حکومت کے خلاف جے یو آئی کے دھرنے کی تیاریوں، وفاقی کابینہ میں تبدیلی، اور ملک میں سیاسی ہلچل میں ایک بہت بڑی پیش رفت سامنے آنے والی ہے، اور وہ یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت علاقے کی ڈیموگرافی تبدیل کرکے اپنا تسلط پکا کرنے جارہی ہے، اور اسے مغرب اور امریکی حکومت کی مکمل تائید حاصل ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم عمران خان کادعویٰ ہے کہ وہ کشمیر کے سفیر بن کر عالمی برادری کے سامنے کشمیر کا مقدمہ لڑیں گے، وہ دو مسلم ممالک میں صلح کے لیے تہران پہنچے ہیں، اور بدلے میں انہیں کیا حاصل ہوگا ابھی تک خود حکومتِ پاکستان بھی اس بارے میں لاعلم ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن نے ہمیں ہمیشہ دنیا بھر میں اہمیت دلائی ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت نے کبھی بھی اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ جو لوگ مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتِ حال پر گہری نظر رکھتے ہیں انہیں اس خبر کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے۔ بھارتی سپریم کورٹ میں بھارتی حکومت کے اقدامات کے خلاف زیر سماعت مقدمے میں وکیل نے عدالت سے مہلت مانگی اور مہلت مانگتے ہوئے ایک بہت بڑی خبر بھی دے دی کہ جس میں مقبوضہ کشمیر میں ایک بڑی سیاسی پیش رفت کا عندیہ ملتا ہے۔ اگر درخواست گزار کے وکیل کی عدالت میں کی گئی گفتگو کی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہورہا ہے کہ چار ہفتوں کے بعد مودی سرکار کشمیر کی تقسیم کا فیصلہ کرنے جارہی ہے۔ یہ عمل 31 اکتوبر کو متوقع ہے۔ اس تقسیم میں وادی، جموں اور لداخ کے بارے میں بھارتی حکومت نے اپنے آئین میں جو ترمیم اور تبدیلی کی ہے اس پر اب اگلے مرحلے میں مزید پیش رفت ہوتی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔ اس پس منظر میں بھارتی حکومت نے بھارت بھر کے ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں میں ہائی الرٹ جاری کردیا ہے۔ سری نگر، امرتسر، جموں، پٹھان کوٹ اور دیگر ایئربیسز پر اورنج الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں دہلی سرکار کے تقریباً دو ماہ قبل کیے گئے اقدامات کے بعد اب اس متنازع خطے کے ایک حصے لداخ میں بھی نئی کشیدگی اور سماجی تنائو پیدا ہوگیا ہے، بھارتی اقدام لداخ کے بدھ باشندوں کے لیے بھی تشویش کا باعث بن گیا ہے کہ ان کے اکثریتی علاقے لیہ(LEH) کی منفرد ثقافتی اور سماجی حیثیت بھی اس وقت خطرے میں پڑ جائے گی، جس کے بعد ہندو لیہ میں املاک خریدنے اور وہاں رہائش اختیار کرنے کے حق دار ہوجائیں گے۔ پانچ اگست کو نئی دہلی میں مودی حکومت کے جموں وکشمیر کی بھارتی آئین کے مطابق خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے لے کر اب تک لداخ میں بہت زیادہ تنائو پیدا ہوچکا ہے۔ مودی حکومت کے متنازع اور غیر قانونی فیصلوں پر عمل درآمد کے بعد لداخ کو مزید دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ یہ حصے جموں وکشمیر اور لداخ کہلائیں گے اور دونوں ہی بھارت کے یونین علاقے ہوں گے۔ لیکن کشمیر ہی کے ایک حصے سے متعلق بھارت کا چین کے ساتھ بھی تنازع پایا جاتا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کے شمال مشرق میں واقع لداخ کا علاقہ مزید دو حصوں میں منقسم ہے۔ ان میں سے ایک لیہ کہلاتا ہے اور دوسرا کارگل۔ ضلع لیہ کی آبادی میں بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے، جبکہ کارگل کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے۔ اس علاقے میں نئی کشیدگی کا سبب نئی دہلی کے پانچ اگست کے فیصلے کے ساتھ کیا جانے والا وہ اعلان بھی ہے، جس پر مودی حکومت کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی غیر منصفانہ اور متنازع پروگرام پر 31 اکتوبر کو عمل درآمد ہوجائے گا، جس کے بعد لداخ کا یہ علاقہ جموں و کشمیر سے کاٹ کر عملاً علیحدہ کردیا جائے گا، اور ایک یونین علاقے کے طور پر براہِ راست نئی دہلی کے زیرانتظام آجائے گا۔ لداخ کے اس علاقے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سیاچن گلیشیر کا مشہور اور اسٹرے ٹیجک حوالے سے انتہائی اہم علاقہ بھی اس خطے میں ہے، جسے عسکری ماہرین ’دنیا کا بلند ترین میدانِ جنگ‘ بھی کہتے ہیں۔ اس گلیشیر اور اس سے ملحقہ علاقے میں بھارت اور اس کے حریف ہمسایہ ملک پاکستان نے ہزاروں کی تعداد میں اپنے فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ دنیا کا یہ بلند ترین میدانِ جنگ سطح سمندر سے 6,700 میٹر یا 22,000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
اقوام متحدہ میں وزیراعظم کی تقریر کے بعد پاکستان بھی اب پارلیمانی وفود بیرونِ ملک بھجوا رہا ہے۔ پہلا پاکستانی وفد 24 اکتوبر کو ڈنمارک روانہ ہوگا، لیکن بھارتی مرکزی حکومت کے تیور اچھے دکھائی نہیں دے رہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35-A ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں 70 ویں روز بھی کرفیو جاری ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی پابندیاں ختم کرنے سے متعلق درخواست قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے رہنما ڈاکٹر سمیر کول نے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ انٹرنیٹ کی بندش سے مقبوضہ کشمیر کے اسپتالوں کا نظام بھی درہم برہم ہوچکا ہے۔ حکومت کو حکم دیا جائے کہ کم از کم جموں و کشمیر کے اسپتالوں میں انٹرنیٹ کمیونی کیشن سروس بحال کی جائے۔ عدالت نے سمیر کول کی اس پٹیشن کو سماعت کے لیے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے انھیں جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت دی۔ بھارتی حکومت نے بھارتی فوج کے لیے وسیع اختیارات کے قانون آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (افسپا) کوآسام، منی پور، میگھالیہ، میزورام اور ناگالینڈ کے بعد اروناچل پردیش کے 3 اضلاع میں نافذ کردیا ہے۔ اس قانون کے تحت بھارتی فوج کو کسی بھی شہری کو گرفتار کرنے اور اسے گولی مارنے کا اختیار ہے۔ اس قانون کی موجودگی میں بھارتی فوج کے خلاف کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ یہ ایکٹ مقبوضہ کشمیر میں کئی سال سے نافذ ہے۔ آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ اپریل میں تین اضلاع سے عارضی طور پر ہٹا دیا گیا تھا۔ تراپ، چانگ لانگ اور لونگ ڈنگ ضلعوں کے ساتھ کچھ تھانہ حلقوں میں اس کو 30 ستمبر تک نافذ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کو اب 31 مارچ 2020 ء تک بڑھا دیا گیا ہے۔
بھارتی فوج نے مقبوضہ وادی میں 80لاکھ عوام کو دو ماہ سے زائد عرصے سے محصور کررکھا ہے اور آج بھارتی میڈیا بھی بار بار یہ بتا رہا ہے کہ کشمیر کی جدوجہد ایک کشمیری جدوجہد ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ مگر کشمیر کے حوالے سے ظلم کی داستانیں عالمی میڈیا پر کہیں نہیں دکھائی جاتیں۔ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو آزادی دینے کا وعدہ کیا تھا جو آج تک پورا نہیں ہوسکا۔ ہم عالمی میڈیا اور تمام دوسرے ممالک کو مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے بارے میں آگاہ کررہے ہیں۔ عالمی میڈیا ہانگ کانگ کے احتجاج کی تو سرخیاں پیش کرتا ہے، جہاں مظاہرین میں چند لوگ زخمی ہوئے، مگر کشمیر کے متعلق کوریج عالمی میڈیا پر نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستانی قوم بہرصورت کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
