ایمان دار کاروباری شخصیات کی حکومت اور طاقتور مراکز تک رسائی نہیں
جنرل قمر جاوید باجوہ سے معیشت کی بدحالی سے تنگ آئے کاروباری افراد نے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کے حوالے سے فوج کے ترجمان نے ایک بیان بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ معیشت کے حوالے سے سیمینارز اور مباحثے کے تسلسل میں یہ ملاقات ہوئی ہے۔ یہ ملاقات عقیل کریم ڈھیڈی کی خواہش پر ہوئی جس میں سلطان لاکھانی، میاں عامر محمود، میاں منشا، ملک ریاض، علی حبیب، عارف حبیب، گوہر اعجاز، سلطان علیانہ، زبیر طفیل اور حسین داؤد شامل تھے۔ حکومت کی طرف سے اس ملاقات میں وزیر مملکت حماد اظہر، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور مشیر خزانہ حفیظ شیخ موجود تھے۔ ملاقات کا مقصد یہ تھا کہ ملک کے 30 بڑے بزنس مینوں کو بلا کر ان سے پوچھا جائے کہ آپ کو کیا کیا مسائل ہیں؟ کاروباری شخصیات نے شکایت کی کہ ہمیں نیب بہت تنگ کرتا ہے، جس پر فیصلہ ہوا کہ ایک کمیٹی بنادی جائے جو کاروباری شخصیات کے معاملات کا جائزہ لے، اور جس کسی پر الزام آئے اس کی تحقیقات کرے اور فیصلہ دے کہ نیب کو اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے یا نہیں۔ اس پر اتفاق کرلیا گیا۔ پھر بزنس مینوں نے کہا کہ اسمگلنگ کو بند کیا جائے، تو جواب ملا کہ افغانستان کی سرحد پر ہم باڑ لگارہے ہیں، باڑ مکمل ہونے کے بعد اسمگلنگ تقریباً ختم ہوجائے گی، بہتر یہی ہوگا کہ صنعت کار ان علاقوں میں فیکٹریاں لگائیں، اس سے وہاں کے لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور اسمگلنگ بھی مکمل طور پر بند ہوجائے گی۔ ملاقاتیوں کو یہ بات بھی سمجھائی گئی کہ آپ سارے لوگ لٹھ لے کر ٹیکسٹائل میں کیوں سرمایہ کاری کیے جارہے ہیں، اس کے علاوہ کوئی بزنس باقی نہیں رہ گیا؟ ملک کی برآمدات بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کریں جو کہ آج کل دنیا کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں ریکوڈک کا منصوبہ ہے، اس پر سرمایہ کاری کریں، اور بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے علاقوں میں کان کنی پر انویسٹ کریں، سیکورٹی حکومت دے گی، لیکن ملکی معیشت کو جمود کا شکار نہ بنایا جائے۔ عامر محمود نے بتایا کہ وہ پاکستان میں عنقریب آئی ٹی شعبے میں بہت بڑی سرمایہ کاری کرنے والے ہیں، تو انہیں ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی۔ ملک ریاض نے بھی رونا رویا کہ اگر ان کا ساتھ دیا جائے تو وہ تعمیرات کے شعبے میں پورے پاکستان کو یورپ کی طرح چمکا سکتے ہیں، اس پر انہیں درست جواب ملا کہ آپ کو روکا کس نے ہے؟
ملاقاتیوں کی ساری گفتگو سننے کے بعد حکومت نے بھی ایک نقشہ اُن کے سامنے رکھا کہ چین کو پاکستانی بزنس مینوں کے کُل 12 بلین ڈالر کے درآمدی آرڈر ہیں، جبکہ پاکستان میں جو آفیشل اعدادو شمار صرف 6 بلین ڈالر کے نکلے ہیں، یعنی 6 بلین ڈالر کی انڈر انوائسنگ کی گئی، اور وہ 6 بلین ڈالر چین سے ہی دبئی، انگلینڈ اور سوئٹزرلینڈ اپنے غیر ملکی اکاؤنٹس میں بھجوا دیئے گئے، آپ لوگ یہ کام کریں گے تو نیب تو حرکت میں آئے گا۔ آپ لوگوں نے اس پیسے سے دبئی میں سرمایہ کاری کی اور آپ کا پیسہ ڈوب گیا۔ اگر یہی پیسہ آپ پاکستان میں لگاتے تو پاکستان کا بھی فائدہ ہوتا اور آپ کا بھی۔ میاں منشا نے اپنی داستان بیان کی کہ ہم تباہ ہوگئے، برباد ہوگئے، تو انہیں جواب عقیل کریم ڈھیڈی اور گوہر اعجاز نے دیا۔ میاں منشا نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے مہنگی بجلی حکومتِ پاکستان کو کس شرط پر بیچی ہے اور کتنا منافع کمایا۔ انہیں باور کرایا گیا کہ وہ 18 فیصد کے بجائے 60 فیصد ریٹرن لے رہے ہیں اور پھر بھی کہتے ہیں کہ تباہ ہورہے ہیں، حکومت ہمارے ساتھ زیادتی کررہی ہے۔
