مطلوب ’’جمہوریت‘‘ مطلوب لوگ

ہم جمہوری حاکمیت کے بجائے جمہوری خلافت کے قائل ہیں۔ شخصی بادشاہی ((Monarchy اور امیروں کے اقتدار اور طبقوں کی اجارہ داری کے ہم بھی اتنے ہی مخالف ہیں جتنا موجودہ زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا جمہوریت پرست ہوسکتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں تمام لوگوں کے یکساں حقوق، مساویانہ حیثیت اور کھلے مواقع پر ہمیں بھی اتنا ہی اصرار ہے جتنا مغربی جمہوریت کے کسی بڑے سے بڑے حامی کو ہوسکتا ہے۔ ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ حکومت کا انتظام اور حکمرانوں کا انتخاب تمام باشندوں کی آزادانہ مرضی اور رائے سے ہونا چاہیے۔ ہم بھی اس نظام زندگی کے سخت مخالف ہیں جس میں لوگوں کے لیے اظہارِ رائے کی آزادی، اجتماع کی آزادی اور سعیِ عمل کی آزادی نہ ہو، یا جس میں پیدائش اور نسل اور طبقات کی بنا پر بعض لوگوں کے لیے مخصوص حقوق اور بعض دوسرے لوگوں کے لیے مخصوص رکاوٹیں ہوں۔ یہ امور جو جمہوریت کا اصل جوہر (Essence) ہیں، ان میں ہماری جمہوریت اور مغربی جمہوریت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو اہلِ مغرب نے ہمیں سکھائی ہو۔ ہم اس جمہوریت کو اُس وقت سے جانتے ہیں اور دنیا کو اس کا بہترین عملی نمونہ دکھا چکے ہیں جب کہ مغربی جمہوریت پرستوں کی پیدائش میں ابھی سینکڑوں برس کی دیر تھی۔ دراصل ہمیں اس نوخیز جمہوریت سے جس چیز میں اختلاف اور نہایت سخت اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ یہ جمہور کی مطلق العنان بادشاہی کا اصول پیش کرتی ہے، اور ہم اس کو حقیقت کے اعتبار سے غلط اور نتائج کے اعتبار سے تباہ کن سمجھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ بادشاہی (Sovereignty) صرف اس کا حق ہے جس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، جو ان کی پرورش اور بالیدگی کا سامان کررہا ہے، جس کے سہارے پر ان کی اور ساری دنیا کی ہستی قائم ہے، اور جس کے زبردست قانون کی گرفت میں کائنات کی ایک ایک چیز جکڑی ہوئی ہے۔ اس کی واقعی اور حقیقی بادشاہی کے اندر جس بادشاہی کا بھی دعویٰ کیا جائے گا، خواہ ایک شخص اور ایک خاندان کی بادشاہی ہو، یا ایک قوم اور اس کے عوام کی۔۔۔ بہرحال وہ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہ ہوگا، اور اس غلط فہمی کی چوٹ کائنات کے اصل بادشاہ نہیں بلکہ اس احمق مدعی پر پڑے گی جس نے اپنی قدر خود نہ پہچانی۔ اس حقیقت میں صحیح بھی یہی ہے اور نتائج کے اعتبار سے انسان کی بھلائی بھی اسی میں ہے کہ خدا کو حاکم مان کر انسانی زندگی کا نظامِ حکومت خلافت و نیابت کے نظریے پر بنایا جائے۔ یہ خلافت بلاشبہ جمہوری ہونی چاہیے۔ جمہور کی رائے ہی سے حکومت کے امیر یا ناظم اعلیٰ کا انتخاب ہونا چاہیے۔ انہی کی رائے سے اہلِ شوریٰ منتخب ہونے چاہئیں۔ انہی کے مشورے سے حکومت کے سارے انتظامات چلنے چاہئیں۔ ان کو تنقید و احتساب کا کھلا حق ہونا چاہیے۔ لیکن یہ سب کچھ اس احساس و شعور کے ساتھ ہونا چاہیے کہ ملک خدا کا ہے، ہم مالک نہیں بلکہ نائب ہیں، اور ہمیں اپنے ہر کام کا حساب اصل مالک کو دینا ہے۔ نیز وہ اخلاقی اصول اور وہ قانونی احکام اور حدود اپنی جگہ اٹل ہونے چاہئیں جو خدا نے ہماری زندگی کے لیے مقر کردیے ہیں۔ ہماری پارلیمنٹ کا اساسی نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ
(1) جن امور میں خدا نے ہمیں ہدایات دی ہیں ان میں ہم قانون سازی نہیں کریں گے بلکہ اپنی ضروریات کے لیے خدا کی ہدایات سے تفصیلی قوانین اخذ کریں گے۔
(2)اور جن امور میں خدا نے ہدایات نہیں دی ہیں ان میں ہم یہ سمجھیں گے کہ خدا نے خود ہی ہم کو آزادیِ عمل بخشی ہے، اس لیے صرف انہی امور میں ہم باہمی مشورے سے قوانین بنائیں گے۔ مگر یہ قوانین لازماً اس مجموعی سانچے کے مزاج سے مطابقت رکھنے والے ہوں جو خدا کی اصولی ہدایات نے ہمارے لیے بنادیا ہے۔
پھر یہ ضروری ہے کہ اس پورے نظام تمدن و سیاست کی کارفرمائی اور اس کا انتظام اُن لوگوں کے سپرد ہو جو خدا سے ڈرنے والے، اس کی اطاعت کرنے والے، اور ہر کام میں اس کی رضا چاہنے والے ہوں، جن کی زندگی گواہ ہوکہ وہ خدا کے حضور اپنی پیشی اور جواب دہی کا یقین رکھتے ہیں، جن کی پبلک اور پرائیویٹ دونوں قسم کی زندگیوں سے یہ شہادت ملے کہ وہ بے لگام گھوڑے کی طرح نہیں ہیں جو ہر کھیت میں پھرتا اور ہر حد کو پھاندتا پھرتا ہو، بلکہ ایک الٰہی ضابطے کی رسّی سے بندھے ہوئے اور ایک خدا پرستی کے کھونٹے سے مربوط ہیں، اور ان کی ساری چلت پھرت اسی حد تک محدود ہے جہاں تک وہ رسّی انہیں جانے دیتی ہے۔
(سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

