ہم کیا اور ہماری بساط کیا، بڑوں کی غلطیاں پکڑ کر بڑا بننے کا شوق ہے۔ لیکن بڑوں کی غلطی چھوٹوں کے لیے سند بن جاتی ہے۔ ہمارے کچھ ساتھی تواتر سے ’’خانہ پوری‘‘ لکھتے ہیں۔ نظر پڑ جائے تو ٹھیک کروا دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نوجوان ساتھی جمعہ 11 اکتوبر کا جسارت لے کر بیٹھ گئے جس کے ادارتی صفحے پر ایک بہت بڑے کالم نگار نے اپنے مضمون میں کئی جگہ ’’خانہ پوری‘‘ لکھا ہے، اور یہ کمپوزنگ کی غلطی بھی نہیں ہے۔ ان کے لکھے کو ’’مستند‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نوجوان ساتھیوں میں سے جب کوئی ’’خانہ پوری‘‘ لکھتا ہے تو ہم اُس سے یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ پوری کے ساتھ حلوہ کہاں ہے، کہ پوری کے ذکر پر حلوہ ہی یاد آتا ہے۔ اصل میں یہ لفظ ’پُری‘ ہے یعنی خانہ پُری۔ مطلب ہے نقشہ بھرنا، جگہ بھرنا وغیرہ۔ ’پُر‘ کرنے کا مطلب تو معلوم ہی ہے، اسی سے ’پُری‘ ہے (’پ‘ پر پیش، ورنہ پری بن کر اُڑ جائے گی)۔ فارم پُر کیے جاتے ہیں جن سے سبھی کو واسطہ پڑتا ہے۔ پُر پر خوامخواہ ایک شعر یاد آگیا:۔
پُر ہوں میں درد سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
ممکن ہے پہلے مصرع میں کچھ گڑبڑ ہو، کوئی صاحب چاہیں تو تصحیح کرسکتے ہیں۔ پُر، خالی کا مقابل ہے۔ چنانچہ جو خانے خالی ہوں انہیں پُر کیا جائے تو خانہ پُری کہلائے گا۔ بطور سابقہ پر کئی الفاظ میں شامل ہے جیسے پُرآب، پُرمغز، پُرپیچ، پُرشکم وغیرہ۔ ’پر‘ فارسی کا ہے اور خانہ بھی۔ ’پر‘ ہندی میں چمڑے کے اُس بڑے ڈول کو کہتے ہیں جس سے کنویں سے پانی نکال کر آبپاشی کی جائے۔
جسارت ہی کے ایک کالم نگار نے لکھا ہے ’’ورطۂ حیرت سے عدالتوں کو دیکھتا انصاف‘‘۔ صاف ظاہر ہے کہ موصوف کو ’ورطہ‘ کا مطلب نہیں معلوم، اور معلوم کرنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ بس جملے کو بارعب بنانے کے لیے ورطہ پکڑ لائے۔ ورطۂ حیرت تک تو صحیح ہے، لیکن ورطہ عدالتوں کو دیکھتا ہے نہ انصاف کو، بلکہ کسی کو بھی نہیں دیکھتا۔ ورطہ کا مطلب ہے ’’ہلاکت کا مقام، ایسی زمین جہاں رستہ نہ ہو‘‘۔ مجازاً بھنور یا پانی کے چکر اور گرداب کو کہتے ہیں۔ جو مستعمل ہے وہ ہے ’’ورطۂ حیرت میں ڈوب جانا‘‘۔ یعنی حیرت بھنور میں پھنس کر غوطے کھانے لگی۔
ایک بڑا دلچسپ املا شائع ہورہا ہے اور کچھ لوگوں کی زبان پر بھی ہے۔ یعنی املا اور تلفظ دونوں ہی مزے کے ہیں۔ یہ لفظ ہے ’ہراول‘۔ جسارت سمیت کچھ اخبارات میں اسے تشدید کے ساتھ لکھا جارہا ہے یعنی ہر۔ اوّل۔ کچھ ٹی وی چینلز پر بھی اسی طرح سننے میں آرہا ہے۔ صحافی بھائی سے پوچھو تو وہ بڑے وثوق سے کہتا ہے کہ یہ ’’ہر اوّل‘‘ ہے۔ چلیے اوّل تو سمجھ میں آگیا، پھر یہ ’’ہر‘‘ کیا ہے؟ کیا یہ انگریزی کا HER ہے یا سنسکرت کا ’’ہر‘‘۔ ہندوئوں کے نزدیک اس کا مطلب وشنو، کرشن، مہادیو وغیرہ ہے۔ ہربھجن کا مطلب ہے وشنو کی عبادت۔ یہ ’ہر‘ فارسی میں بھی ہے اور اردو میں عام ہے۔ جیسے ہر دفعہ، ہر بار، ہر گھڑی۔ اہلِ زبان یہ لفظ جمع کے ساتھ استعمال نہیں کرتے۔ جیسے ہر لوگ، ہر ممالک، یہ غلط ہے۔ ناسخؔ کا مصرع ہے
