم باللہ کی خلافت کا دور آگیا۔ معتزلہ کا سرکاری جبر ناکام ہوا۔ امام احمد بن حنبلؒ اس علمی معرکہ میں فاتح بن کر ابھرے۔
غرض اس بحث سے قطع نظر، خلیفہ مامون نے علم و تحقیق اور تجربے کی اہمیت کو اعلیٰ ادارتی صورت عطا کی۔ یہ اپنے وقت کی دنیا کا اعلیٰ ترین علمی ادارہ ثابت ہوا۔ المامون یقین رکھتا تھا کہ اگر ذہین دانش وروں کو آزادی سے تحقیق وتجربے کا موقع فراہم نہ کیا گیا تو اُن کی تخلیقی صلاحیتیں ضائع ہوجائیں گی، اور یوں حکمِ خدا کی خلاف ورزی ہوگی، کہ غوروفکر اور علمی نمو رک جائے گی۔
یہ آدمی (مامون) نئے علم کا اس قدر طلب گار تھا کہ جب بازنطین کے شہنشاہ کو شکست دی، تو خراج کے طور پر سونے کے صندوق نہ مانگے بلکہ اسکندریہ کے مشہور ہیئت داں بطلیموس کی کتاب Almagestکی ایک جلد مانگی۔ بطلیموس کی یہ کتاب یونانی علم فلکیات پر تھی۔
خواب والی صبح المامون نے وزیر طاہرکو طلب کیا، کہا ’’میں بغداد میں ایک عظیم تعلیمی درس گاہ تعمیر کرنا چاہتا ہوں، جہاں فلسفہ، ریاضی، علم فلکیات اور ہرطرح کی تحقیق و تجربے کی ہر سہولت مہیا کی جائے۔ قاصدوں اور سفارت کاروں کو بازنطین اور فارس کی جانب روانہ کردو، اور ہر عظیم کتاب حاصل کرو۔ بہترین مترجم ڈھونڈ کر لاؤ اور بہترین کتابوں کو عربی زبان میں منتقل کرواؤ۔ میں اس تعلیمی درسگاہ کو دارالحکمہ کا نام دیتا ہوں۔‘‘ طاہر نے ہدایات سُن کر سرخم کیا، اور سفر پر روانہ ہوا۔
حکم کی تعمیل ہوئی۔ ہرجانب سے مفکرین اور ماہرین نے بغداد کا رخ کیا۔ ان ناموں میں ایک نام محمد الخوارزمی کا بھی شامل تھا، جسے الجبرا کا بانی کہا جاتا ہے۔ جو algorithm کا ہم نام اور خالق تھا۔ ایلگوریتھم الخورزم سے مشتق ہے(3)۔ خُراسان کے ماہر فلکیات موسیٰ بن شاکر کے تین بیٹے بھی دارالحکمہ پہنچے تھے، جو بعد میں ریاضی دان، ماہرینِ فلکیات، انجینئرز، اور موجدین بن کر سامنے آئے۔ یہ تاریخ میں بنو موسیٰ کے نام سے معروف ہیں۔
نسطوری عیسائی حنین ابن اسحاق ابتدائی مترجموں میں سب سے بااثرکہا جاتا ہے۔ اُس نے طبیب جالینوس اور یونانی فلسفیوں کے کام عربی میں منتقل کیے۔ الکُندی جو غالباً عرب فلسفیوں میں سب سے کامیاب تھا، ایک مقام پر لکھتا ہے: ’’ہمیں سچ کی پذیرائی سے ہرگز شرمندہ نہیں ہونا چاہیے، اسے بہرصورت حاصل کرنا چاہیے خواہ کہیں سے حاصل ہو، چاہے وہ کسی اور نسل سے حاصل ہو جو بہت دور آباد ہو، یا کسی ایسی قوم سے حاصل ہو جو بہت مختلف ہو۔ سچ کے متلاشی کو سچ سے زیادہ کچھ عزیز نہیں ہونا چاہیے۔ جوسچ کہے یا سمجھائے اُس کے لیے کوئی زوال یا ذلت نہیں۔‘‘
