جناب ِوزیر اعظم !خوف کے خول سے نکلیں

مسئلہ کشمیر سے متعلق ہمارے حکمران عجیب مخمصے کا شکار ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اعلان کرچکے ہیں کہ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ختم نہیں کرتا اور مقبوضہ علاقے میں عوام کی شہری آزادیاں بحال نہیں کی جاتیں، بھارت سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ اگرچہ ہم سے پہلے طویل عرصے سے خود بھارت، پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکاری ہے، اور اب بھی اُس کی جانب سے مذاکرات کی ایسی کوئی پیشکش نہیں کی گئی جس کے جواب میں ہمارے انکار کی نوبت آئی ہو۔ اس لیے حقیقت یہی ہے کہ جناب عمران خان کے مذاکرات نہ کرنے کے اعلان کی حیثیت یک طرفہ بیان بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔ تاہم دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ہمارے حکمران صبح شام یہ راگ الاپتے بھی نہیں تھکتے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ مذاکرات اور جنگ دونوں اگر قابلِ عمل نہیں تو پھر مسئلے کا حل کیونکر ممکن ہوگا؟
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم کے ’’یادگار خطاب‘‘ کو دو ہفتے ہوچکے ہیں، مگر اب تک بھارت ٹس سے مس نہیں ہوا۔ کم و بیش ستّر دن سے مقبوضہ کشمیر میں جاری کرفیو اور محاصرے کی کیفیت جوں کی توں ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے شہری کس اذیت ناک صورتِ حال سے دوچار ہیں، دنیا کو جبراً اس سے بھی بے خبر رکھا جارہا ہے، ذرائع ابلاغ اور مواصلات بھارتی حکومت نے مکمل طور پر بند کررکھے ہیں، انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں، حتیٰ کہ بھارت کے سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں تک کو مقبوضہ وادی میں جانے کی اجازت نہیں دی جارہی، بلکہ بھارت کے دوست اور بزعم خویش یک محوری دنیا کے حکمران امریکہ بہادر کے سینیٹروںکے وفد تک کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مگر ان تمام پابندیوں اور بندشوں کے باوجود مہذب کہلانے والی دنیا بھارت پر کسی قسم کا دبائو ڈالنے اور اسے کرفیو سمیت دیگر پابندیوں کے خاتمے یا کم از کم کسی نرمی پر آمادہ کرنے میں قطعی ناکام رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی ناگفتہ بہ صورتِ حال میں عالمی رائے عامہ کے دبائو اور وزیراعظم کے اقوام متحدہ میں خطاب کے بعد بھی کسی قسم کی بہتری نہ آنے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے جارحانہ اور ہٹ دھرمی پر مبنی رویّے سے تنگ آکر آزاد کشمیر کے شہریوں نے بھارت کی غلامی میں زندگی بسر کرنے والے اپنے بھائیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے کنٹرول لائن کی طرف آزادی مارچ شروع کیا ہے تو اسے پاکستان کے حکمرانوں نے ایل او سی سے چھ کلومیٹر پہلے کنٹینر اور خاردار تاریں لگاکر روک دیا ہے، جس پر مارچ کے شرکاء نے شدید سردی اور بارش کے باوجود وہیں دھرنا دے دیا ہے، جو تادمِ تحریر جاری ہے۔ تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے اس مارچ سے پیدا شدہ صورتِ حال کو اپنے حق میں استعمال کرنے اور عالمی برادری کو اس جانب متوجہ کرنے کے بجائے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کے الفاظ میں ’’تازہ فتویٰ‘‘ دیا ہے کہ کسی پاکستانی یا کشمیری شہری نے ایل او سی پار کرنے کی کوشش کی تو یہ ملک سے غداری ہوگی۔ وزیراعظم نے اس ضمن میں ٹویٹ میں لکھا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں دو ماہ سے جاری کرفیو پر آزاد خطے کے شہریوں کے غم و غصے کو سمجھتے ہیں، مگر بھارت اس بہانے کنٹرول لائن پار کرسکتا ہے۔ جناب وزیراعظم سے کیا پوچھا جا سکتا ہے کہ سارے خطرات، سارے خدشات ہمارے لیے ہی کیوں ہیں؟ بھارت آئے روز انتہا پسندانہ اور جارحانہ اقدامات کرنے سے پہلے ہماری طرف سے کسی جوابی کارروائی یا جنگی اقدام کے خطرے سے خوف زدہ کیوں نہیں ہوتا؟ بھارت آئے روز کسی اشتعال انگیزی کے بغیر ایل او سی پر فائرنگ کرکے ہمارے بے گناہ شہریوں کو شہید اور زخمی کرتا رہتا ہے، ابھی اسی سات اکتوبر کو آزاد جموں و کشمیر کے علاقے عباس پور میں بھارتی فوج کی طرف سے کی گئی بلاجواز فائرنگ سے اپنے گھر کے باہر کھڑی ایک خاتون شہید ہوگئی، یہ سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا…؟ ہم اپنے بے گناہ شہریوں کو کب تک امن کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے؟ جناب وزیراعظم آپ جس ریاست مدینہ کے قیام کے داعی ہیں اُس کے بانی ؐ کی سنت تو یہ ہے کہ وہ اپنے صرف 313 جاں نثاروں کو قطعی بے سروسامانی کے عالم میں اپنے سے کہیں بڑے اور اُس وقت کے ہر اسلحہ سے مسلح دشمن کے مقابلے کے لیے بدر کے میدان میں نکال لائے تھے، اور پھر رب العزت نے انہیں ایسی فتح سے ہم کنار کیا تھا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جنابِ وزیراعظم ہم کب تک خوف کے خول میں زندگی گزارتے رہیں گے؟ ہم اپنے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کب عمل پیرا ہوں گے…؟ آخری آدمی، آخری گولی اور آخری سانس تک لڑنے کے اعلان پر عمل کرنے کی نوبت کب آئے گی…؟
(حامد ریاض ڈوگر)