’’ہیں حسیں اور بھی پر تجھ میں ہے ہر بات نئی‘‘
احمد فراز کا شعر ہے:۔
بیاں ہر ایک سے دل کی حالتیں کرنی
فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی
بہرحال ’ہراول‘ ایک ہی لفظ ہے اور بغیر کسی تشدد کے (ہرا۔ول)۔ اس کا مطلب ہے ’’وہ تھوڑی فوج جو لشکر کے آگے چلے، لشکر کا پیش خیمہ۔
اسلام آباد سے شائع ہونے والا ’اخبار اردو‘ زبانِ اردو کے حوالے سے ایک معتبر رسالہ ہے جو ادارہ فروغِ قومی زبان کے تحت شائع ہوتا ہے اور فروغِ قومی زبان میں حصہ لے رہا ہے۔ اس شمارے (اگست 2019ء) میں دائود کیف کا مضمون ’’اردو اور بلوچی کاسنگم‘‘ نہ صرف دلچسپ ہے، بلکہ اس میں یہ سبق بھی ہے کہ مقامی زبانوں کو بھی اردو میں شامل کیا جائے۔ اردو تو ویسے بھی مختلف زبانوں کی آمیزش سے وجود میں آئی ہے۔ عربی اور فارسی کے علاوہ اب تو انگریزی کے الفاظ بے تحاشا جگہ پارہے ہیں بلکہ ٹھونسے جارہے ہیں۔ انگریزی کے وہ الفاظ جو اردو میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں اور اب زبان کا حصہ بن گئے ہیں اُن کو ترک کرنے یا متبادل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، تاہم جن انگریزی الفاظ کا متبادل اردو میں موجود ہے اسے ترک نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ’’ممبران‘‘ بے معنی ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے۔ جب کہ ’ارکان‘ یا ’اراکین‘ سامنے کے الفاظ ہیں۔ ممبران تو آدھا تیتر، آدھا بٹیر ہے۔ ’’جج‘‘ کا لفظ اردو میں قدم جما چکا ہے، لیکن اخبارات میں خاص طور پر سرخیوں میں اس کی جمع ’’ججز‘‘ لکھنا غلط ہے۔ اس کی جگہ ’ججوں‘ لکھنا چاہیے، اور ’جج‘ بھی بطور جمع استعمال ہوسکتا ہے۔ مثلاً ’’تمام جج حاضر تھے‘‘۔ ’’پارلیمنٹ‘‘ انگریزی کا لفظ ہے لیکن اسے ’پارلیمان‘ لکھا جائے تو یہ اپنا ہوجائے گا۔ دائود کیف نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’جہاں تک اردو ذخیرۂ الفاظ کا تعلق ہے تو اس میں علاقائی زبانوں کے الفاظ عام لوگوں کے میل جول کے قدرتی نتیجے ہی کی بدولت شامل ہورہے ہیں (اردو بھی اسی طرح وجود میں آئی ہے) جب کہ ان میں ہم آہنگی اور اردو کی لغت میں اضافے کی شعوری کوششیں کم ہی کی گئی ہیں۔ البتہ ایک بات ضرور حوصلہ افزا ہے کہ ملک کے مختلف گوشوں کے رہنے والے ادیبوں نے جب ایک مخصوص دیہی ماحول اور خالص علاقائی فضا سے عام معاشرتی موضوع چن کر کوئی افسانہ یا ناول لکھا ہے تو اس سے قومی کلچر کی تصویر میں خوبصورت رنگوں کا اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔‘‘
