تبصرہ نگار: مولانا عبدالحق ہاشمی
امیر جماعت اسلامی صوبہ بلوچستان
حافظ محمد ادریس کا پسندیدہ موضوع سیرتِ نبویؐ اور سیرتِ صحابہؓ ہے۔ اس موضوع پر انھوں نے زمانی ترتیب سے ہٹ کر پہلے مدنی دورِ نبویؐ پر اپنی کتاب ’’رسولِ رحمتؐ تلواروں کے سائے میں‘‘ مرتب کی، جو پانچ جلدوں میں چھپ چکی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے سیرتِ پاک کے مکی دور پر کام شروع کیا، اور ماشاء اللہ ’’رسولِ رحمتؐ مکہ کی وادیوں میں‘‘ کے موضوع پر دو جلدوں میں یہ کام مکمل کردیا ہے۔ میرے لیے یہ اعزاز ہے کہ میں اس کارِخیر کے تعارف میں اپنی اس تحریر سے شرکت کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کی کاوشوں کو شرفِ قبولیت بخشے۔
سیرت النبیؐ کی جولان گاہ اگرچہ نثری ادب کی ایک صنف ہے، مگر اس کی حدود لامتناہی اور اس کا فیضان اتنا بے کراں ہے کہ اس میں غوطہ زن ہونے والا کبھی خالی دامن نہیں لوٹتا، بلکہ اس بحر کی غواصی میں اسے ان گنت دُرِ نایاب اور گُہرہائے بے مثال ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ سیرت کی یہ فیاضی دراصل اس منصبِ نبوت کا عطیہ ہے جو کسی انسان کی حرکات وسکنات اور الفاظ واعمال کو ایک معجزانہ بلندی تک پہنچا دیتا ہے۔ اس بات کی یہی دلیل کیا کافی نہیں کہ سن دس ہجری میں رحلتِ نبیؐ سے لے کر گزشتہ ڈیڑھ ہزار برس میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر پیرایۂ نظم میں نعت ومنقبت اور قصیدہ ومدح کی شکل میں، اور پیرایۂ نثر میں قصص وسیرت کی صورت میں طویل ومختصر ہر طرح کا علمی شہ پارہ عالم ِوجود میں آچکا ہے، مگر ہر ایک کی خوشبو اور عطر بیزی دوسرے سے مختلف ہے۔ کوئی نکتہ داں قاری کسی ایک سے بھی مستغنی نہیں ہوسکتا، اور نہ اس کی تشنگی کبھی کامل سیرابی میں بدل سکتی ہے۔
اس اعتبار سے اس میدان میں جولانیِ قلم کے جتنے امکانات واضح ہوتے ہیں وہیں نظرِ انتخاب اور نکتہ رسی کے لحاظ سے مسئولیت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے، مگر زیر نظر کتاب کے ابواب وعناوین اور فکری مباحث کو دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صاحبِ کتاب نے یہ نازک ذمہ داری بہت خوبی سے نبھائی ہے، اور وہ ایک ماہر شہسوار کی مانند سیرت نگاری کے اس میدان سے سرخرو ہوکر نکلے ہیں۔ مصنف محترم جناب حافظ محمدادریس صاحب کسی تعارف کے نیازمند نہیں۔ ان کا رہوارِ قلم اصنافِ ادب کی ہر شاخ پر یکساں سبک رفتاری سے چلتا ہے۔ افسانوی ادب سے لے کر سفرناموں، اور زنداں ناموں سے لے کر یادِ رفتگاں تک ہر صنفِ ادب میں انھوں نے قلم وقرطاس کا خوب استعمال کیا ہے۔ وہ ایک صاحبِ فکر ادیب، ایک معلم اور خطیب کی حیثیت سے اپنا جداگانہ مقام رکھتے ہیں۔ سیرت النبیؐ پر مصنف کی یہ نادر تصنیف اس مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ گلستانِ رسالت کے ہزارہا خوش رنگ پھولوں اور معطر فضاؤں سے ایسے گل وخوشبو کو چن کر لائے ہیں جو ہر چشم ونگاہ کو اچھوتے اور مشامِ جاں کو تازہ وروح پرور معلوم ہوتے ہیں۔
زیرنظر کاوش دراصل مکی اسوۂ رسولؐ پر لکھی جانے والی مصنف کی کتاب ’’رسولِ رحمتؐ مکہ کی وادیوں میں‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ ہے، جسے مصنف نے ہجرتِ مدینہ اور اس کے متصل چند بنیادی اور اہم واقعات کا ذکر کرکے اختتام تک پہنچا دیا ہے۔ اس طرح یہ کتاب تحریر کی زمانی ترتیب سے قطع نظر ان پانچ جلدوں کا تکملہ قرار پاتی ہے جو مصنف نے مدنی اسوۂ رسولؐ کے ضمن میں تحریر کی تھیں، اور جو ’’رسولِ رحمتؐ تلواروں کے سائے میں‘‘ کے عنوان سے چھپ کر قارئین کے درمیان شرفِ قبولیت پا چکی ہیں۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی جامعیت، دل آویزی اور جمالیاتی تنّوع کا یہ عالم ہے کہ اہلِ علم نے آپؐ کی زندگی کے متعدد پہلوؤں پر الگ الگ سیرت نگاری کی نایاب کاوشیں کی ہیں۔ آپؐ کی عادات وخصائل پر توجہ ہوئی تو امام ابوعیسیٰ ترمذیؒ اور امام جلال الدین سیوطیؒ کی کتب ’’الشمائل‘‘ وجود میں آئیں، معجزاتِ نبوی پر نظر ٹھیری تو امام ابوبکر بیہقیؒ اور امام ابونعیم اصفہانیؒ کی ’’دلائل النبوۃ‘‘ جیسی شاہکار کتابیں منصہ شہود پر طلوع ہوئیں۔ امت پر عائد نبیؐ کے حقوق کی وضاحت ضروری قرار پائی تو امام قاضی عیاضؒ کی مشہورِ زمانہ تالیف ’’الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ‘ جیسی عظیم تصنیف منظر پر نمودار ہوئی، اور جب عملی زندگی میں نبویؐ آداب واطوار متعارف کرانے کا موقع آیا تو امام ابن قیم الجوزیہ کی نادر زمانہ علمی دستاویز ’’زادالمعادفی ہدی خیرالعباد‘‘ لوگوں سے داد وصول کرتی رہی۔ اسی طرح جب جنگ وجہاد اور صلح وامان کے قوانین تک بات پہنچی تو محمد بن عمر واقدیؒ اور ابن اسحاق کی ’’کتاب المغازی‘‘ نے تاریخ نگاروں کو فیض یاب کیا۔ ان سب عنوانات پر جامعیت کے ساتھ سیرتِ مطہرہ کا تذکرہ امام محمد بن جریر طبری کی ’’تاریخ طبری‘‘، امام ابن کثیر کی ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘، ابن ہشام کی ’’السیرۃ النبویۃ‘‘، ابن سعد کی ’’طبقات الکبریٰ‘‘ اور دیگر ائمہ تاریخ وسیرت کی تصنیفات کی صورت میں ایک عظیم سرمایہ امت کے دامن میں موجود ہے۔ نہیں معلوم کہ مستقبل میں سیرتی ادب کے اور کتنے شہ پارے عالم وجود میں آکر سیدالکونین صلی اللہ علیہ وسلم کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہیں گے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا مکی زمانہ قبل از نبوت کے واقعات پر بھی مشتمل ہے۔ یہ عرصہ بھی نُدرت وکمال اور خصائلِ فطرت سے معمور نظر آتا ہے، اس دوران آپؐ کی شخصیت صدق وصفا اور اخلاق ووفا کا اعلیٰ نمونہ بن کر سامنے آتی ہے۔ اکثر سیرت نگار اس عرصے کو محض عقیدت کی نظر سے دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور بعد از بعثت کا مکی زمانہ ابتلا وامتحان اور اذیت وعذاب کے غم ناک تذکرے، خفیہ دعوت اور تنہائی کی عبادات کا عنصر لیے سامنے آتا ہے۔ چنانچہ واقعاتی بہاؤ میں تجزیہ و تحلیل اور اخذ واستنباط کے وہ مباحث جو اس مکی دور کا حصہ رہے، ان پر کماحقہٗ نظر نہیں جاتی، نہ ہی اس دور کے صنم پرستانہ کثیر قومی سماج میں معدودے چند دعوتی کرداروں سے آج کے تناظر میں تفصیلی استفادے کا اہتمام ہوپاتا ہے۔ علاوہ بریں اختلافِ دین کے ساتھ سماجی اشتراکِ عمل، قبائلی سیاست کاری میں شرکت، حمایت وامان کے علاقائی اصول، اہلِ شرک اور دیگر آسمانی مذاہب کے مابین تفاوت اور کسی اکثریتی معاشرے میں اقلیتی آداب و رسوم، ایسے نکات ہیں جو اہلِ تحقیق کی خصوصی توجہ کے محتاج ہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ قیام مکہ کو جداگانہ طور پر زیر تحریر لانے میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ مذکورہ مباحث کسی نہ کسی طور سینۂ قرطاس پر ثبت ہوجاتے ہیں۔
زیر نظر کتاب کی جلد اول میں خصوصاً اور جلد دوم میں عمومی طور پر ان تمام موضوعات پر مستند حوالوں سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان شاء اللہ قارئین کو اندازہ ہوگا کہ ان کے زیر مطالعہ کتاب معلومات کی جامعیت، اہم موضوعات کے احاطے اور حسنِ ترتیب کے لحاظ سے ایک بہترین اور مفید کوشش ہے۔ یہ مصنف گرامی کی اس تمنائے صادق کی درست برآوری ہے جو انھوں نے مدنی دور کی تکمیل کے موقع پر کی تھی۔ ان کی اس تمنا کے ساتھ اپنے قارئین سے یہ استدعا بھی تھی کہ وہ ان کو اس کٹھن تکمیل کے لیے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ یقیناً مخلص ساتھیوں کی دعاؤں میں برکت وتاثیر ہوتی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اس کتاب کی بدولت پیغامِ سیرت ہماری زندگیوں میں عام ہوجائے اور اسوۂ رسولؐ ہی ہمارا مقتدیٰ ورہنما ٹھیرے۔ آمین