سہوِ کتابت

محترم نواز احمد اعوان علم دوست شخصیت ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قیمتی کتابیں بلا تردد تقسیم کرتے ہیں کہ شاید دوسروں میں بھی مطالعہ کا ذوق پیدا ہو۔ بیشتر صحافی کتابیں خرید کر نہیں پڑھتے اور جو مفت میں مل جائیں ان کی قدر ’’مالِ مفت‘‘ کی طرح کرتے ہیں۔ نواز احمد اعوان جب تک کراچی میں رہے یہ نادر تحفے بھیجتے رہے لیکن لاہور جا کر بھی وہ علم تقسیم کرنے سے باز نہیں آئے۔ ہماری تو دعا ہے کہ وہ اس عادت سے کبھی باز نہ آئیں۔ وہ جو کتابیں عطیہ کرتے ہیں ان کا موضوع عموماً اردو زبان و ادب ہے۔ اردو زبان سے ایک اعوان کی ایسی دلچسپی اور محبت لائقِ تحسین ہے۔
گزشتہ دنوں انہوں نے لاہور سے تین کتابیں بھجوائی ہیں جن میں سے ایک ’’اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ‘‘ ہے جو ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی کی گراں قدر تصنیف ہے۔ اس میں انہوں نے الف سے لے کر یے تک محاورات کی درجہ بندی کی ہے۔ اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک جامع کتاب ہے۔ حروف خوانی محترم وصی اللہ کھوکھر نے کی ہے لیکن انہوں نے اس کتاب پر بڑا مبسوط تبصرہ بھی کیا ہے جو بجائے خود ایک موقر مضمون ہے۔ انہوں نے چند خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے مثلاً مؤلفہ نے قربان علی سالک کا مشہور شعر مرزا غالب کے کھاتے میں ڈال دیا ہے اور یہ غلطی بہت عام ہے۔ شعر یہ ہے:۔

تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے

انہوں نے سالک کی جگہ غالب کردیا۔ ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی جیسی علمی شخصیت سے اس سطح کی چوک کی ہمیں (وصی اللہ) ہرگز ہرگز توقع نہیں۔ اسی طرح ’’دال نہ گلنا‘‘ کی بڑی عجیب توجیہ کی ہے کہ ’’اب سے کچھ زمانہ پہلے تک غریب گھروں میں ایندھن کی بڑی دشواری ہوتی تھی۔ آگ بھی ایک بڑی نعمت تھی اور گھروں سے آگ مانگی جاتی تھی۔ ایندھن کی کمی کی وجہ سے یہ ہوتا تھا کہ دال پوری طرح پکتی بھی نہ تھی اور کچی رہ جاتی تھی، جس کی وجہ سے دال نہ گلنا ایک محاورہ بن گیا‘‘۔ اس کو ایک لطیفہ سمجھ کر نظر انداز کردینا چاہیے اور پوری کتاب پر اس ’’اضحوکہ‘‘ کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے۔
ایک لطیفہ یاد آیا۔ ایک صاحب ملازمت کے لیے کہیں گئے۔ نام پوچھا تو بتایا عبدالقدوس قادری، مجددی، دہلوی۔ نام سن کر نواب صاحب نے کہا ’’نام میں اتنی دالیں!‘‘ بولے ’’حضور کوئی تو گلے گی‘‘۔ اس پر ملازمت مل گئی، لیکن یہاں ایندھن کی قلت کہیں نہیں تھی۔ دال گلنے نہ گلنے کا کوئی تعلق ایندھن سے نہیں۔ دال گلنے کا سیدھا سا مطلب ہے دال پک جانا، دال کا گھل مل کر گداز ہوجانا۔ خواتین ایک دانے کو مسل کر دیکھتی ہیں کہ گل گئی یا نہیں۔ کنایتہ اس کا مطلب ہے کسی مقام پر داخل ہونا، رسائی ہونا، کامیابی ہونا، دائوں چلنا۔ انشا کا شعر ہے:۔

گلنے کی دال یاں نہیں بس خشکہ کھائیے
اے شیخ صاحب آپ نہ شیخی بگھاریے

۔’’دال میں کالا‘‘ کا مطلب ہے کچھ نہ کچھ خرابی ہے، کچھ شبہ ہے، شک ہے۔ شاہ نصیر کا شعر ہے:۔

