یہ سوال اب بے معنی ہوگیا کہ مولانا اسلام آباد میں دھرنا دے پائیں گے یا نہیں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے، حکومتی پارٹی کے رکن کی درخواست پر فیصلہ سنا دیا ہے، جب کہ جمعیت العلمائے اسلام کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے انتظامیہ کو اطلاع دے دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت اس کو منظور کرتی ہے یا رد کرتی ہے۔ عدالتِ عالیہ نے احتجاج کا حق تسلیم کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ احتجاج کے لیے اجازت کی ضرورت ہے۔ اب اگر حکومت اجازت نہیں دیتی تو پھر کیا ہوگا؟ خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ نے تو اعلان کردیا ہے کہ ہم ان کو سڑکوں پر نکلنے نہیں دیں گے، جب کہ مولانا فضل الرحمن نے اعلان کردیا ہے کہ ہم 27 تاریخ کو احتجاج کریں گے اور 31 اکتوبرکو اسلام آباد پہنچیں گے۔
31 اکتوبر کو مولانا فضل الرحمن کتنے لوگوں کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اسلام آباد آکر دھرنا دینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟ ابھی تو یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اگر 27 اکتوبر سے پہلے وزیراعظم عمران خان نے اپنی کابینہ میں متوقع تبدیلی کی تو کس وزیر کے پاس کون سا محکمہ ہوگا، اور موجودہ کابینہ میں سے کون کون ہوگا یا نہیں ہوگا؟ البتہ اب کسی کو اس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ مولانا فضل الرحمن کا کام آسان ہوگیا ہے۔ وزیراعظم کے غیر منتخب حکومتی ترجمانوں اور میڈیا منیجرز نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ رہی سہی کسر کابینہ میں شامل منتخب ارکانِ پارلیمنٹ کے بیانات نے پوری کردی ہے ۔ 1958ء کے بعد سے ملک میں چلنے والی احتجاجی تحریکوں کی تاریخ شاہد ہے کہ ان تحریکوں میں زور پیدا کرنے میں کلیدی کردار وقت کے حکمرانوں کے ’’فیصلہ سازوں‘‘ نے ادا کیا، اور ہر حکومت کے وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات کے تند و تیز بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو کوئی پسند کرے یا ناپسند، پاکستان کی احتجاجی تحریکوں میں اُن کے تیسرے دورِ حکومت میں چلنے والی واحد احتجاجی تحریک ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی کھلی سپورٹ کے باوجود وزیراعظم میاں نوازشریف کو احتجاج کے ذریعے گھر نہیں بھیج پائی تھی۔ اس کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس پر بہت بات ہوچکی ہے۔ اس کا کریڈٹ خود میاں نوازشریف کے بعد اُن کے جانشین وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو بھی جاتا ہے، جنہوں نے عمران خان کو انگیز کرکے دھرنے کے ’’پشتی بانوں‘‘ کی وہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہونے دی جس کے فریب میں مبتلا ہوکر عمران خان اور علامہ طاہرالقادری نے پارلیمنٹ پر یلغار کی تھی، اور پی ٹی وی پر جتھوں کی شکل میں دھاوا بول کر قبضہ کرکے فتح کے خواب دیکھے تھے۔ مولانا فضل الرحمن سے آپ لاکھ اختلاف کریں، لیکن ان کے شدید ترین سیاسی مخالف ہوں یا اُن کے دینی نظریات کے شدید ناقد، وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن عمران خان کی حکومت اور ان کے ’’پشتی بانوں‘‘ کو یہ موقع ہرگز نہیں دیں گے جس کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں اور جس پر سنجیدہ حلقے بھی تشویش کا اظہار کررہے ہیں، اور جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے اخلاقی حمایت اور احتجاجی جلسے میں شرکت پر تو آمادگی ظاہر کردی ہے لیکن دوٹوک فیصلہ کرنے میں دونوں پارٹیوں کو تاخیر ہورہی ہے، لیکن مولانا فضل الرحمن ایسا موقع نہیں دیںگے جیسا موقع میاں نوازشریف کی جماعت کو 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی سے روکنے والی طاقتور قوتوں کے بھرّے میں آکر تحریک لبیک کے قائد مولانا خادم حسین رضوی نے تکفیری فتووں کے عاقبت نااندیش اعلانات اور افواجِ پاکستان کے اعلیٰ ذمہ داران اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے خلاف تضحیک اور نفرت انگیز بیانات اور گالم گلوچ کا وتیرہ اختیار کرکے دے دیا تھا۔ اور نہ ہی اب وہ کریں گے جو 2018ء کے سینیٹ کے انتخابات میں آصف علی زرداری نے کھلے عام سنجرانی کو منتخب کراکر کیا تھا۔ اور اب 2019ء میں عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کا الزام پیپلزپارٹی کے کچھ ارکانِ سینیٹ پر خود پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اپنے بعض سینیٹرز پر لگایا ہے۔ مولانا کو اس کا ادراک ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے مولانا کی پارٹی کے بعض ارکان پر بھی حزبِ اختلاف کے مشترکہ امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا الزام لگا تھا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مولانا ہر ایک سے سیاسی بارگیننگ کرسکتے ہیں مگر عمران خان سے اُن کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں، کیوں 2012ء میں طاقت ور پشتی بانوں نے عمران خان کی مولانا سے مفاہمت کرانے کی کوشش کی تھی جس کا ذکر پہلے بھی کئی بار باخبر لوگ کرتے رہے ہیں، اور اب چند روز قبل ہی سلیم صافی نے پھر کیا ہے۔ مولانا نے دھرنے کا فیصلہ ایسے وقت پر کیا ہے جب وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے بیک وقت کئی محاذوں پر پائوں اکھڑتے دیکھے جارہے ہیں۔ یہ احتجاجی تحریک وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو پارلیمنٹ میں موجود حزبِ اختلاف کی قیادت سے مکالمے پرمجبور کردے گی، کیوں کہ اب وزیراعظم کی جماعت کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ الیکشن کمیشن کے سندھ و بلوچستان کے دو ارکان کے معاملے اور چیف الیکشن کمشنر کی نئی تقرری کے لیے آئینی طریقہ کار اختیار نہ کریں۔ مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی تحریک اگر نئے انتخابات کا مطالبہ نہ بھی منوا سکی تو بلدیاتی انتخابات تو ہر صورت 2019ء میں کرانا ہی پڑیں گے۔ بلدیات کا معاملہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدالت میں زیر سماعت ہے۔