کاش یہ حکمراں سمجھ سکیں کہ ’اردو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں
ڈاکٹر معین الدین عقیل
قومی زبان کے بارے میں ہماری سابقہ حکومتوں کا رویہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ برملا کہا جاسکتا ہے کہ کسی حکومت نے اس کے نفاذ اور قوم و ملک کو اس کے نفاذ کے فوائد سے ہم کنار کرنے کے بارے میںکبھی سوچا ہی نہیں تو اس کے نفاذ کے لیے کوئی حکومت یا سربراہِ حکومت کیا اقدامات کرتے اور کس حد تک سنجیدہ و مستعد ہوتے! ہم ہر طرح زوال آمادہ ہیں اور قومی زبان کے نفاذ اور اسے ذریعہ ٔ تعلیم بنانے کے لیے تو کبھی مستقل اور مؤثر کسی منصوبہ بندی کی بابت نہ سوچا اور نہ کبھی سنجیدہ و سرگرم ہوئے۔ موجودہ حکومت تو سابقہ ساری حکومتوں سے اس ضمن میں افسوس ناک حد تک آگے ہے کہ سابقہ حکومتوں کے دور میں کبھی عوامی زور و اثر کے نتیجے میں، جو نہ ہونے ہی کے برابر رہا، حکومتِ وقت نے دکھاوے اور جھوٹ موٹ وعدے بھی کیے تو وہ ہمیشہ وقتی ہی ثابت ہوئے اور بات گاہے سنگِ بنیاد کو اردو میں نصب کرنے یا کچھ خوش کن جھوٹے وعدے وعید تک رہی، لیکن موجودہ نئے پاکستان کی دعویدار حکومت نے تو جھوٹے وعدے وعید کرنے اور دکھاوے تک کو بھی ضروری نہ سمجھا، یہاں تک کہ وفاقی حکومت نے کوئی سنگِ بنیاد تک کہیں کسی جگہ نصب نہ کروایا جیسے اردو سنگِ بنیاد کے ہوتے ہوئے کسی تقریب کا افتتاح کہیں انھیں گناہ گار نہ کردے! اس صورتِ حال میں کسی کو یہ قطعی امید نہیں کہ موجودہ حکومت قومی زبان کے نفاذ کے لیے خود کوئی منصوبہ بندی کرے، یا اس ضمن میں عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے ہی کی تابع داری کرکے سرخ رو ہوجائے۔ یہ سب جذبے اور قومی امنگوں پر منحصر ہے، جسے موجودہ حکومت یا اس کے متعلقہ وزراء میں تلاش کرنے کی ضرورت بلاشبہ موجود ہے۔
یہ کس قدر افسوس ناک اور باعث ِ شرم ہے کہ ہماری پچھلی اور موجودہ حکومت قومی زبان کے نفاذ کے معاملے میں لاتعلقی کے ساتھ ساتھ اعلانیہ توہینِ عدالت تک کی مرتکب ہورہی ہیں، اور اس کے ذمے داروں میں نہ کوئی اس بارے میں سوچ رہا ہے اور نہ اس میں کسی سے اس بات کی کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔ جب کہ یہ اس ضمن میں ایک تاریخی واقعہ ہے کہ پہلی بارعدالت ِ عظمیٰ پاکستان نے ملک میں دستور ِ پاکستان (1973ء)کی دفعہ 251 (1) کے عدم ِ نفاذ پر ایک دردمند اور باشعور پاکستانی شہری جناب کوکب اقبال خواجہ کی ایک درخواست کو پذیرائی بخشتے ہوئے بجاطور پر ان ذمے داروں کے بارے میں جو استفسار کیا تھا کہ اس دفعہ کا نفاذ اب تک کیوں نہ ہوسکا؟ اور اس کے ذمے دار کون کون ہیں؟ یہ معاملہ چار سماعتوں میں زیر ِ بحث آتا رہا اور تاریخیں بڑھتی رہیں، اور کوئی مناسب جواب کسی طرف سے نہیں مل رہا تھا، لیکن بالآخر بظاہر پچھلی حکومت نے کچھ تو مجبوراً کہ اب خود اس کے وزیر اور افسران ِ بالا بھی انگریزی زبان پر پوری طرح قادر نہیں اور ان کی کم علمی کے باعث تعلیم یافتہ طبقے میں ان کی بھد اڑ رہی تھی، اور کچھ اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے کے لیے اس نے اردو کے نفاذ کے لیے سپریم کورٹ میں یقین دہانیاں کرانے ہی میں عافیت سمجھی، اور بعض خوش گوار اعلانات کردیے۔ ان اعلانات کی رو سے وزراء بظاہر پابند رہے کہ وہ ملک اور بیرون ملک اپنی تقاریر اردو میں کریں گے، بیشتر قوانین کے تراجم اردو میں کردیے جائیں گے، سرکاری و انتظامی مجلسوں کے اجلاس کی کارروائیاں اب اردو میں ہوں گی اور ان کا ایجنڈا اور رودادیں بھی اب اردو میں جاری ہوں گی۔ صوبوں پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ اردو کو اپنے قومی معاملات میں ترجیح دیں اور علاقائی زبانوں کی ترقی و ترویج سے بھی غافل نہ رہیں۔ واقعتاً یہ بظاہر اعلانات بھی جن کی سنجیدگی حکومتوں کے سابقہ رویوں کو دیکھتے ہوئے مشکوک لگتی تھی، لیکن پھر بھی قدرے اطمینان بخش تھی۔ لیکن بہرحال ہونا وہی تھا جو ہوا کہ عدالتِ عظمیٰ کے احکامات نظرانداز ہوگئے۔ اور اب معاملہ اس موجودہ حکومت کے دور میں تو صفر پر چلا گیا! تفو برتو اے چرخ!!
اس معاملے کے قانونی اور فنی پہلوؤں سے قطع نظر، معاملہ صاف ہے اور 1973ء ہی سے کہ جب یہ قانون نافذ ہوا، ہمارے ملک کے کالے انگریزوں یا غلامان ِ مغرب کے لیے قومی زبان کا نفاذکبھی قابل ِ برداشت ہونہیں سکتا، چناں چہ اس رعایت کے باوجود کہ آئین کے نفاذ کے پندرہ برسوں کے اندر اندر، یعنی 1988ء تک، قومی زبان ملک میں رائج کردی جائے گی، ملک و قوم کے تقاضوں سے بے نیاز اورقومی مفادات سے صرف ِ نظر کرنے والے حکام اورافسروں نے مختلف حیلے بہانوں سے اس دفعہ کے نفاذ کو ٹالے رکھا اور اسے قابل ِ اعتنا سمجھا ہی نہیں۔ یہ تو خوش نصیبی ہے اس قوم کی کہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جواد ایس خواجہ نے جناب کوکب اقبال صاحب کی درخواست کو قابل ِ سماعت قرار دیتے ہوئے عمّال ِ حکومت سے استفسار کیا کہ قومی زبان کے عدم نفاذ کا ذمے دار کون ہے؟ عوام تو بس یہ خواہش کرسکتے ہیں کہ عدالت ِ عظمیٰ کو عمال ِ حکومت حقیقی ذمے داروں کا تعین کرکے آگاہ کردیں اور عدالت ِ عظمیٰ ذمے داروں کو پابند کردے کہ وہ قومی زبان کو نافذ کردیں۔ ورنہ قبل ازیں ایک ایسی ہی درخواست 1991ء میں عدالت ِ عالیہ لاہور میں جناب محمد اسمٰعیل قریشی ایڈووکیٹ نے دائر کی تھی جو وہیں فائلوں میں دبی ہوئی ہے اور اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی کہ اس کی زد بھی اسی طبقے پر پڑتی تھی جو قومی زبان کا نفاذ اس ملک میں نہیں چاہتا۔