نویں اور دسویں صدی میں دارالحکمۃ کی تعلیمی پیش رفت کے ساتھ ساتھ، عباسیوں کا بغداد دنیا پر گہرے علمی اثرات مرتب کررہا تھا۔ وہ المنصور اور ہارون الرشید کے اس خواب کی تعبیر بن چکا تھا کہ ساری دنیا کا علمی مرکز بن جائے۔ المامون نے عراق میں دو عظیم رصدگاہیں بھی تعمیر کروائیں جہاں سے اجرام فلکی کا مشاہدہ و تحقیق کی جاتی تھی، اُس نے اپنے عہد کے ماہرینِ فلکیات کو دعوت دی کہ آسمانوں میں چھپے رازوں کا مشاہدہ کریں، ستاروں کی حقیقتوں کا کھوج لگائیں۔ المامون کی تائید وسرپرستی کی وجہ سے علمِ فلکیات کو فروغ ملا، اسی لیے دنیا نے بعد میں چاند کے ایک آتش فشانی حصے کو ’المامون‘ کے نام سے موسوم کیا۔
وہ بغداد جہاں دارالحکمۃ قائم ہوا، اُس کی منظرکشی ایک مسافر ماہرِ جغرافیہ احمد الیعقوبی نے کتاب البلدان میں کچھ یوں کی: ’’میں عراق سے شروع کرتا ہوں جو دنیا کا مرکز بن چکا ہے، جو زمین کی ناف ہے، اور میں سب سے پہلے بغداد کا ذکر کروں گا کیونکہ یہ عراق کا مرکز ہے، ایک عظیم شہر جس کا مشرق ومغرب میں کوئی ثانی نہیں، اس کی ترقی، اس کا آبی نظام، اس کا صحت بخش ماحول، اور یہاں بسنے والے ہر نسل ورنگ کے لوگ، جو ہر جانب کے کئی ملکوں سے یہاں آباد ہوئے ہیں۔‘‘
یہاں تک کہ یہ شہر آنے والوں کی نشوونما کے لیے کم پڑنے لگا۔ مامون کے بیٹے المہدی نے دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر الرصافہ نامی قصبہ تعمیر کیا، بغداد کی جامع مسجد سے بھی بڑی مسجد یہاں تعمیرکی۔ یہ نیا شہر مغربی کنارے سے بذریعہ کشتیوں کے پُل جُڑا ہوا تھا۔ کشتیوں کے ایسے کئی پُل تھے، جو بڑے تجارتی جہازوں کے گزرنے پر تحلیل کردیے جاتے تھے۔ زمانۂ جنگ میں یہ پُل سمندرکی جانب سے حملے کا دفاع بھی کرتے تھے۔ بصرہ میں سمندر تک نہروں کا جال بچھا ہوا تھا۔ دریاؤں کا شہر بغداد عالمی تجارت کی اہم بندرگاہ بن چکا تھا۔ یہاں کی تجارت ہندوستان، چین، افریقا، اور جنوبی یورپ کے پانیوں تک سفر کررہی تھی۔ بغداد اور الرصافہ پرمبنی میٹروپولس اس حوالے سے بہت اہمیت اختیار کررہا تھا۔ مامون اس پیش رفت کا بغور مشاہدہ کررہا تھا۔ چین سے کاغذ بنانے کی ٹیکنالوجی بغداد منتقل ہورہی تھی۔ مسلمان اب چرمی اوراق اور چرمی پارچوں کی محدود تیاری چھوڑ کرکاغذ سازی کی صنعت اختیار کررہے تھے۔ بڑی تعداد میں کاغذ تیارکیے جارہے تھے۔ یوں ادب عوامی سطح پرعام ہورہا تھا۔ الف لیلہ کی داستانیں لکھی اور پڑھی جارہی تھیں۔
نجی اور عوامی کتب خانوں کا رواج عام ہونے لگا تھا۔ صرف ایک تاجر کا ذاتی کتب خانہ اتنا بڑا تھا کہ ایک سو چالیس اونٹوں پر اس کتب خانے کی کتابیں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائی جاتی تھیں۔ ایک اور بڑا کتب خانہ دربار سے وابستہ ایک عالم کا تھا، کہ جس کا کیٹیلاگ ہی صرف دس جلدوں پر مشتمل تھا، وہ صرف اس لیے نقل مکانی نہیں کرتا تھا کہ صرف کتب خانے کی منتقلی کے لیے چار سو اونٹوں کو زحمت دینی پڑتی۔
اس شہر میں کہانی گھر کھل گئے تھے۔ جگہ جگہ لوگوں کو کہانیاں سنانے کے لیے تفریحی مراکزموجود تھے۔ مدرسوں کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے ابتدائی جامعات کے نمونوں تک پہنچ چکا تھا۔ یہی ابتدائی ’یونیورسٹیوں‘ کے وہ نمونے تھے جنھیں قرونِ وسطیٰ کے آخری دنوں میں یورپ نے اختیار کیا۔ دارالحکمۃ میں ایک کتب خانہ، ایک اسپتال، ایک رصدگاہ، منطق اور علم الکلام پر تحقیقی پروگرامات، مابعد الطبیعات اور الٰہیات، الجبرا، علم مثلث