علاقائی زبانوں کو اردو میں شامل کرنے کا مشورہ صائب ہے اور اس پر بڑی حد تک عمل بھی ہورہا ہے، تاہم بلوچی زبان اس عمل سے دور ہے۔ البتہ پنجابی کے ادیب بلاتکلف پنجابی کے الفاظ اردو افسانوں، ناولوں میں شامل کررہے ہیں۔ ان میں نمایاں مثال اشفاق احمد (مرحوم) کی ہے۔ سندھ میں سندھی کے الفاظ بھی اردو بولنے والوں کی زبان پر چڑھ گئے ہیں، لیکن اس عمل سے کراچی بڑی حد تک باہر ہے۔ اصول یہ ہے کہ اقلیت اکثریت کی زبان استعمال کرتی ہے۔ کراچی میں عام لوگوں کا واسطہ زبان کی حد تک سندھی بولنے والوں سے نہیں پڑتا۔ پنگا، پھڈا وغیرہ جیسے الفاظ اردو میں باہر سے آئے ہیں۔ کس زبان سے؟ یہ واضح نہیں ہے۔ ’پھڈا‘ پنجاب میں نہیں بولا جاتا۔ یہ لفظ کراچی کا خاص ہے۔ ’گڑھا‘ کی جگہ ’کھڈا‘ بھی پنجاب سے آیا ہے۔ ملتان میں ایک محلہ ’’گوجر کھڈا‘‘ ہے، گوکہ اب تو ملتان میں بھی قدم قدم پر کھڈے ہیں۔
اسی شمارے میں جامعہ آزاد جموں و کشمیر کے اردو لیکچرار فرہاد احمد فگار کا مضمون ہے، جنہوں نے ’’غلط العوام الفاظ اور املا‘‘ کی نہر نکالی ہے۔ ان کا ایک نکتہ قابلِ توجہ ہے ’’قریب المرگ‘‘۔ اس کا استعمال عام ہے لیکن قواعد کی رو سے یہ ترکیب درست نہیں، کیونکہ قریب اور مرگ دونوں فارسی کے الفاظ ہیں، جب کہ ’’ال‘‘ عربی ہے، اس لیے اس کی ترکیب نہیں بنے گی۔ چنانچہ ’’قریب المرگ‘‘ کے بجائے ’قریبِ مرگ‘ یا پھر ’قریب الموت‘ ٹھیک اصطلاح ہوگی۔ لیکن کیا ’قریب‘ فارسی کا لفظ ہے؟ ہم تو اسے عربی کا سمجھتے رہے۔ قریب کا مصدر قرب ہے اور یہ عربی کا لفظ ہے۔ اسی سے قربت، اقرباء وغیرہ ہے۔ قربان کا مطلب بھی خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی شے کی قربانی دینا ہے۔ اردو کے استاد فرہاد احمد فگار نے جانے کس خیال میں ’’قریب‘‘ کو فارسی لفظ قرار دے دیا۔
ابوالکلام آزاد نے ایک بڑے شاعر اور ادیب ’’اخترالایمان‘‘ کے نام پر اسی ’’ال‘‘ کی وجہ سے اعتراض کیا تھا کہ ’اختر‘ فارسی کا لفظ ہے اور ’ایمان‘ عربی کا۔ لیکن اختر الایمان نے اپنا نام نہیں بدلا۔ لیکن ’’زیب النساء‘‘ کا کیا کیا جائے۔ بادشاہ اورنگ زیب خود بھی عالم تھے اور ان کی بیٹی زیب النساء بھی عالم، فاضل تھیں۔ لیکن ’زیب‘ فارسی کا لفظ ہے اور ’نساء‘ عربی کا۔ پھر یہ نام کیوں رکھا گیا؟ ’’ال‘‘ کے بغیر ’زیب نساء‘ بھی تو چل سکتا تھا۔ کراچی کے صدر بازار میں ایک معروف سڑک کا نام بھی ’زیب النساء اسٹریٹ‘ ہے۔ اس پر نہ تو ابوالکلام آزاد نے اعتراض کیا اور نہ ہی استاد فرہاد احمد فگار کو کوئی اعتراض ہے۔ بہرحال فرہاد صاحب کا مضمون اصلاح کی اچھی کوشش ہے جو جاری رہنی چاہیے۔ اس مضمون سے مزید استفادہ کیا جائے گا، گو کہ بیشتر باتیں وہ ہیں جن کی ہم بار بار نشاندہی کرچکے ہیں۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ ’قریب المرگ‘ جیسے علمی اعتراض سے اردو کا دامن تنگ ہوگا۔ ’دن بہ دن‘ لکھنا قواعد کے اعتبار سے غلط ہے کہ ’دن‘ ہندی کا لفظ ہے اور اس میں ’بہ‘ نہیں آئے گی، چنانچہ یا تو ’دن پر دن‘ لکھا جائے یا ’روز بروز‘۔ مگر ہم پھر یہی کہیں گے کہ اردو میں اگر ’دن بہ دن‘ آہی گیا ہے تو اسے کیوں باہر نکالا جائے۔ ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہی ہوا ہے۔