بے شک یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ معصوم و بے گناہ کشمیری عوام کواپنا حقِ خودارادیت مانگنے کی پاداش میں بھارتی فوج نے کرفیو کی شکل میں جبری ہتھکنڈے کے تحت گزشتہ 70 روز سے ان کے گھروں میں محصور کررکھا ہے، جبکہ وہ سات دہائوں پر محیط اپنی پُرعزم جدوجہد کے دوران اپنے لاکھوں پیاروں کی جانیں اور ہزاروں عفت مآب خواتین کی عصمتوں کی قربانیاں دے کر انسانی تاریخ کی لازوال داستانیں رقم کرچکے ہیں، جن کے پائے استقلال میں کبھی ہلکی سی لغزش بھی پیدا نہیں ہوئی، اور وہ اپنی آزادی کی منزل کی جانب گامزن ہیں جو درحقیقت ان کی پاکستان کے ساتھ الحاق اور تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی منزل ہے۔ پاکستان نے اسی ناتے سے شروع دن سے ہی کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کا دامے، درمے، سخنے ساتھ نبھایا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سفارتی کوششیں بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ ہر علاقائی اور عالمی فورم پر ان کے لیے آواز بلند کی ہے۔ اس کی پاداش میں بھارت پاکستان کی سلامتی کے درپے ہوا جس نے درحقیقت پاکستان کی سلامتی کی کمزور کرنے کی نیت سے ہی کشمیر پر تسلط جمایا تھا۔ اسی تناظر میں اس نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں، اسے سانحہ سقوطِ ڈھاکا سے دوچار کیا، اور پھر باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی بھی تاراج کرنے کی نیت سے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرلی۔ چنانچہ اپنے تحفظ و دفاع کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول پاکستان کی بھی مجبوری بن گیا۔ اس طرح آج دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں، اور اس ناتے سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی بھارت کی مودی سرکار کے رحم و کرم پر ہے، جس پر کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بعد پاکستان سے ملحقہ کشمیر اور اس کے علاقہ جات پر بھی شب خون مارنے کا بھوت سوار ہے، اور اس معاملے میں بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادتیں پاکستان کے حوالے سے درفنطنیاں چھوڑتی اور اس پر جارحیت مسلط کرنے کی گیدڑ بھبکیاں دیتی ہیں۔ بھارت اس حوالے سے 26 فروری کو فضائی دراندازی کرکے پاکستان پر جارحیت کا مرتکب بھی ہوچکا ہے، اور اگلے روز 27 فروری کو فضائی دراندازی کی دوبارہ کوشش میں منہ کی کھا چکا ہے، مگر مودی سرکار کے دوسرے دور میں اس کے جنونی عزائم میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ نتیجتاً آج پورے خطے کے علاوہ اقوام متحدہ پر بھی سنگین خطرے کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ چنانچہ اس وقت سے ہی وزیراعظم اور دوسرے حکومتی اکابرین عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو بھارتی عزائم اور اس کے نتیجے میں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق ہونے والے خطرات سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کررہے ہیں۔ عالمی برادری نے مودی سرکار کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے کے لیے کوئی کردار ادا نہ کیا تو پھر دو ایٹمی ممالک میں جنگ کی صورت میں دنیا کی تباہی بعید ازقیاس نہیں۔