افغان انتخابات ووٹنگ اور انجینئرنگ

ان انتخابات کی مثبت بات یہ ہے کہ طالبان نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولنگ کے روز بڑے پیمانے پر حملوں سے گریز کیا۔ بعض علاقوں سے تشدد کی خبریں آئیں لیکن زیادہ تر واقعات طالبان اور افغان و نیٹو فوج کے درمیان تصادم کا نتیجہ تھے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ جب عوام خود ہی انتخابی عمل سے دور رہے تو انھیں خالی پولنگ اسٹیشنوں پر مکھی مارتے انتخابی عملے کو نشانہ بنانے کی کیا ضرورت تھی!۔

افغانستان میں صدارتی انتخابات 28 ستمبر کو مکمل ہوگئے، لیکن تادم تحریر یعنی ایک ہفتے بعد بھی ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں ہوسکی ہے۔ آزاد الیکشن کمیشن (IEC)کی سربراہ محترمہ حوا عالم نورستانی کا کہنا ہے کہ تصدیق کے لیے ہر پرچۂ انتخاب کو بائیومیٹرک ریکارڈ کے مطابق کھنگالا جارہا ہے۔
یہ انتخابات 20 اپریل کو ہونے تھے لیکن گزشتہ برس دسمبر میں الیکشن کمیشن نے تیاری نہ ہونے کی بنا پر انتخابات 20 جولائی تک مؤخر کردیئے، اور 20 مارچ کو اسے بڑھا کر 28 ستمبر کردیا گیا۔ انتخابات کے بار بار التوا کے نتیجے میں صدر اشرف غنی کی مدتِ صدارت ختم ہوچکی ہے لیکن وہ اب تک مسند سنبھالے ہوئے ہیں۔ انتخابات میں 16 امیدواروں نے حصہ لیا جن میں صدر ڈاکٹراشرف غنی، چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، حزبِ اسلامی کے امیر گلبدین حکمت یار، سابق سیکورٹی ڈائریکٹر رحمت اللہ نبیل، ممتاز سفارت کار شیدا محمد ابدالی، رکن پارلیمنٹ عبداللطیف پدرم چند اہم نام ہیں۔ سابق مشیر سلامتی محمد حنیف اتمار سیکورٹی کے خدشے کے تحت، اور سابق وزیر خارجہ زلمے رسول صدر اشرف غنی کے حق میں دست بردار ہوگئے۔
ڈاکٹر اشرف غنی کی ریلی پر حملے کی بنا پر انتخابی مہم شروع ہی سے ویران اور پھیکی پھیکی رہی۔ سڑکوں پر لگے بینروں اور پوسٹروں کے علاوہ کوئی اور سرگرمی نظر نہ آئی۔ اِس بار جنبش ملّی کے سربراہ جنرل عبدالرشید دوستم المعروف قصابِ شبرغن ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی حمایت کررہے تھے، اس لیے شمالی افغانستان کے کچھ علاقوں میں ڈاکٹر صاحب ایک آدھ جلسہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
ان انتخابات کی سب سے مثبت بات یہ ہے کہ طالبان نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولنگ کے روز بڑے پیمانے پر حملوں سے گریز کیا۔ بعض علاقوں سے تشدد کی خبریں آئیں لیکن زیادہ تر واقعات طالبان اور افغان و نیٹو فوج کے درمیان تصادم کا نتیجہ تھے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ جب عوام خود ہی انتخابی عمل سے دور رہے تو انھیں خالی پولنگ اسٹیشنوں پر مکھی مارتے انتخابی عملے کو نشانہ بنانے کی کیا ضرورت تھی!