ہمارے ملک اور قوم کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ دور ِ اوّل کے قائدین کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد انھیں یہاں کوئی ایسا قائد اور رہنما نہ ملا جو قوم و ملک کے عین مفاد کے مطابق قومی زبان کو اس ملک میں نافذ کرنے کی اہمیت کو سمجھتا، اس کا شعور رکھتا اور اس کے نفاذکے لیے سنجیدہ و عملی اقدامات کرتا۔ جمہوری حکومتوں نے یہ تو کیا کہ ہر آئین میں اردو کے قومی زبان ہونے اور اسے آئین کی ایک شق قرار دینے میں تامل نہ کیا اور اسے آئین کا حصہ بنایا، لیکن اسے نافذ کرنے کی بابت کسی حکومت یا حکمراں نے اپنے دور میں کوئی سنجیدہ اور مؤثر پیش قدمی کبھی نہ کی۔ صرف ضیاالحق کا دور ایک استثنائی مثال ہے کہ ’’جمہوری‘‘ حکمرانوں کے مقابلے میں اس ’’آمر‘‘ نے نہ صرف قومی زبان کی اہمیت و افادیت کا کھل کر اعتراف کیا، بلکہ اسے بہ حیثیت ذریعہ ٔ تعلیم اور بطور دفتری زبان نافذ کرنے کی ضرورت کو محسوس بھی کیا، اورہر دو کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات بھی کیے۔ سابقہ حکومتوں نے اردو کی ترقی کے لیے چند ادارے ضرور قائم کیے، لیکن کوئی ایسا ادارہ قائم نہ کیا جسے اردو کی ترقی سے بڑھ کر اردو کے نفاذ یا اس کی ترویج کا کام سپرد ہوا ہو، جیسا ضیاالحق نے اپنے دور ِ حکومت کے دوسرے ہی سال ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ قائم کرکے ملک کی تاریخ میں نہایت منفرد اور قابل ِ قدر کام کیا، جسے پچھلی ’’جمہوری‘‘ حکومت نے ختم ہی کردیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری! اسے ختم کرکے اردو کے ایک عام اور بے اثر سے ادبی ادارے کی حیثیت دے کر ’’ادارہ ٔ فروغ قومی زبان‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور جیسے اس طرح کے متعدد اداروں کے ہونے کے باوجود اس کی کوئی ضرورت باقی رہ گئی تھی! ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کا خاتمہ دراصل اس سابقہ ’’جمہوری‘‘ حکومت کا کھلا اعلان تھا کہ اس ملک میں قومی زبان کے نفاذ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ اسی سیاسی جماعت کی حکومت کا تھا جس نے ماضی میں سندھ میں قومی زبان کے نفاذ کو سرکاری سطح پر سارے صوبوں سے ہٹ کر ایک دعوت ِ مقابلہ دیا یاچیلنج کیا تھا، اور بلوچستان، صوبۂ سرحد اور پنجاب کی طرح، جنھوں نے کھلے دل سے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا، سندھ میں سرکاری زبان بننے نہ دیا۔
ضیاالحق نے مقتدرہ قومی زبان کو فروری 1981ء میں یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ایسی سفارشات مرتب کرے کہ مرحلہ وار قومی زبان سرکاری و دفتری معاملات میں رائج ہوسکے۔ چناں چہ مقتدرہ نے ہنگامی بنیادوں پر فوراً ہی ایسی سفارشات مرتب کرکے پیش کردیں کہ تین سال کی مدت میں اردو بتدریج ہر سطح پر رائج ہوجاتی (راقم الحروف اُس زمانے میں مقتدرہ سے کئی حیثیتوں سے منسلک تھا اور ان مراحل کی ترتیب کا ایک راست اور چشم دید گواہ بھی تھا)۔ ان سفارشات کو کابینہ ڈویژن کے اجلاس منعقدہ 31 اکتوبر 1981ء تمام صوبائی حکومتوں، ڈویژنوں اور وزارتوں کے نمائندوں نے اصولاً منظور بھی کرلیا اور یہ توقع پیدا ہوگئی کہ ان سفارشات کو اسی سال کابینہ کے سامنے پیش کرکے منظور کرالیا جائے گا، اور یوں قومی زبان ان سفارشات کے مطابق نافذ کردی جائے گی۔ لیکن وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ نوکر شاہی نے یہ سفارشات دو سال تک کابینہ کے ایجنڈے ہی میں شامل نہ ہونے دیں۔ بصورتِ مجبوری و اصرار بالآخر یہ ایک ایسے عاجلانہ اجلاس میں پیش کی گئیں جب صدر مملکت بیرون ِ ملک روانہ ہونے والے تھے، ان کے پاس وقت کم تھا کہ ان سفارشات پر مؤثر انداز سے فیصلے نہ ہوسکتے تھے۔ چناں چہ صرف چند شقوں پرگفتگو ہوسکی تھی کہ اجلاس ختم ہوگیا۔ اس کے بعد یہ سفارشات کبھی کابینہ میں پیش نہ کی گئیں، بلکہ یہ بھی سننے میں آیا کہ کسی ضرورت کے تحت جب ان سفارشات کو ایک بار تلاش کیاگیا تو متعلقہ دفتر میں دستیاب بھی نہ ہوئیں اور مقتدرہ کے دفتر سے منگوائی گئیں۔
یہ بات مسلمہ و عیاں رہی کہ ضیاالحق حقیقی معنوں میں قومی زبان کے نفاذ کے لیے انتہائی مخلص اور سنجیدہ تھے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ایک ’’آمر‘‘ نے ملک میں قومی زبان کو نافذ کرنے کے لیے جتنی مخلصانہ کوششیں کیں، ان سے قبل اور بعد میں کسی حکمراں نے ایسا سوچا بھی نہ تھا، عمل کیا کرتے! مقتدرہ قومی زبان کے قیام ہی پر انھوں نے اکتفا نہ کیا تھا بلکہ اس کو زیادہ سے زیادہ فعال و خودمختار بنانے کے لیے اس کی تشکیل و کارکردگی کے اعتبار سے اسے کسی وزارت کے ماتحت نہیں بلکہ راست صدر ِ مملکت کے ماتحت رکھا تھا تاکہ وہ دفتری گورکھ دھندوں سے بے نیاز رہ کر سہولت اور سرعت کے ساتھ اپنی سفارشات کو راست صدر مملکت سے منظور کرواکے نفاذ کے قابل بنادے۔ ضیاالحق کو قومی تقاضوں کے تحت قومی زبان کے نفاذ سے اس حد تک دل چسپی تھی کہ مقتدرہ کی سفارشات کے ترتیب پانے کے عرصے ہی میں انھوں نے اپنے ماتحت اداروں کو ہدایت کردی تھی کہ وہ اپنے معاملات زیادہ سے زیادہ قومی زبان میں انجام دیں، اور خود بھی اردو کو استعمال کرنے کا عملی مظاہرہ کرکے اپنے افسران کے اس احساس ِ کمتری کے لیے ایک مثال قائم کی کہ وہ انگریزی زبان پر انحصار چھوڑ دیں۔ انھوں نے صرف ملکی اور قومی سطح پر نہیں بلکہ اقوام ِ متحدہ، چین اور کیوبا وغیرہ میں اردو زبان میں تقریریں کرکے اپنی قومی زبان کو صرف قومی نہیں، بین الاقوامی حیثیت بھی دے دی۔ مقتدرہ نے بھی اس عرصے میں، اس کے اوّلین صدر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور معتمد میجر آفتاب حسن کے اخلاص اور سنجیدگی کے نتیجے میں (بعد کے تمام صدور کی طرح محض عام سی سطحی و ادبی کتابیں چھاپنے کے بجائے، جس میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی انگریزی اردو لغت یا اس طرح کی اِکا دُکا قدیم فرہنگیں ایک استثنا ہیں جو دیگر ادوار میں شائع ہوئیں) صرف تین سال کی مدت میں اردو کے نفاذ کے لیے سفارشات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ اردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے تمام ضروری مواد، فرہنگیں، اصطلاحات اور لغات یکجا اور فراہم کرنے کی کامیاب کوشش کرلی، اور اردو کا ٹائپ رائٹر بھی بنالیا جو اتنی تعداد میں بن گیا کہ کارخانے میں رکھنے کی جگہ نہ رہی۔