احکام ترے حق ہیں، مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
مدت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر
کر دے اسے اب چاند کی غاروں میں نظر بند
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویشِِ خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی
گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ ابلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

(1)بیشک تیرے حکم بالکل سچے ہیں۔ تُو نے اپنی کتابِ پاک میں جو کچھ فرمایا، وہ ہر لحاظ سے برحق ہے، لیکن ہمارے ان عالموں نے جو قرآن پاک کی تفسیر کرتے ہیں، اس کی آیتوں کو تاویلوں اور پیچیدگیوں سے پاژند بناکر رکھ دیاہے، یعنی خدائی احکام کی حیثیت ہی بدل کر کچھ سے کچھ بنادی ہے۔
(2)تُو نے نیک عمل والوں کو بہشت عطا کرنے کا جو وعدہ فرمایا ہے، اس میں بھی کلام نہیں، لیکن بہشت کو دیکھا کس نے ہے؟ وہ تو ابھی تک پردۂ غیب میں چھپی ہوئی ہے۔ یورپ کو جاکر دیکھیں تو اس کی بستی بہشت کا نمونہ بنی ہوئی نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ظاہر بیں یورپ کی بہشت کے شیدائی بن رہے ہیں۔
(3) میرے بلند خیالات مدت سے آسمانوں کی وسعت میں آوارہ و سرگرداں پھر رہے ہیں۔ کسی نے انہیں اب تک قبول نہ کیا اور ان سے انسانوں کی زندگی میں کوئی خوش آئند تغیر پیدا نہ ہوا۔ بہتر یہ ہے کہ اب تُو ان خیالات کو چاند کے غاروں میں نظربند کردے۔
(4)قدرت نے مجھے فرشتوں کے سے جوہر عطا کیے ہیں۔ میں اگرچہ خاکی ہوں اور عام انسانوں کی طرح خاک ہی سے پیدا ہوا، لیکن مجھے اس خاکی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔
(5)میں وہ درویش ہوں، جو تیرے عشق کی شراب کے نشے میں چُور ہے۔ مجھے نہ مشرق سے تعلق ہے، نہ مغرب سے، نہ دِلّی کو اپنا وطن سمجھتا ہوں، نہ اصفہان کو اور نہ سمرقند کو۔ یعنی تیرے عشق کی مستی نے مجھے اس دنیا کے ہر تعلق سے بے نیاز کردیا ہے۔
(6)میں وہی بات زبان پر لاتا ہوں جو میرے نزدیک سچی ہو۔ نہ میں مسجد کا مُلّا ہوں جسے آج کل کے لوگ نادان اور احمق سمجھتے ہیں۔ نہ میں نے موجودہ زمانے کی تہذیب کا کوئی اثر قبول کیا ہے، یعنی نہ میرے خیالات دقیانوسی ہیں اور نہ نئی روشنی کا علَم بردار ہوں۔
(7) مجھ سے اپنے بھی ناراض ہیں اور بیگانے بھی۔ یعنی مسلمان بھی مجھ سے بگڑے بیٹھے ہیں اور غیر مسلم بھی، اس لیے کہ موجودہ زمانے میں وہی شخص سب کو راضی کرسکتا ہے جو جھوٹ بولے اور ریاکاری سے کام لے۔ میری کیفیت یہ ہے کہ میں ہلاک کردینے والے زہر کو زہر ہی کہوں گا، شکر کبھی قرار نہ دوں گا۔ غرض میں نہ جھوٹ بول سکتا ہوں اور نہ سخن سازی کرسکتا ہوں۔