امریکی ریاست پنسلوانیا کے شہر فلاڈیلفیا کی عدالت نے بچوں کی جِلد کی معروف مصنوعات اور مختلف امراض میں استعمال ہونے والی ادویہ بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنی جانسن اینڈ جانسن کو متاثرہ مریض کو 8 ارب امریکی ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ امریکی عدالت کی جانب سے مریض کو 8 ارب ڈالر کی ادائیگی کے حکم پر جانسن اینڈ جانسن نے فیصلے کو ’غیر حقیقی‘ قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت نے نفسیاتی امراض میں استعمال ہونے والی دوا ’ریسپیریڈون‘ کے حوالے سے حقائق کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے بہت زیادہ جرمانہ سنایا ہے۔ قبل ازیں امریکی عدالت میں آئٹزم کے مریض 26 سالہ نکولس مری نے مقدمہ دائر کیا تھا کہ وہ جانسن اینڈ جانسن کی دوا ’ریسپیریڈون‘ 2003ء سے استعمال کررہے ہیں جس کی وجہ سے اُن کی جسمانی ساخت میں تبدیلی رونما ہوئی اور ان کے بریسٹ بڑھ گئے۔ کمپنی نے اس مضر اثر سے متعلق انتباہ جاری نہیں کیا تھا۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ متاثرہ مریض نکولس مری نے اس سے قبل بھی جانسن اینڈ جانسن کے خلاف 2015ء میں ایک مقدمہ جیتا تھا جس میں اُن کو کمپنی کی جانب سے 6 لاکھ 80 ہزار امریکی ڈالر جرمانے کی رقم ادا کی گئی تھی۔ امریکی عدالتوں میں ’جانسن اینڈ جانسن‘ کے خلاف ہزاروں درخواستیں زیر التوا ہیں۔
2016ء میں ایک امریکی خاتون نے جانسن اینڈ جانسن کے پائوڈر کے استعمال سے کینسر ہونے پر مقدمہ دائر کیا تھا، جس پر عدالت کے حکم پر متاثرہ خاتون کو کمپنی نے 5 کروڑ ڈالر جرمانہ ادا کیا تھا۔ اسی طرح 2018ء میں بھی سینٹ لوئس کی ایک عدالت نے 5 ارب ڈالر، اور اوکلوہاما کی عدالت نے 57 کروڑ ڈالر سے زائد کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ واضح رہے کہ 1889ء میں یعنی 130 سال قبل بننے والی کمپنی جانسن اینڈ جانسن کی مصنوعات 200 ممالک میں فروخت ہوتی ہیں اور دنیا بھر میں کمپنی کے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار ہے، جب کہ کمپنی کی سالانہ کمائی 80 ارب ڈالر سے زائد ہے۔
پاکستان میں الیکٹرک موٹرسائیکلوں کی تیاری کا عمل شروع
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں دو اداروں نے باہمی اشتراک سے پاکستان میں برقی موٹرسائیکلوں کی تیاری کا عمل شروع کردیا ہے۔ ان موٹرسائیکلوں کو مارکیٹ میں پہلے سے مقبول جاپانی ڈیزائن کی طرز پر تیار کیا جارہا ہے، یعنی ان کی شکل اور ڈیزائن تو عام موٹرسائیکلوں جیسا ہی ہے، بس پیٹرول انجن کی جگہ ان میں الیکٹرک انجن لگایا گیا ہے۔ کمپنی نے پیٹرول سے چلنے والی روایتی موٹر سائیکل کے پہلے سے موجود ایکو سسٹم سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ انھوں نے مقامی سطح پر الیکٹرک بیٹری سسٹم تیار کیا ہے۔ الیکٹرک موٹر سائیکل کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں گیئر، کک، گیئر لیور، موبل آئل اور چین گراری سیٹ کچھ بھی نہیں ہے۔ تیار کردہ الیکٹرک بائیک کی رینج 70 کلومیٹر تک ہے اور اسے گھر یا دفتر میں پانچ گھنٹے میں چارج کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس موٹرسائیکل کی قیمت فی الحال 88 ہزار روپے رکھی گئی ہے تاہم اسے کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی پیٹرول سے چلنے والی موٹر سائیکل کو الیکٹرک موٹر سائیکل میں تبدیل کرنے کا خواہش مند ہے تو اب یہ بھی ممکن ہے۔ الیکٹرک موٹر سائیکل کے استعمال سے نہ صرف پیٹرول اور دیگر اخراجات سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ یہ ماحول دوست بھی ہے۔ عام (پیٹرول) بائیک اگر 50 کلومیٹر ایوریج دیتی ہے تو اس کا ماہانہ خرچہ تقریباً چار ہزار آئے گا، لیکن الیکٹرک بائیک کا خرچہ صرف 500 روپے آئے گا۔
ماں باپ کی اولاد سے جھوٹ بولنے کی عادت بچے کو ناکام بناسکتی ہے
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کامیاب انسان بنیں اور بڑے ہوکر عملی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور بدلتے ہوئے حالات کا سامنا کرنے کے قابل ہوں، تو شخصیت سازی کی دوسری تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اُن سے جھوٹ بھی نہ بولیے۔
’’سوجاؤ ورنہ ’بھاؤ‘ آکر تمہیں کھا جائے گا‘‘، یہ اور اس طرح کے نہ جانے کتنے ہی جھوٹے جملے نہ صرف ہمارے یہاں بلکہ دنیا بھر میں چھوٹے بچوں کو ڈرا کر خاموش کروانے یا اپنی مرضی کے مطابق کام کروانے میں بکثرت استعمال کیے جاتے ہیں۔ سنگاپور کے ماہرینِ نفسیات نے دریافت کیا ہے کہ اپنے والدین سے بار بار جھوٹ سننے والے بچوں کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں جو بعد کی عمر میں ان بچوں میں مشکل حالات سے فرار کی سوچ کو جنم دیتے ہیں، جبکہ وہ اپنی زندگی میں مشکلات سے نبرد آزما ہونے اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرنے میں بھی شدید دشواری کا سامنا کرتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ وہ بڑے ہوکر اپنے والدین سے بھی بات بات پر جھوٹ بولنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔
وہ نوجوان جن کے والدین ان کے بچپن میں ان سے جھوٹ بولا کرتے تھے، جب بڑے ہوئے تو انہوں نے بھی اپنے والدین سے بات بات پر جھوٹ بولنا شروع کردیا۔
لیکن زیادہ تشویش ناک بات یہ سامنے آئی کہ بچپن میں والدین سے جھوٹ سننے والے نوجوانوں کو اپنی عملی، پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں بھی ایسے کئی مسائل کا سامنا تھا جو سچ بولنے والے ماں باپ کے بچوں کو درپیش نہیں تھے۔ مثلاً یہ کہ ان کے مزاج میں خودغرضی، موقع پرستی، بے اعتدالی اور بے ڈھنگے پن کے علاوہ، احساسِ جرم یا احساسِ ندامت کا بھی فقدان دیکھا گیا۔ بہ الفاظِ دیگر انہیں اپنی ناکامیوں پر شکایت ضرور تھی لیکن انہیں اپنی غلطیوں کا احساس نہیں تھا۔