افغان انتخابات کے چند اہم نکات اور اعدادوشمار:
٭الیکشن کمیشن کے مطابق افغانستان میں اہل ووٹروں کی کُل تعداد ایک کروڑ 60 لاکھ ہے۔
٭ ان 16 ملین لوگوں میں سے 96 لاکھ خواتین و حضرات نے ووٹ کے لیے خودکو رجسٹر کرایاہے۔
٭28 ستمبر کو 18 صوبوں کے 445 پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ کے عملے نے خوف کی بنا پر ذمہ داری اداکرنے سے انکار کردیا۔
٭5 اکتوبر کو الیکشن کمیشن کی سربراہ نے اعلان کیا کہ ان انتخابات میں 26 لاکھ افراد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔
٭30 ستمبر کو ووٹوں کی کُل تعداد10 لاکھ اور اس کے ایک دن بعد 14 لاکھ بتائی گئی تھی۔
ان اعداد وشمار پر کئی امیدواروں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ابتدا میں کہا جارہا تھا کہ شمالی علاقوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح جنوب اور مشرقی صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ جنوب و مشرقی علاقوں میں جہاں پشتونوں کی اکثریت ہے، بدامنی کی بنا پر ووٹ ڈالنے کی شرح کم رہی۔ لیکن 2 اکتوبر کو حوا صاحبہ نے جواعدادو شمار جاری کیے ہیں اس کے مطابق جنوب اور مشرقی افغانستان میں ووٹ ڈالنے کا تناسب40 سے 60 فیصد رہا۔ چند دلچسپ مثالیں:
٭الیکشن کمیشن کے مطابق پکتیا صوبے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 4 لاکھ 40 ہزار ہے، جن میں سے 1لاکھ 60 ہزار ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ پکتیا کی کُل آبادی 5 لاکھ 52 ہزار کے قریب ہے۔ ساڑھے پانچ لاکھ کی آبادی میں ساڑھے چار لاکھ ووٹر ہونا بڑا عجیب محسوس ہورہا ہے۔
٭پکتیا کے زرمت ضلع میں 24000 ووٹ ڈالے گئے جو رجسٹرڈ ووٹ کے 99 فیصد کے برابر ہے۔
٭یہی حال پکتیا کے روحانی بابا علاقے میں ہوا جہاں 10305رجسٹرڈ ووٹوں میں سے 9999ووٹ کاسٹ ہوئے۔ روحانی بابا کا پورا علاقہ کئی سال سے طالبان کے کنٹرول میں ہے اور یہاں پولیس تھانہ تو دور کی بات، کوئی چھوٹی موٹی چوکی بھی نہیں۔
٭پروان صوبے میں جہاں امریکی فوج کے بگرام اڈے کی بنا پر نیٹو فوج کی گرفت خاصی مضبوط ہے وہاں ووٹ ڈالنے کا تناسب 19 فیصد رہا، اور اس کے تین بڑے ضلعوں بگرام، چاریکار اور سرخ پارسا میں 5 فیصد کے قریب ووٹ ڈالے گئے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ پروان حزبِ اسلامی کا گڑھ ہے، اور جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا حزب کے امیر گلبدین حکمت یار بھی صدارتی امیدوار ہیں۔
٭قندھار میں جہاں نصف سے زیادہ پولنگ اسٹیشن مقفل رہے، ایک لاکھ 90 ہزار ووٹ ڈالے گئے جو مجموعی ووٹوں کے 63 فیصد سے زیادہ ہے۔
٭ایک امیدوار ڈاکٹر فرامرز تمنا نے انکشاف کیا کہ ان کے آبائی صوبے ہرات میں ایک لاکھ 4 ہزار سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے جبکہ صوبے کے اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر انتخابی عملہ بھی موجود نہ تھا۔
٭کچھ ایسا ہی معاملہ ننگرہار میں پیش آیا جہاں 2 لاکھ 32 ہزار ووٹ ڈالے گئے جو رجسٹرڈ وووٹوں کے 55 فیصد کے قریب ہے، جبکہ تین چوتھائی صوبہ افغان اور نیٹو افواج کے لیے ایک سال سے نوگو علاقہ بنا ہوا ہے۔