ضیا الحق کے بعد کسی حکمراں نے اس جانب نہ کوئی توجہ دی، نہ کسی میں ایسا جذبہ و شعور ہی کبھی دیکھنے میں آیا کہ وہ ملک میں قومی زبان کے نفاذ کے لیے کبھی سوچتے بھی ہوں، سنجیدہ اور فعال ہونا تو دور کی بات ہے! انھیں تو قومی تقاضوں، قومی ضرورتوں اور ملک کی ترقی و خوش حالی سے صرف زبانی طور پر اور اعلانات کی حد تک دل چسپی نظر آتی ہے، قومی زبان کا نفاذ ان کی کبھی ترجیح نہیں رہی۔ ملک میں ہر طرف پھیلی بدامنی و ناانصافی اس امرکا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارے حکمراں قانون اور آئین کے تقاضوں کو بھی وہ اہمیت نہیں دیتے جو انصاف، اہلیت اور دیانت کا تابع نظام قائم کرسکے تو قومی زبان کے نفاذ کے لیے آئین کی متعلقہ شق ان کی ترجیحات میں کیوں کر شامل ہوتی؟ 1973ء کے آئین کی رو سے 15 سال کی دی گئی رعایت بھی 1988ء میں ختم ہوگئی کہ اس سال تک قومی زبان کو ملک کی ہر سطح پر رائج ہوجانا چاہیے تھا۔ اگر مقتدرہ کی دی گئی سفارشات پر عمل ہوتا تو اگست 1982ء سے اردو کے نفاذ کا سلسلہ شروع ہوتا جو اگست 1985ء تک تین سال میں مکمل ہوجاتا۔ لیکن ضیاالحق کے بعد یہ سب عزائم و امکانات قصہ ٔ پارینہ بن کر رہ گئے ہیں۔ اس خاص مقصد سے قائم کردہ ادارہ (مقتدرہ) سابقہ ’’جمہوری‘‘ حکومت کی عاقبت نااندیشی کے سبب اب ایک عام سا ادبی ادارہ بناکر رکھ دیا گیا ہے، جس کو اردو کے نفاذ اور ترویج کے لیے ضروری مواد فراہم کرنے، نئی علمی و سائنسی اور فنی اصطلاحات اور لغات و فرہنگوں کی ترتیب و تیاری اور اشاعت کے بجائے بڑی حد تک عام سے ادبی موضوعات پر سطحی اور غیر معیاری کتابیں چھاپنے پر لگا دیا گیا ہے۔ اس ادارے کا جریدہ ’’اخبار اردو‘‘، جو نفاذِ اردو کے مسائل و معاملات پر عوام کی جانب سے رہنمائی کے حصول اور اُن تک معلومات کی فراہمی کے لیے جاری کیا گیا تھا، اور جس نے آغاز ِاجراء میں، جب تک کراچی سے نکلتا رہا، اس کردار کو ادا بھی کیا، لیکن اسلام آباد منتقلی کے بعد اس ادارے نے اپنے بدلتے ہوئے کردار کی طرح اپنے مزاج کو بھی بدل ڈالاہے۔
قومی زبان کے نفاذ کے معاملے میں آئین کی خلاف ورزی کی ذمے داری تمام تر وفاقی حکومت کی ہے کہ جو اگر خود آئین کی پاس داری کرتی اور قانون پر عمل درآمد کرتی اور اسے صوبوں کے لیے بھی لازم قرار دیتی تو صوبائی حکومتوںکی مجال نہ ہوتی کہ وہ اس سے روگردانی کرسکتیں۔ قومی زبان کا نفاذ نہ ہونے ہی کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام بھی بے ثمر ہوکر رہ گیا ہے۔ اسی کی وجہ سے ہماری شرح خواندگی بھی منجمد سی ہے۔ ہم تعلیمی ترقی کے معاملے میں دیگر تمام قوموں کے مقابلے میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں، اور تعلیم سے ہمارے معاشرے کو جو فوائد حاصل ہونے چاہیے تھے اُن سے ہماری قوم محروم ہے۔ آج ہمارے ذرائع ابلاغ چاہے طباعتی ہوں یا برقی، قومی زبان سے جو بے اعتنائی برت رہے ہیں، اس کی وجہ سے نہ ہم درست املا لکھ سکتے ہیں، نہ ہمارے بچے اب اردو ہندسوں سے واقف ہیں۔ پیمرا جیسا ذمے دار ادارہ موجود ہے لیکن وہ دیکھتا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر ہم کیسی کیسی غلط زبان لکھ رہے ہیں، بول رہے ہیں اور کسی ایک زبان میں بھی اظہار کے قابل نہ رہے لیکن نہ وہ کوئی پابندی لگاتا ہے، نہ کوئی ہدایت دیتا ہے۔ جب کہ اس طرح ہمارا قومی وقار مجروح ہورہا ہے اور ہم غیر شائستگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ زبان کے استعمال میں غلط تلفظ، غلط املا اور غیر ضروری انگریزی الفاظ قومی شائستگی، تہذیب اور اخلاقیات کے منافی ہیں، اور قومی وقار کا یہ مسئلہ ہے اس لیے پیمرا کے دائرے سے باہر نہیں۔ چناں چہ پیمرا کو اس پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور ایک ضابطہ ٔ زبان و بیان بھی جاری کرکے اس کی پابندی کرانی چاہیے۔ ان سب معائب، کمزوریوں اور خامیوں کی ذمے دار وفاقی حکومت ہی ہے، جو اپنا قبلہ اگر درست کرلے تو سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے، لیکن اس کے لیے قومی احساس، جذبہ اور شعور و شوق ضروری ہیں۔ لیکن یہ سب کیوں کر ہوں؟ جب ہمارے قائدین اور رہنما ہی اہل، دیانت دار، باشعور اور قومی جذبے سے سرشار نہ ہوں تو وہ کیا کرسکتے ہیں! قوم کو اسی طرح بگاڑ ہی سکتے ہیں، اس کا سدباب نہیں کرسکتے، بگاڑ کو روک نہیں سکتے۔
عدالت ِ عظمیٰ نے جو یہ اقدام کیا ہے، اور یہ بازپرس کی ہے کہ اردو کا نفاذ کیوں نہ ہوسکا؟کون اس کا ذمے دار ہے؟ یہ سوال ان سب سوالوں سے جڑا ہوا ہے کہ گویا کون ہے جس نے آئین کے نفاذ کی طرف توجہ ہی نہ دی اور قومی زبان کے نفاذ کی آخری حد بھی 1988ء میں گزرگئی۔ آئین کی اس شق کی پامالی کس نے کی؟ پھر بعد کے تمام ادوار اور سیاسی حکومتوں نے اس شق کو نافذ کرنے کے لیے کوئی اقدام کیوں نہ کیا؟ اس طرح 1988ء کے بعد کی ہر حکومت اور ہر وزیراعظم اس آئینی روگردانی کا ذے دار اور اسی طرح سزاوار بھی ہے۔ باشعور اور دردمند عوام تو اس کا جواب جانتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن بتائے کہ جن سیاسی جماعتوں نے 1988ء کے بعد اپنے کُل دورِ اقتدار میں اردو کو نافذ نہ کرکے آئین سے رو گردانی (یا بغاوت)کی، کیا وہ سیاست اور انتخابات میں حصہ لینے اور حکومت کرنے کے اہل ہیں؟ کیا ان افسروں اور حکمرانوں سے آئین کی شق 251 (1) کا نفاذ ممکن ہے کہ جن کی کوئی زبان ہی نہیں، نہ وہ انگریزی پر پوری طرح قادر ہیں نہ انھیں اردو ہی آتی ہے، اور اپنی مادری زبان سے بھی ان کا رشتہ واجبی ہی رہ گیاہے! جب زبان سے ان کی دلچسپی کا یہ عالم ہے تو قومی زبان کی اہمیت اور قوم کو اس سے حاصل ہونے یا حاصل نہ ہونے والے فوائد سے وہ کیوں کر واقف ہوسکتے ہیں؟ اس صورت میں قوم کو یہ ڈر ہے کہ قومی زبان کے عدم ِنفاذ کے بارے میںعدالت ِ عظمیٰ کا یہ مخلصانہ اور دردمندانہ اقدام کیا لاحاصل نہ رہے گا؟ کہ جس نوکر شاہی نے، صدارتی حکم بلکہ عہد ِ ضیاالحق کے بار بار کے احکامات کے باوجود نفاذِ اردو کی شقوں کو کابینہ کے اجلاسوں میں ایجنڈے ہی پر آنے نہ دیا اور وہ بعد کے ہر دور میں بھی اس جانب سے بے نیاز رہی، وہ اِس بار عدالت ِ عظمیٰ کے روبرو حیلے بہانے کرنے سے کیا نہیں چوکے گی؟ اس لیے اب قوم کے دردمند لوگوں کی یہی درخواست ہوگی کہ اس طرح کی بازپرس کے بجائے راست وزیراعظم پر اور 1988ء کے بعد کے ہر وزیراعظم پر فرد ِ جرم عائد کی جائے کہ ان ہی کی غفلت کی وجہ سے قومی زبان نافذ نہ ہوسکی اور قوم اس کے نفاذ کی نعمتوں سے محروم رہی۔ جب تک وزیراعظم پر آئین کی دفعہ 251 (1) کو نافذ نہ کرنے پر فرد ِ جرم عائد نہ ہوگی حکومت قومی زبان کو نافذ کرنے میں سنجیدہ نہ ہوگی۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ سزاؤں کے رائج نہ ہونے کی وجہ سے ہی ملک مسائل اور مصائب کا شکار ہے اور قوم حقیقی ترقی اور فلاحی معاشرے کے قیام سے محروم ہے۔
عدالت ِ عظمیٰ کے اولاً5 جون 2015ء کے اجلاس میں اور پھر 8 جولائی کے اجلاس میں بالآخر بادل ِ ناخواستہ حکومت کی جانب سے عدالت ِ عظمیٰ کو یقین دلایاگیا اور بہت سے وعدے وعید کیے گئے اور ان اقدامات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ جلد ہی اردو کو نافذ کردیا جائے گا، اور اس سلسلے میں اقدامات کا آغاز ایک سرکاری خط تمام محکموں کو جاری کرکے کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے امور اردو میں انجام دیںاور سرکاری احکامات اردو میں جاری کریں، اجلاسوں کا ایجنڈا اور روداد اردو میں تحریر کریں اور اس ضمن میں ایچ ای سی سے معاونت طلب کریں۔ ان احکامات کے تحت ملازمتوں کے سولہویں گریڈ تک تمام امتحانات اردو میں ہوں گے۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ سول سروس کے امتحانات انگریزی ہی میں ہوں گے جو نوکر شاہی کی زبان ہے۔ یہیں ظاہر ہوجاتا ہے کہ حکومت اردو کے نفاذ میں سنجیدہ نہیں، کیوں کہ ملک کی نوکر شاہی ہی دراصل اردو کے نفاذ کے راستے میں شروع دن سے رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ ملک میں اردو نافذ ہو۔ اگر اردو نافذ ہوگی تو ان کے بچوں کا کیا بنے گا جو انگریزی ذریعۂ تعلیم کے اداروں میں یہاں یا بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں اور مستقبل میں حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ اس لحاظ سے جب تک سول سروس کے امتحانات اردو میں نہیں ہوں گے اُس وقت تک کالے انگریز ہی حکومت کا انتظام جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے سہارے سنبھالے رہیں گے اور درمیانہ طبقہ اقتدار میں کبھی نہ آسکے گا۔ حکومت کی اردو کے نفاذ میں غیر سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے جو اردو کے نفاذ کے ذمے دار ہیں، ایک معاصر صحافی سے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے رونا رویا کہ اردو میں اچھی لغت موجود نہیں۔ اس بدنصیب افسر کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اردو میں ہر علمی، فنی، اور سائنسی ضرورت کے مطابق عمدہ لغات کی کمی نہیں، ہر علم اور ہر شعبے کی اصطلاحات تک کے ترجمے اردو میں موجود ہیں، اور تازہ تر اصطلاحات کے ترجمے کروانا کچھ مشکل نہیں۔ اب نہیں ستّر اسّی سال سے ایم بی بی ایس، انجینئرنگ اور تمام مضامین کی اعلیٰ سطحی تعلیم کامیابی سے اردو میں دی جاتی رہی ہے اور اردو میں ڈاکٹری اور انجینئری کرنے والوں نے دنیا بھر میں اپنا نام بھی پیدا کیاہے اور ملک و قوم کی خدمت بھی بے مثال کی ہے۔ مشکل سے ایسی ایک آدھ فیصد اصطلاحات ہوں گی جن کے ترجموں کی ضرورت ہوگی، جب کہ ان ترجموں کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے، رکے گا نہیں۔ اس طرح کے افسروں کی موجودگی میں یہ بعید نہیں کہ عدالت ِ عظمیٰ کی گرفت کے باوجود حکومت اردو کے نفاذ کو ٹالتی رہے اور بالآخر ماضی کی طرح یہ معاملہ رفت گزشت ہوجائے، جیسا کہ 1982ء سے اب تک ہوتا آیاہے۔
پچھلی حکومت نے جو وعدے وعید عدالت ِ عظمیٰ کے سامنے 5جون 2015ء اور 8 جولائی کے اجلاس میں کیے تھے، ایسے وعدے ماضی میں ضیاالحق کے زمانے میں نوکر شاہی بار بارکرتی رہی ہے اور ضیاالحق کو اردو کے نفاذ کا یقین دلاتی رہی ہے، لیکن عمل اور نتیجہ قوم کے سامنے ہے۔ اس لیے سپریم کورٹ کو بھی حکومت کے ان وعدوں کی پاس داری و عمل درآمد پر وقتاً فوقتاً نظر ڈالتے رہنا چاہیے تھا جو نہ ہوسکا۔ بلکہ اپنی نگرانی میں ایک مجلس اس مقصد سے قائم کرنا چاہیے تھی جو یہ دیکھتی رہے کہ حکومت اپنے وعدوں پر عمل کرتی ہے یا نہیں کرتی۔ وعدہ خلافی کرتی ہے تو اس کی سرزنش ہونی چاہیے، اور قومی زبان کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرتی رہے۔ پھر اردو کے حقیقی نفاذ کا مظاہرہ اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ بالجبر سڑکوں اور راستوں پر ہدایات اور دکانوں کے نام اردو میں نہ لکھے جائیں اور انگریزی کے سائن بورڈ ہٹ نہ جائیں۔ اس مقصد میں کامیابی کے لیے یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ جو اشتہارات یا سائن بورڈ انگریزی میں ہوں اُن پر اضافی ٹیکس لگایا جائے، اور جو اردو میں ہوں اُن پر ٹیکس کم کردیا جائے۔
اب یہ سارا بار اور ذمے داری واقعتاً موجودہ حکومت پر ہے، لیکن اس حکومت کے آغاز ہی سے قومی زبان سے اس کی جو بے نیازی اور لاتعلقی نمایاں ہے اسے دیکھتے ہوئے اس سے کون پُرامید رہے گا اور قومی زبان کے نفاذ کاامکان اس حکومت سے کیسے منسوب رہ سکے گا! بس اب دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حکومت کو قومی زبان اور اس کے نفاذ کے تعلق سے سنجیدگی اور مستعدی عطا کرے کہ قوم اس کے نفاذ کی برکتوں سے مستفید ہوسکے، اور یوں تعلیم و معیشت اور معاشرت میں بھی حقیقی معنوں میں ترقی کرسکے جو قومی زبان کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں۔