کشمیر میں انسانی المیہ اور عالمی بے حسی

آج کشمیری دو ماہ سے زائد عرصے سے دنیا کی سب سے بڑی بھارتی جیل میں قید ہیں۔ یہ واحد جیل ہے جس میں کرفیو کی وجہ سے ایک دن کے شیر خوار بچے سے لے کر 80 سال کے بزرگ تک قید ہیں۔ 80 لاکھ لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ ان کا جرم صرف آزادی کا مطالبہ اور مسلمان ہونا ہے۔آج عالمِ کفر مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑا ہے جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ پوری دنیا میں مسلم ممالک میں مسلمان ہی مر رہے ہیں، کفر صرف تماشا دیکھ رہا ہے اور پوائنٹ اسکورنگ کررہا ہے۔ مسلمان حکمرانوں کی بے حسی انتہا پر ہے۔ ان کی مثال آج کل نمازِ جنازہ میں شامل ہونے والے لوگوں کی طرح ہے۔ چند مخلص افراد کے سوا نمازِ جنازہ میں شامل ہونے والے سمجھتے ہیں کہ اس کو مرنا تھا، مرگیا۔ جنازے کے بعد وہی دنیاوی باتیں اور ایک دوسرے کو پچھاڑنے اور مال کمانے کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں۔ مسلمان حکمران بھی یہ خیال کررہے ہیں کہ آگ اس کے گھر میں لگی ہے، ہم تو محفوظ ہیں۔ کفار کی انسانی ہمدردی کا پیمانہ بھی عجیب ہے۔ افغانستان میں ایک شیر طالبان کی قید میں تھا جو بیمار تھا، پوری دنیا میں شور مچ گیا کہ طالبان نے شیر کو بھوکا رکھ کر مارنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس معاملے پر کئی این جی اوز میدان میں آگئیں۔ آج کشمیر میں لاکھوں انسان ان بے حس این جی اوز کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے زبان سے تو اچھی تقریریں کی ہیں مگر عملی کام کچھ نہیں کیا۔ کم از کم مظلوم کشمیریوں کی مدد کے لیے کوئی خوراک، دوائی و دیگر چیزیں بھجوانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی، مگر افسوس کہ ہم اُن کو مرتے دیکھ رہے ہیں، آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کرتے۔ اس وقت صرف جماعت اسلامی میدان میں ہے، اس نے پورے ملک میں کشمیر کا مقدمہ پیش کیا ہوا ہے، اور حکمرانوں کی بے حسی کو بھی نمایاں کیا جارہا ہے۔
…. سرفراز حسین….