نیب کے چیئرمین نے کاروباری شخصیات کے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ یہ ملاقات برائے ملاقات تھی، کیونکہ حکومت نے اس کا کوئی خاص اثر نہیں لیا اور چیئرمین نیب نے بھی اسے مسترد کردیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملاقات اس لیے ہوئی کہ حکومت کی معاشی شعبے میں کارکردگی صفر ہے، بلکہ کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہوچکی ہیں؟ سوالات یہ بھی ہیں کہ:
کفایت شعاری کرنے والی کسی حکومت کا بجٹ خسارہ کیسے چالیس سال میں بلند ترین سطح پر ہوسکتا ہے؟
کیسے ہمارا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 8.9 فیصد ہوگیا ہے؟
کیسے حکومت کے اخراجات اس کی آمدن سے 3.4 ٹریلین روپے زیادہ ہیں؟
کیسے قرض لینے کی ایک مخالف حکومت میں جی ڈی پی میں خسارے کی شرح 104فیصد تک پہنچ گئی؟ یاد رہے کہ ستمبر 2018ء، پی ٹی آئی کے حکومت سنبھالنے کے ایک ماہ بعد، جی ڈی پی میں خسارے کی شرح 80فیصد تھی، صرف سوا سال میں ایسی کیا آفت آگئی کہ یہ شرح 104 فیصد پہ چلی گئی؟ یہ آخر کس قسم کی تبدیلی ہے؟
اداراتی اصلاحات کی ایک داعی حکومت آخر کیسے سرکاری اداروں کا قرض 21 ٹریلین روپے تک بڑھا سکتی ہے؟
پیپلز پارٹی نے پاکستان کے کُل قرضوں کو پانچ سال کی مدت (2008ء-2013ء) میں 6 ٹریلین روپے سے 16ٹریلین روپے تک پہنچایا تھا۔ مسلم لیگ(ن) نے پاکستان کے کُل قرضوں کو پانچ سال (2013ء-2018ء) میں 16ٹریلین روپے سے 30 ٹریلین روپے تک پہنچایا تھا۔ پی ٹی آئی نے ایسا کیا کردیا کہ محض ایک سال میں ہی پاکستان کے کُل قرضے کو 30 ٹریلین روپے سے 40 ٹریلین روپے تک پہنچا دیا ہے؟ حکومت نے کیسے محض ایک سال میں 10ٹریلین کے قرض کا اضافہ کیا ہے؟ پیپلزپارٹی حکومت کو 10ٹریلین روپے کا قرض چڑھانے میں پورے پانچ سال لگے تھے۔
کیسے ہمارا 28بلین ڈالر کا برآمدی ہدف 20فیصد کی زبردست شرح سے چھوٹا۔ کون ایسے ہدف طے کرتا ہے اور کیا غلط ہوا؟
پیٹرولیم مصنوعات کی مقدار میں 25فیصد کمی کیوں آئی ہے؟
سیمنٹ کے شعبے کی پیداواری صلاحیت کا استعمال 50 فیصد کم کیوں ہوگیا ہے؟
گاڑیوں کی فروخت 50فیصد کیسے گر گئی ہے؟
نجی شعبے کے قرضے گزشتہ دو ماہ میں کیسے منفی 85 بلین روپے تک گر گئے ہیں؟
افراطِ زر کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کی کیا پالیسی ہے؟
وزیراعظم عمران خان آہنی عزم کے حامل ہی سہی، لیکن ان کی حکومت کے دعووں اور عمل میں ہزاروں میل کا فاصلہ کیوں ہیِ؟ آہنی عزم اور ان کی صلاحیت ملک میں کچھ ڈیلیور کیوں نہیں کررہی؟
ملاقات میں کاروباری طبقے نے یقین دلایا کہ ہم کسی ایسے گٹھ جوڑ کا حصہ نہیں بنیں گے جو ملک کے مفاد کے لیے نقصان دہ اور ملکی مفاد کے خلاف ہو۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ جو لوگ آگے بیٹھے ہوئے ہیں ان کو کچھ پتا نہیں ہوگا۔ لیکن جب ان لوگوں نے ان بزنس مینوں کے سارے کچے چٹھے کھول کر رکھے تو کسی نے ٹیکس کے بارے میں بات نہیں کی۔ ان بزنس مینوں کو نرم انداز سے سمجھایا گیا ہے کہ جن لوگوں کے کہنے پر آپ یہ سب کررہے ہیں ان کو کوئی نہیں بچاسکے گا، لیکن ان کے ساتھ آپ بھی رگڑے جائیں گے۔ایف بی آر نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں محصولاتِ زر کا ہدف 10 کھرب 71 ارب روپے مقرر کیا تھا۔ جولائی سے ستمبر کے درمیانی عرصے میں 14 ارب سے 47 ارب روپے تک شارٹ فال ہوچکا ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 960 ارب روپے کے محصولاتِ زر جمع کیے گئے جبکہ مقررہ ہدف 10 کھرب 71 ارب روپے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ مستقبل قریب میں مثبت اشاریے سامنے آئیں گے۔ ایف بی آر نے پہلی سہ ماہی میں 15 ارب روپے ماضی کے ریفنڈز بھی ادا کیے ہیں۔ 30 ستمبر کو اختتام پذیر ہونے والی سہ ماہی میں محصولاتِ زر کا 90 فیصد حصول انتہائی ہدف تھا جسے حاصل کرلیا گیا۔ ایف بی آر نے 30 ستمبر تک 4 لاکھ 38 ہزار 546 ریٹرنز موصول کیے، جبکہ گزشتہ برس اسی ماہ میں 4 لاکھ 8 ہزار 381 ریٹرنز جمع ہوئے تھے۔ اس طرح 7.4 فیصد اضافہ رہا۔ایف بی آر کے چیئرمین نے بتایا کہ پہلی سہ ماہی میں درآمدات 3 ارب ڈالر پر مشتمل تھی۔مجموعی طور پر درآمدات میں کمی سے ادائیگی پر اچھا اثر پڑے گا۔گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں مالی سال کی پہلی سہ میں ٹیکس وصولی میں 25 اضافہ ہوا جو غیرمعمولی پیش رفت ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے کاروباری برادری کو کاروباری ماحول اور معیشت بہتر کرنے کی یقین دہانی کا خیرمقدم کیا گیا ہے اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ کاروبار ترقی کریں گے تو معیشت مضبوط ہوگی۔ لہٰذا تاجروں کے ٹیکس نظام اور اہلکاروں کے صوابدیدی اختیارات پر تحفظات دور کیے جائیں گے، اور یوٹیلٹی پرائسز کم کیے جائیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ ہر وفاقی بجٹ کے موقع پر خوش کن اعلانات بھی کیے جاتے رہے ہیں، جو ہمیشہ زبانی جمع خرچ ثابت ہوتے رہے، اور اعدادوشمار کے ہیر پھیر کے ساتھ عملاً مکھی پر مکھی ماری جاتی رہی ہے۔ موجودہ حکمران جماعت پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان چونکہ سسٹم کی اصلاح اور کرپشن فری سوسائٹی کا ایجنڈا لے کر سیاسی میدان میں اترے تھے جس کے لیے تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا اور اُس وقت کے حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کو بطور خاص فوکس کرکے عوام کے غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل حل کرنے کے بلند بانگ دعوے کیے گئے، اس لیے عوام کو عمران خان کی کرشماتی قیادت سے زیادہ توقعات وابستہ ہوئیں جنہوں نے 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو وفاق میں مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھارا اور خیبر پختون خوا میں حکمرانی کا مینڈیٹ دیا، جبکہ پی ٹی آئی کا یہی ایجنڈا 2018ء کے انتخابات میں بھی کارگر ہوا، اور اسے خیبر پختون خوا ہی نہیں، وفاق اور پنجاب میں بھی حکمرانی کا عوامی مینڈیٹ دے دیا گیا، عوام نے حکمران پی ٹی آئی سے جتنی زیادہ توقعات باندھیں اتنی ہی سرعت کے ساتھ وہ اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کے پی ٹی آئی حکومت سے متقاضی نظر آئے، مگر’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کے مصداق عوام کی توقعات بہت جلد مایوسی میں تبدیل ہونے لگیں۔ حکومت کی یہ پالیسی یقینا مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف تھی، جبکہ حکومتی ارکان نے آئندہ مہنگائی مزید بڑھنے اور عوام کو صبر کرنے کا درس دے کر انہیں عملاً زندہ درگور کرنے کا بھی اہتمام کردیا۔ بے شک وزیراعظم اور دوسرے حکومتی ارکان کی جانب سے کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے اور منی لانڈرنگ کی تمام رقوم بیرونِ ملک سے واپس لانے کے تواتر کے ساتھ اعلانات کیے جاتے رہے جس سے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے سے متعلق امید کی جوت عوام کے دلوں میں جگائی گئی۔ اس میں زیادہ تر اپوزیشن کے لوگ نیب کے شکنجے میں آئے، جن میں سے کچھ نیب عدالتوں کی سزائیں بھگت رہے ہیں اور کچھ ابھی مقدمات بھگت رہے ہیں جنہیں نیب کی تحویل میں دیا اور جیلوں میں بند کیا جاچکا ہے۔ مگر اس ساری مشق کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی تسلیم کرتے ہیں کہ اب بھی ملک میں منی لانڈرنگ ہورہی ہے جس میں 15 سے 20 فیصد کرپشن کا پیسہ ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کے وزیراعظم کے اعلانات کو بھی گہنا دیا ہے کہ گزشتہ 20 سال میں 6 ارب ڈالر ملک سے باہر گئے ہیں جنہیں ملک واپس لانے کا ہمارے پاس کوئی میکنزم نہیں ہے۔ اس حوالے سے اس سے زیادہ مایوس کن صورت حال اور کیا ہوسکتی ہے کہ نہ صرف منی لانڈرنگ کا پیسہ بیرون ملک سے واپس نہیں لایا جاسکا بلکہ منی لانڈرنگ کے ذریعے مزید پیسہ ملک سے باہر جارہا ہے، اور ڈالر ریٹ بڑھانے سے منافع کمانے والے بھی گرفت میں نہیں آرہے، بلکہ مشورے بھی انہی سے لیے جارہے ہیں۔ ملک میں بے شمار کاروباری لوگ ہیں جو ایمان داری سے کام کرتے ہیں مگر ان کی رسائی نہیں۔
ظالمانہ ٹیکسز کیخلاف تاجروں کا ایف بی آر دفتر پر دھرنا
مر کزی تنظیم تاجران پاکستان کے زیر اہتمام ظا لمانہ ٹیکسز اور معاشی پالیسیوں کے خلاف ملک گیر تاجر کنونشن میں تا جر رہنمائوں کی حکو مت اور ایف بی آر کی معاشی پالیسیوں پرتنقید،بعد ازاں مر کزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر محمد کاشف چودھری اورچیئر مین خواجہ سلیمان صدیقی ، سید عبدالقیوم آغا کی قیادت میں ملک بھر سے آئے ہو ئے ہزاروں تاجروں نے ملک کی صنعت و تجارت کے استحکام کی خاطر میلوڈی سے ایف بی آر کی طرف تحفظ معیشت مارچ ہو ا جسے پولیس نے نادرا چوک پر روک دیا، جہاں پر تاجروں نے دھر نا دیا۔اس موقع پر ایف بی آر کے اعلیٰ حکام تاجر رہنمائوں سے مذاکرات کے لیے دھر نے کے شر کا کے پاس آئے۔ایف بی آر کے نمائندوں سے گفتگو کر تے ہو ئے محمد کاشف چودھری نے کہا کہ ہم ایف بی آر کو 3 دن کا ٹائم دے رہے ہیں اگر ہمارے جائز مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ملک بھر کی تاجر برادری شٹر ڈائون اور پہیہ جام ہڑتال کر نے پر مجبور ہو جا ئے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر تاجروں سے مذاکرات کو سنجیدہ طریقے سے نہیں لے رہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ایف بی آر شناختی کارڈ کی بے مقصد شرط پر تاجر وں کو قائل کرنے میں ناکام رہا30ستمبر تک شناختی کارڈ پر کوئی کارروائی نہ کرنے کے اعلان کے باوجودایف بی آر کا سافٹ ویئر سیلز ٹیکس کے گوشوارے بغیر شناختی کارڈ کے وصول نہیں کر رہا،حکومت سرحدوں اور بندر گاہوں پر اسمگلنگ روکنے کے بجائے مارکیٹوں میں چھاپے مارنے کے نوٹسز جاری کر رہی ہے۔ کاشف چودھری نے کہا حکو مت اور ایف بی آر کی معاشی پالیسیوں کے باعث ملک میںصنعتیں بند ہونا اور مارکیٹوں میں خریداری 40فیصد سے کم اور مارکیٹیں ویران ہو رہی ہیں، جس سے بے روزگاری، انارکی، افراتفری کے جنم لینے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ان حالات میں صنعت و تجارت کے تحفظ کے لیے ہم نے ملک بھر کے تاجر نمائندگان اور تاجروں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