٭ہلمند کے ایک دور افتادہ پولنگ اسٹیشن کے ایک بوتھ پر 411 ووٹ ڈالے گئے لیکن بائیومیٹرک کے مطابق یہاں صرف 11 ووٹ تھے۔ سوال یہ ہے کہ ایک درجن سے بھی کم ووٹوں کے لیے علیحدہ پولنگ بوتھ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ لوگ برابر کے بوتھ پر ووٹ ڈال سکتے تھے۔
٭ہلمند ہی کے ایک اور پولنگ اسٹیشن پر رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 360 ہے لیکن یہاں 421 ووٹ ڈالے گئے۔
٭ پشتون علاقوں میں خواتین کے پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کی شرح 60 فیصد سے زیادہ رہی، بلکہ بعض جگہ تو 90 فیصد خواتین نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ مزے کی بات کہ پشتون علاقوں میں خواتین کے اکثر پولنگ اسٹیشن سارا دن بند رہے۔ خوف کی وجہ سے خواتین ووٹ دینے کے لیے نکلی ہی نہیں۔
٭4 اکتوبر کو حوا صاحبہ نے چشم کشا انکشاف فرمایا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات سے چند روز پہلے انتخابی فہرستوں سے 4 لاکھ نام حذف کردیئے تھے۔ وضاحت و دادرسی کا موقع دیئے بغیر آخری لمحات میں جن لوگوں کے نام انتخابی فہرستوں سے نکالے گئے اُن کی اکثریت پشتون خواتین کی ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے فاضل کمشنر صاحبہ نے کہا کہ ووٹرز کے نام اور ان سے منسلک شناختی کارڈز کی بائیومیٹرک نظام سے تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کو طلب کیے بغیر ان کے بائیو میٹرک Dataکے غیر مستند ہونے کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا؟
غیر جانب دار مبصرین کا خیال ہے کہ نصف کے قریب ووٹ ٹھپے بازی کا نتیجہ ہیں۔ خاص طور سے شمال کے فارسی بان علاقوں میں ووٹ ڈالنے کا تناسب زیادہ رہا جو دراصل جنرل رشید دوستم کی بندوق کا نتیجہ ہے۔ اسے برابر کرنے کے لیے مشرق اور جنوب کے پشتوں علاقوں میں ڈاکٹر اشرف غنی کے حامیوں نے کھل کر ٹھپے بازی کی۔
ابتدائی گنتی میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو برتری حاصل تھی جس کی بنیاد پر ڈاکٹر صاحب نے کامیابی کا دعویٰ بھی کردیا۔ اس دعوے پر ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن شمالی علاقوں میں ٹھپے بازی پر انھیں شدید تشویش ہے اور وہ ان نتائج کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے۔ ایک اور اہم امیدوار حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار بھی انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ڈالے جانے والے ووٹوں اور بائیومیٹرک ڈیٹا کے درمیان حائل خلیج ہے جو جانچ پڑتال کے ساتھ مزید وسیع ہوتی جارہی ہے۔ 6 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے اعداد وشمار کی صحت جانچنے کے لیے آزمائشی طور پر مختلف مقامات کے 1806پولنگ بوتھوں پر ڈالے جانے والے 2 لاکھ 80 ہزار 6 سو 88ووٹوں کو بائیومیٹرک نظام سے پرکھا تو صرف 98 ہزار 90 ووٹوں کی تصدیق ہوسکی۔ دوسرے الفاظ میں 65 فیصد ووٹ کراچی برانڈ ٹھپہ بازی کا نتیجہ نکلے۔
اس بے مثال تفاوت نے الیکشن کمیشن کو سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ حوا صاحبہ مُصر ہیں کہ صرف ان ہی ووٹوں کو شمار کیا جائے گا جن کی بائیو میٹرک نظام سے تصدیق ہوچکی ہے۔ اکثر امیدوار کمشنر صاحبہ کے مؤقف کے حامی ہیں۔ لیکن افغان مشرانو جرگہ (سینیٹ) کے سربراہ فضل ہادی مسلم یار کا کہنا ہے کہ ہر پرچۂ انتخاب کو گن کر نتیجہ مرتب کیا جائے کہ ووٹ ایک مقدس امانت ہے اور الیکشن کمیشن کی نااہلی کی بنا پر 65 فیصد ووٹوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دینا عوامی مینڈیٹ کی بے توقیری ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر بائیومیٹرک کسوٹی پر پورا نہ اترنے والے ووٹوں کو نکال دیا جائے تو پھر مستند ووٹوں کی تعداد ساڑھے 9 لاکھ کے قریب رہ جائے گی جو کُل ووٹوں کے 10 فیصد سے بھی کم بنتی ہے۔