ریٹائرمنٹ اوراس کی مشکلات

زندگی تبدیلی کا دوسرا نام ہے۔ اس تبدیلی کا دارومدار قدرت پر ہوتا ہے۔ عمر اس تبدیلی کا پیمانہ ہے جس پر انسان کی ساخت کو ڈھالا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کے تین جزو ہیں: بچپن، جوانی اور بڑھاپا ۔ بچپن انتہائی پُرسکون جزو ہے جس میں انسان پریشانیوں سے دور اپنی دھن میں مگن رہتا ہے، جوانی زندگی کا وہ جزو ہے جس میں نفسا نفسی اور نشیب و فراز ہوتے ہیں، اور بڑھاپا زندگی کا انتہائی کمزور جزو ہے جس میں پریشانیوں اور بیماریوں کی زد میں انسان اپنی زندگی کے آخری دن گزارتا ہے۔
اسلام میں بزرگوں سے حُسنِ سلوک کا درس جا بجا ملتا ہے۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’وہ میری امت میں سے نہیں جو مسلمانوں کے بڑے کی تعظیم اور چھوٹے پر رحم نہ کرے اور عالم کا حق نہ پہنچائے۔‘‘ (فتاویٰ رذویہ)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کیا اور بڑوں کی تعظیم نہیں کی وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو جوان کسی بوڑھے کی سن رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔‘‘
بچپن میں گڈے، گڑیا کے ساتھ کھیلتے ہوئے انسان جوانی کی طرف جب قدم بڑھاتا ہے تو خود کو مستحکم بنانے کے لیے وہ مختلف نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔ مالی استحکام کے لیے وہ زندگی کے اس حصے میں تگ و دو کرتا ہے اور پھر ایک دن اسے سرکاری ملازمت ملتی ہے۔ بظاہر سرکاری ملازمت کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سب سے بڑا فائدہ ریٹائرمنٹ پر پنشن کی وصولی ہے۔ وہ اپنی بڑھاپے کی زندگی کو آسان کرنے کے لیے اپنی ملازمت میں آنے والی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہوئے زندگی کے مراحل طے کرتا ہے۔ کبھی اس کا ٹرانسفر کردیا جاتا ہے، کبھی اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، کبھی تعریفوں کے انبار لگا دیے جاتے ہیں، اور کبھی اسے مایوسی بیماری کے راستے تک چھوڑ آتی ہے۔ عمر انسٹھ برس ہوتی ہے تو وہ ریٹائر ہونے کے انتظامات شروع کردیتا ہے، اور یہاں اسے اپنی ملازمت کا ثبوت دینا ہوتا ہے۔ کبھی انکم ٹیکس کے دفتر کے دھکے، کبھی جی پی فنڈ کی قطاریں، کبھی بینک اکائونٹ کے لیے بینک کے چکر، اور کبھی اندرونِ دفتر کارروائی کا بوجھ اس ضعیف کے کندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ عمر کے اس کمزور حصے میں اکثر لوگوں کو بیماریوں نے جکڑا ہوتا ہے۔ کمزور، ہڈیوں کا یہ ڈھانچہ اپنی ریٹائرمنٹ سے ملنے والے پیسوں سے گھر میں بیٹھی بن بیاہی بیٹی کی شادی کا خواب دیکھتا ہے۔ تپتی دھوپ میں، قطاروں میں کھڑے اردگرد جو نظر گھماتا ہے تو ہر آنکھ میں امید کی ایک کرن جھلکتی نظر آتی ہے۔ کسی کا خواب گھر بنانے کا ہوتا ہے، کسی کا خواب بچے کو پڑھانے کا ہوتا ہے، اور کسی کا خواب کاروبار کا ہوتا ہے۔
عمر ساٹھ برس ہوتی ہے، اور وہ سینئر سٹیزن کہلاتا ہے۔ مگر اس لقب تک جو محنت اس نے کی ہوتی ہے اور جن مشکلات کا سامنا وہ کرتا ہے وہ صرف وہ اور اس کا رب جانتا ہے۔ وہ بظاہر پریشانیوں کے قفس سے رہا ہوتا ہے مگر اندر ہی اندر وہ اس پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے کہ کیا اس پنشن میں گھر کے اخراجات، ادویہ کے اخراجات اور بچوں کے اخراجات پورے ہوسکیں گے؟
سینئر سٹیزن ایک ملک کے لیے خزانے کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کے تجربے سے نئے آنے والے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ ملک و قوم کی خدمت کرکے اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ یہ وہ چراغ ہے، یہ وہ ستارہ ہے، اور یہ روشنی کا وہ مینار ہے جو اپنی لو سے، اپنی چمک سے، اور اپنی روشنی سے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو راہ دکھاتا ہے۔ مگر جب اس چراغ سے بتی چھین لی جائے، اس ستارے کو گرہن لگ جائے اور اس مینار کی روشنی چھین لی جائے تو یہ اپنے نوجوانوں کو آگاہی فراہم کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔
حکومتِ وقت کو چاہیے کہ ہمارے معاشرے کے ان ستاروں کو ریٹائرمنٹ میں آسائشیں فراہم کرے تاکہ وہ اپنی چمک دمک برقرار رکھ سکیں، اور اپنی محنت و لگن سے نوجوانوں کے لیے مثال قائم کریں۔ حکومتِ وقت سے اپیل ہے کہ وہ ان کے لیے ایک باقاعدہ بیٹھک بنائے اور متعلقہ اداروں کو جلد از جلد کام ختم کرنے کا حکم دے، تاکہ ان بزرگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے، ان کی پنشن ان کو بروقت فراہم کی جائے اور انہیں ان کی ایمان داری اور دیانت داری کا پھل دیا جائے۔ بے شک انہی بزرگوں کی محنت اور قربانیوں سے ہمارا پاکستان اور ہمارا سبز ہلالی پرچم دنیا کے نقشے پر لہرا رہا ہے۔
…مار یہ سلیم…