بے وجہ اس نے نہیں خط اب منہ پہ نکالا ہے
دل مجھ سے یہ کہتا ہے کچھ دال میں کالا ہے

دال میں کچھ کالا ہے کی وضاحت بھی موصوفہ نے یوں کی ہے کہ دال پکائی جاتی تھی اور وہ بھی دھوئی ہوئی دال (سب دالیں دھو کر ہی پکائی جاتی ہیں۔ یہاں غالباً دھوئی ماش کی دال، بغیر چھلکوں والی سے مراد ہے) تو اس میں ایسا تو نہیں تھا کہ اس میں گرم مصالحہ ڈالا جاتا ہو، لونگیں، سیاہ مرچیں اور کالا زیرہ دال میں کون ڈالے کہ اتنا پیسہ کہاں سے آئے! جو بے چارہ دال کھارہا ہے وہ اوپر سے خرچ کرنے کے لیے مزید پیسے کہاں سے لائے! اسی لیے دال میں کوئی کالی چیز نہیں ہوتی تھی اور اگر نظر آجاتی تھی تو شبہ کی بات بن جاتی تھی کہ یہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ اسی کو سماجی زندگی میں محاورے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اسی سے شکوک و شبہات کی طرف اشارے ہوتے ہیں۔ موصوفہ نے یہ سمجھانے کے لیے بڑا تکلف کیا۔ گویا اگر دال میں لونگ، کالا زیرہ یا سیاہ مرچ نظر آئے تو دال مشتبہ ہوگئی۔ یہ بڑی دورازکار بات ہے۔ اور اگر دال سفید نہ ہو مثلاً مسور کی ہو اور اس میں لونگ یا کالی مرچیں پڑی ہوں تو کیا پھر بھی دال مشکوک ہوجائے گی۔ ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘والی کہاوت تو عشرت جہاں ہاشمی نے سنی ہی ہوگی کہ ایک نواب صاحب نے بڑی تنخواہ پر ایک باورچی ملازم رکھا جو آج کل ’’شیف‘‘ کہلاتا ہے۔ اس سے پوچھا تمہاری خصوصیت کیا ہے؟ باورچی نے کہا کہ مسور کی دال، شرط یہ ہے کہ جب پک جائے تو تناول فرمانے میں تاخیر نہ کریں۔ ایک دن نواب صاحب نے دال کی فرمائش کردی۔ باورچی نے طرح طرح کے مصالحے منگوائے جن میں کالی مرچیں، لونگ اور زیرہ بھی تھا۔ دال پکی تو نواب صاحب کو اطلاع کردی گئی۔ وہ اس وقت شطرنج کھیلنے میں مصروف تھے۔ تین چار بار اطلاع کروائی مگر وہ نہیں آئے۔ باورچی بھی مزاج میں تاناشاہ تھا، یہ کہتا ہوا دال اُٹھا کر چل دیا ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘۔ دال کی دیگچی اس نے باغ میں ایک سوکھے ہوئے درخت کی جڑ میں انڈیل دی، درخت بہت جلدی ہرا بھرا ہوگیا، تب نواب صاحب کو دال کی خوبی کا ادراک ہوا۔ باورچی کو بہت تلاش کروایا مگر وہ نہیں ملا۔ البتہ محاورہ رہ گیا۔ دال میں کچھ کالا کی مذکورہ وضاحت ہمارے حلق سے نہیں اُتری۔
اسی طرح عشرت جہاں نے داغ بیل ڈالنا کی جو وضاحت کی ہے وہ بھی درست نہیں ہے۔ اس کے بارے میں بہت پہلے لکھا تھا کہ یہ کیا ہے۔ ماہنامہ’قومی زبان‘ میں ایک جگہ لکھا ہے ’’سہوِکتابت‘‘۔ سہو کسی جاندار شے سے ہوتا ہے، کتابت جان دار شے نہیں۔ یہ دراصل ’’سہوِ کاتب‘‘ ہے، جسے سہوِ کتابت لکھا جانے لگا ہے۔
عشرت جہاں ہاشمی کی اس کتاب سے بہت سے ایسے محاورات کا علم ہوا جو شاید اب دِلّی میں بھی نہ بولے جاتے ہوں۔ تاہم انھوں نے محاورات اور ضرب الامثال میں فرق نہیں رکھا۔ کتاب کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں دوسرے اہلِ علم کی آرا بھی محاورے کے حوالے سے شامل ہیں۔ اب محاورے، ضرب المثل یا کہاوت میں تمیز ختم ہوتی جارہی ہے۔ لسانیات کے ماہرین روزمرہ کو الگ صنف کے طور پر لیتے ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں وصی اللہ کھوکھر نے لکھا ہے کہ اردو لغت بورڈ کراچی کی ’اردو لغت تاریخی اصول پر‘ کی جلد ہفت دہم میں محاورے کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی ہے: رواج، عادت، مشق، مہارت اور وہ کلمہ یاکلام جسے معتبر لوگوں نے لغوی معنی کی مناسبت یا غیر مناسبت سے کسی خاص معنی کے لیے مخصوص کرلیا ہو، یا کسی خاص گروہ کی بول چال یا لفظوں کی ترکیب۔
محاورے کی اور بھی کئی تعریفیں ہیں، لیکن ہم اس الجھن میں ہیں کہ ’’مختیارکار‘‘ کیا چیز ہے۔ 8 اکتوبر ہی کے ایک بڑے اخبار میں یہ مختیار سوال کررہا ہے۔ یہ مختار ہے اور اس میں’ یے‘ ٹھونسنے کی ضرورت نہیں۔ اہلِ پنجاب عام طور پر کسی کا نام مختار ہو تو اسے بھی ’مخت یار‘ کردیتے ہیں۔ جانے کیوں؟