ابوسعدی
تحریر: اُم احمد
اُم المومنین حضرت زینب بنت ِجحشؓ سے نکاح: 5 ہجری۔
حکم حجاب:5 ہجری۔
غزوہ بنو مصطلق:شعبان 5ہجری۔
تیمم کی اجازت: غزوہ بنو مصطلق کے سفر میں۔
نبیؐ کا حضرت جویریہ بنتِ حارثؓ سے نکاح: شعبان 5 ہجری (غزوہ بنو مصطلق کے بعد)۔
واقعہ افک: شعبان 5 ہجری۔
عمرہ، حدیبیہ اور صلح حدیبیہ: ذی قعدہ 6 ہجری۔
بیعت ِرضوان: صلح حدیبیہ کے موقع پر ذی عقدہ 6 ہجری۔
حضرت ماریہ قبطیہؓ سے نکاح: 6 ہجری۔
بادشاہوں اور امرا کے نام خطوط:(1)نجاشی شاہ حبش کے نام، (2) مقوقس شاہ مصر کے نام، (3) شاہ فارس خسرو پرویز کے نام، (4) قیصر شاہ روم کے نام، (5) منذربن سادی کے نام، (6) ہوذہ بن علی صاحب عامہ کے نام، (7) حارث بن ابی شمر غسانی حاکم دمشق کے نام، (8) شاہ عمان کے نام۔
حضرت میمونہ بنت ِحارثؓ سے نکاح: 7 ہجری۔
غزوہ خیبر: محرم 7 ہجری (یہودیوں کے ساتھ)
انگریز، گدھے اور گھوڑے
ایک انگریز نے حضرت شاہ عبدالعزیز سے سوال کیا: ’’شاہ صاحب ہماری قوم کے سینکڑوں آدمی جمع ہوں تو ایک ہی رنگ اور ایک ہی روپ کے نظر آئیںگے، لیکن آپ کی قوم میں کوئی کالا ہے، کوئی گورا ہے اور کوئی سانولا، اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ شاہ صاحب نے جواب دیا: ’’گدھے سب یکساں ہوتے ہیں، گھوڑے مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں‘‘۔
(ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ ، جون 2004ء)
گوتم بدھ
گوتم (563۔483ق م) کپل دستو (ہمالیہ کے دامن میں ایک چھوٹی ریاست) کے راجا شدھودن (خاندان ساکھیا) کے گھر پیدا ہوئے۔ بچپن میں ساکھیامنی، گوتم اور سدھارتھ کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ بچپن اور جوانی شاہزادوں کی طرح گزری۔ سولہ برس کے ہوئے تو راج کماری یشودھرا سے شادی ہوئی۔ انتیس برس کے ہوئے تو ایک روز ایک ضعیف، ایک مریض اور ایک جنازہ دیکھ کر متاثر ہوئے اور انسانی روح کے دکھ اور غم سے نجات کے متعلق سوچنا شروع کیا۔ اسی ذہنی کشمکش میں ایک روز نوجوان بیوی اور نومولود بچے راہوں کو گھر میں چھوڑ جنگلوں کی راہ لی۔ چھ سال کی سخت ریاضتوں کے بعد آخر کار شہر ’’گیا‘‘ (بہار) کے قریب ایک گائوں اروبلا میں بڑ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر مراقبے میں مشغول ہوگئے۔ پینتیس برس کی عمر میں نروان (عرفان) نصیب ہوا۔ اس کے بعد تبلیغ و تلقین شروع کی۔ 45 برس تک بدھ مت کی تبلیغ کی۔ ان کے پیروؤں کی تعداد بڑھتی گئی۔ نیپال میں کوشی نگر کے مقام پر وفات پائی۔ ان کا قائم کیا ہوا مذہب آج بدھ مت کہلاتا ہے۔ مہاتما بدھ کے مجسمے دنیا کے مختلف عجائب گھروں کی زینت ہیں۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
اورنگ زیب کی عمارتیں
آگرہ کا تاریخی قلعہ پہلے ہی شاہانہ رعب و جلال کی عمارت ہے۔ بادشاہ اورنگ زیب کے حکم سے وہاں پہلے ’’حصار شیر حاجی‘‘ تعمیر کی گئی، اس کے بعد قلعے کے اندر سنگِ مرمر کی ایک نہایت خوب صورت مسجد تعمیر کرنے کی ہدایت کی۔ یہ بلند و بالا مرقع جمال و وسیع مسجد 8 سال میں مکمل ہوئی اور نہایت خطیر رقم خرچ کی گئی۔
یوپی کا شہر بنارس ہندوئوں کا قدیم شہر ہے، ان ہی کی زیادہ آبادی ہے۔ مندروں کی عمارتیں کثرت سے ہیں۔ اورنگ زیب نے کچھ اچھا ہی سوچ کر شایانِ شان مسجد تعمیر کرانے کے بارے میں فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس مجوزہ مسجد کی تعمیر کی بنیاد 1672ء میں رکھ دی گئی اور معماروں نے فوراً ہی کام شروع کردیا۔ اس مسجد کے مینار خاصے بلند ہیں اور بہت دور سے نظر آتے ہیں۔ لاکھوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی یہ مسجد نہایت خوب صورت اور پائیدار ہے، لیکن اس کے مکمل ہونے میں کئی سال لگے۔ مسلمانوں میں یہ بھی ’’بادشاہی مسجد‘‘ کہلاتی ہے۔ بادشاہ اورنگ زیب کے عہد کی یادگار ہے۔
دہلی کے لال قلعے کے اندر بھی اورنگ زیب عالم گیر نے سنگ ِمرمر کی ایک خوب صورت مسجد تعمیر کرائی جو ’’موتی مسجد‘‘ کہلاتی ہے۔ اورنگ زیب نے اپنے عہد میں دہلی، متھرا، گوالیار، احمد آباد، بنگال اور کشمیر میں بھی کئی مساجد تعمیر کرائیں جو اپنے علاقوں میں رونق افزا ہیں۔
( اقبال احمد صدیقی۔ ”عمارت کار“)