(Trigonometry)، جیومیٹری، طبیعات، حیاتیات، دوا سازی، اور علم الادویہ وغیرہ پڑھائے جاتے تھے۔
دارالحکمۃ میں ہرشعبے کے الگ ماہرین نہیں تھے، بلکہ الٰہیات کے بہت سے ماہرین ترجمہ، ریاضی، اور دوا سازی جیسے کاموں میں بھی مہارتوں کے مظاہرے کررہے تھے۔ ان ابتدائی دنوں میں یہاں کے علماء تمام علوم کو ایک بڑی کائناتی سچائی کے ایسے اجزاء سمجھتے تھے، جن کی ہم آہنگی اور یکجائی عین فطری تھی۔ علوم کے تمام سوتے ایک ہی کائناتی سچائی سے پھوٹتے تھے۔ یہ سچائی تھی خدا (اللہ) کی کامل کائنات۔ ایک اور اہم بات یہ تھی کہ یہاں کے علماء اپنی تحقیق کے ماحصل کی سوچی سمجھی یا عقائدی تعبیر سے مطابقت کی کوئی دانستہ سعی نہ کرتے تھے۔ اُن کا مقصد صرف تخلیق کی باریکیوں اور ہم آہنگیوں تک پہنچنا ہوتا تھا۔ یہ لوگ کسی خوف یا کم اعتمادی کا ہرگز شکار نہ تھے۔
اگلی چارصدیوں تک بغداد میں مامون کے دارالحکمۃ نے علمی روایات کی دنیا پر حکمرانی کی۔ مامون کے جانشینوں نے کئی ایسے تعلیمی اور تحقیقی اداروں کی بنا ڈالی۔ دنیا کا پہلا بڑا شہری اسپتال دسویں صدی میں بغداد میں تعمیرکیا گیا تھا۔ دو بڑے مدرسے بنائے گئے، جو بعد میں اعلیٰ جامعات بن گئے۔ گیارہویں صدی کا نظامیہ کالج اور تیرہویں صدی کا مستنصریہ کالج لاثانی تھے۔ مستنصریہ میں مفت تعلیم، مفت طبی سہولیات، کمرہ، اور رہائش وغیرہ دی جاتی تھی۔ دارالحکمۃ سے منظور شدہ الشمسیہ میں کئی رصدگاہیں تعمیر کی گئیں۔ بنو موسیٰ جیسے کئی ماہرینِ فلکیات نے ذاتی رصدگاہیں بنوائی تھیں۔ یہ علمی رویہ اس شہر کی ثقافت بن چکا تھا۔ تیرہویں صدی کے بغداد میں چھتیس کتب خانے اور کتاب فروشوں کی سو دکانیں موجود تھیں۔ نویں صدی میں بغداد روئے زمین پر شاید سب سے تہذیب یافتہ اور جدید شہر تھا۔ دسویں صدی کا مؤرخ یاقوت بیان کرتا ہے: ’’بغداد شہر دریائے دجلہ کے دوکناروں پر آباد شہر ہے۔ اس کا قُطر بارہ میل بنتا ہے۔ بہت سے نواحی علاقے یہاں آباد ہیں۔ خوبصورت باغات، مکانات، محلات، اور تفریحی مقامات موجود ہیں۔ اعلیٰ معیار کے بازار، حمام، پُرشکوہ مساجد، اور دیگر عمدہ تعمیرات دونوں کناروں سے کچھ فاصلوں پر دور تک نظر آتی ہیں۔ بغداد اور گردونواح کی کُل آبادی بیس لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ ایک بڑے سے باغ کے بیچوں بیچ خلیفہ کا محل ہے۔ محل کے گرد باغات اور کیاریوں کا طویل سلسلہ ہے۔ انھیں تالابوں اور حوضوں نے گھیر رکھا ہے۔ چوڑی شاہراہیں ہیں، اور تعمیرات منصوبہ بندی کا شاہکار ہیں۔ ہر بلاک کا ایک نگہبان ہے، جو یہاں کی صفائی، نکاسی، اور دیگر سہولیات وغیرہ کا ذمہ دار ہے۔ شہر کے شمال اورجنوب دونوں جانب سے پانی کی فراہمی جاری ہے، پانی کی فراہمی کی نگرانی اونچی چوکیوں پر تعینات سپاہی صبح شام کرتے ہیں، تمام گھروں تک پانی کی فراہمی بلا تعطل ممکن بنائی جاتی ہے۔ آبی گزرگاہوں کے ذریعے باغات اور گلیوں تک پانی کی رسائی ممکن بنائی گئی ہے۔ راتوں میں چراغوں اور قندیلوں کے ذریعے شاہراہوں، گلیوں کو روشن رکھا جاتا ہے۔ اس شہر میں ہر قوم کا ایک ترجمان ہے جو اپنی قوم کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، اور مسائل پرقانونی پیروی کا پورا حق رکھتا ہے۔‘‘
ابوجعفر المامون کی موت کا قصہ بھی عجیب اور انوکھا ہے۔ بازنطینیوں کے خلاف آخری محاذ تھا۔ ابوالحسن علی المسعودی لکھتا ہے: ’’شہنشاہ یونان کے خلاف آخری جنگی مہم کے موقع پر جب المامون دریائے قشیرح پر پہنچا، کنارے پر خیمے گاڑ دیے گئے… اچانک دریا سے ایک بڑی اورخوبصورت مچھلی سطح پرابھری اور پلک جھپکتے غائب ہوگئی۔ خلیفہ نے اعلان کیا کہ جو یہ مچھلی پکڑ کر لائے گا اُسے انعام دیا جائے گا۔ وہاں موجود ایک خدمت گار دریا میں اُتر گیا۔ جب وہ مچھلی پکڑ کر سطح پر ابھرا اور مامون کے قریب پہنچا، تو یکایک مچھلی اُس کے ہاتھوں سے پھسل کر پانی میں جاگری، اورکسی وزنی پتھر کی مانند تیزی سے گہرائی میں چلی گئی۔ دریا کا کچھ پانی اچھل کر مامون کی گردن، سینے اور کپڑوں پر آگرا۔ خدمت گار دوبارہ دریا میں اُترا اور مچھلی پکڑ لایا، خلیفہ نے جیسے ہی مچھلی تلنے کا حکم دیا، اُس کی طبیعت بگڑگئی، وہ پتے کی طرح لرزنے لگا، اور اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔ اُسے اونی چادروں اور کمبلوں میں لپیٹ دیا گیا، مگر جسم کی لرزش کم نہ ہوئی۔ وہ چلّا رہا تھا ’’مجھے بہت سردی لگ رہی ہے‘‘۔ مامون کو خیمے میں پہنچایا گیا، آگ جلائی گئی، مگر وہ سردی کی شکایت کرتا رہا۔ اُس کی تکلیف اس قدر شدید تھی کہ جب تلی ہوئی مچھلی اُسے پیش کی گئی تو وہ اُسے چکھ نہ سکا۔
جب مامون کی طبیعت زیادہ بگڑی، تواُس کے بھائی معتصم نے طبیبوں بختیشوع اور ابن مسویہ سے کہا کہ جلد کوئی دوا کریں۔ انھوں نے مامون کی نبض جانچی، جو بے ترتیب تھی۔ اسی وقت مامون نے آنکھیں کھولیں، اور مقامی لوگوں کو بُلا بھیجا، وہ آئے تو اُن سے اُس جگہ اور دریا کا نام پوچھا۔ جب قشیرح کے معنی معلوم کیے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ ’موت‘ کے معنوں میں ہے۔ مامون نے اُس ملک کے نام کا عربی مفہوم معلوم کیا، جواب آیا ’رقہ‘۔ یاد آیا کہ وقتِ پیدائش جب زائچہ نکالا گیا تھا، تو بتایا گیا تھا کہ ا س بچے کی موت رقہ کے مقام پر ہوگی۔ یہی وجہ تھی کہ ابوجعفر المامون عراق کے شہررقہ سے گزرتے ہوئے کبھی قیام نہ کرتا تھا، کہ کہیں موت نہ آجائے۔ مگر اب وہ محسوس کررہا تھا کہ موت نے آلیا ہے۔