اکثر امیدواروں کا خیال ہے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے جس میں الیکشن کمیشن کا عملہ بھی ملوث نظر آرہا ہے۔ ایک امیدوار سید نوراللہ جلیلی نے الیکشن کمیشن کے عملے کو گرفتارکرکے ان کے خلاف قومی خیانت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بہت سے امیدواروں کی طرف سے الیکشن کالعدم کرکے دوبارہ ووٹنگ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ انتخابات کے سرکاری نتائج کے اعلان پر ناکام رہنے والے امیدواروں کا ردعمل کیا ہوگا۔ لیکن خیال یہی ہے کہ ہارنے والے امیدوار دھاندلی کے خلاف محض الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹانے پر اکتفا نہیں کریں گے، بلکہ 2014ء کی تاریخ بھی دہرائی جاسکتی ہے جب پشتون و فارسی بان تصادم تک کی نوبت آچکی تھی۔ اگر اُس وقت امریکی وزیرخارجہ جان کیری دبائو ڈال کر دونوں ڈاکٹر صاحبان کو شرکتِ اقتدار کے فارمولے پر راضی نہ کرتے تو خونریز تصادم ہوسکتا تھا۔
انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی سے افغان حکومت کے ساتھ امریکہ و مغرب بھی پریشان ہیں۔ افغانوں کے اس رویّے کی کئی تشریح ممکن ہیں۔ طالبان کے ہمدرد ملّائوں سے یکجہتی میں ووٹنگ سے دور رہے تو پولنگ اسٹیشنوں پر حملے کے خوف نے بہت سے لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک آنے سے باز رکھا، جبکہ جمہوری نظام سے عوام کی مایوسی بھی عدم شرکت کی ایک وجہ ہے۔
عام لوگوں نے پولنگ اسٹیشنوں سے دور رہ کر امن مذاکرات کے حوالے سے کابل انتظامیہ کی پوزیشن کو مشکوک و مخدوش بنادیاہے۔ کابل کے ڈاکٹر صاحبان طالبان امریکہ مذاکرات معطل ہونے پر بہت خوش تھے اورانتخابات کے بعد وہ سینہ پھلا کر کہہ سکتے تھے کہ ہم افغان عوام کے منتخب نمائندے ہیں لہٰذاہماری رضامندی کے بغیر افغانستان کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔لیکن پُرامن ماحول کے باوجود انتخابات میں عوام کی عدم شرکت سے منتخب ہونے والے صدر کا مینڈیٹ گنتی کی تکمیل سے پہلے ہی مشکوک ہوچکا ہے۔
نتائج کے اعلان میں غیر ضروری تاخیر سے جہاں پولنگ کے نظام پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں، وہیں افواہ سازی کی صنعت بھی عروج پر ہے۔ گنتی کے آغاز پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اپنی فتح کے لیے بے حد پُراعتماد تھے، لیکن 2 اکتوبر کو پشتون علاقوں کے ’’چشم کشا‘‘ اعدادو شمار سے صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کے حامیوں نے مبارک سلامت کا ورد شروع کردیا۔ جبکہ باقی امیدواروں کے خیال میں الیکشن کمیشن ووٹوں کی گنتی کے بجائے پولیٹکل انجینئرنگ کررہا ہے۔
کہا جارہا تھاکہ افغانستان امریکہ کے گلے کی چھچھوندر ہے جسے اُگل دینا مشکل اور نگل جانا ناممکن ہے۔ اب انتخابات میں بائیومیٹرک کے قضیے سے لگتا ہے کہ چچا سام کے گلے میں اٹکی بی بی چھچھوندر کے گھر ولادت بھی ہوچکی ہے۔