جب اُس کی طبیعت مزید بگڑی، تواس نے حکم دیا کہ خیمے سے باہر لے جایا جائے، وہ مرنے سے پہلے اپنے لشکرکا معائنہ کرنا چاہتا تھا۔ یہ رات کا وقت تھا۔ جب اُس کی نظرخیموں کی دور تک جاتی قطاروں پر پڑی، وہ پکاراٹھا’اے مالک الملک، جس کی حکومت ہمیشہ ہمیشہ قائم رہے گی، رحم کراپنے اُس بندے پرکہ جس کی حکومت آج ختم ہورہی ہے۔ ‘اُسے واپس بسترِ مرگ پرپہنچایا گیا۔معتصم نے جب دیکھا کہ بھائی کی جان نکل رہی ہے توکسی کو اشارہ کیا کہ کان میں کلمہ پڑھ دے۔ جیسے ہی کسی نے مامون کے کان میں کچھ کہنے کی کوشش کی، طبیب ابن مسویہ نے روک دیا، کہا کہ’ اس وقت کچھ نہ کہو کہ مریض خدا اور شیطان میں فرق کے قابل نہیں! ‘۔ اسی لمحے مامون نے آنکھیں کھولیں، طبیب کی کلائیوں پراُس کی گرفت بہت سخت ہوچکی تھی، وہ کچھ بولنا چاہ رہا تھا مگر آواز ساتھ نہیں دے رہی تھی، آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں، پھر کچھ زبان کو مہلت ملی، تودعا نکلی’اے وہ ذی حیات ہستی، جسے موت نہیں! رحم کراپنے اُس بندے پرجسے موت آرہی ہے!‘، اور اسی ساعت مامون کا دم نکل گیا۔ مامون کا جسد ِخاکی طرطوس لایا گیا، وہیں اُس کی تدفین ہوئی۔ ‘‘
اگرچہ ابو جعفرالمامون جاچکا تھا، مگر بغداد کا سنہرا دورابھی شروع ہوا تھا۔ یہ زریں عہد پانچ صدیوں پر محیط تھا۔
تاریخِ گم گشتہ (باب2)
حواشی:
1) معتزلین کا یہ نظریہ کھلی گمراہی تھی۔ یہ گمراہی آج بھی جدیدیت پسندی کے عنوان تلے موجود ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ وحی اور عقل میں تضاد نہیں، اور یہ دونوں باہم متصادم نہیں بلکہ مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ مگر عقل کو وحی پر بالادستی دینا صریحاً گمراہی ہے۔ یہ گمراہی اسلامی تعلیمات کو انسانی حماقتوں کی نذر کرتی ہے۔ یہ گمراہی اسلامی احکامات کی حیثیت مجروح کرتی ہے۔ جدیدیت پسندوں کے بیانیے میں یہ حقیقت نمایاں ہے۔ مامون کا اپنا خواب اس نظریے کی نفی کرتا ہے۔ خواب اس بات پر زور دیتا ہے کہ وحی تک رسائی کے لیے عقل استعمال کی جائے، یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ علم کی منزل وحی اور سواری عقل ہے، عقل ذریعہ اور علم مقصود ہے، وحی کی حیثیت معروضی ہے۔ عقلِ انسانی محدود، عارضی اور زمانی ہے، جبکہ قرآن ابدی علم ہے۔
2) یونانی فلسفے کا بلا تحقیق و تنقید اطلاق ہی مسیحیت کی تباہی کا بنیادی سبب تھا۔ مسیحی علماء نے یونانی فلسفے کی بنیاد پر ہی ناقص سائنس کی ترویج و تبلیغ کی، اور اسے انجیل سے نتھی کردیا۔ چنانچہ جب جدید سائنس کی ابتدا ہوئی، تو نہ صرف قدیم یونانی سائنس کا رد ہوا بلکہ پاپائیت اور مسیحی الٰہیات کا سارا نظام ڈھے گیا۔ کچھ ایسا ہی معتزلین اور آج کے جدیدیت پسند کرنا چاہتے ہیں کہ انسانی علوم کو وحی پر فوقیت دے دی جائے اور جو حشر مسیحیت یا گزشتہ ملتوں کا ہوا، خدانخواستہ اسلام بھی اُسی صورتِ حال سے دوچار ہوجائے۔
3)یہ ایلگوریتھم ہی ہے، جس پر آج کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی عمارت کھڑی ہے۔
(جاری ہے)