جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کا آزادی مارچ

کنٹرول لائن توڑنا نہتے عوام کے پاس جان دینے کا ایک کارڈ ہے، اور یہ کسی طور بھارتی بیانیے کی حمایت کے مترادف نہیں ہوسکتا

مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں عوام کے محاصرے کو دو ماہ گزر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی صورت عالمی ضمیر کو جگانے کی ایک بھرپور کوشش بھی کی جاچکی ہے، اور دنیا بھر کے معتبر ذرائع ابلاغ حالات کی سنگینی کو پوری طرح ظاہر کرچکے ہیں۔ ان میں سب سے اہم بات ایک عالمی تنظیم جینو سائیڈ واچ کا یہ الرٹ ہے جس میں تنظیم نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بدترین قتلِ عام کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ بھارت کے عزائم پانچ اگست کو ختم نہیں ہوئے، بلکہ پانچ اگست کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی شناخت پر حملے کے بعد سے اصل مقاصد کی طرف پہلا قدم بڑھایا گیا ہے۔ اصل مقصد جموں و کشمیر کا مسلم تشخص اور مسلم اکثریتی کردار مرحلہ وار تبدیل کرنا ہے۔ پانچ اگست اس راستے کی قانونی رکاوٹوں کو ہٹانے کا آغاز تھا۔ راہ کا پہلا پتھر ہٹ گیا مگر ابھی فسطائیت اور نازی ازم کی راہوں پر لمبا سفر باقی ہے۔ ان حالات میں وادی کے عوام کو بچانے کے لیے دو راستے اہم ہیں۔ اوّل یہ کہ عالمی ادارے آگے بڑھ کر مداخلت کریں اور پاکستان اور بھارت کی مشترکہ درخواست کا انتظار اور بھارتیوں کی جبینوں کی شکنوں کی پروا کیے بغیر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کمیشن کی رپورٹوں کی بنیاد پر مقبوضہ جموں وکشمیر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے قرارداد پاس کریں۔ اگر عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے لیے بزور طاقت رسائی حاصل کی جا سکتی ہے تو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے آہنی پردے کے پیچھے حقائق معلوم کرنے کے لیے ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ امریکہ اور اقوام متحدہ کے ذمہ دار ایسا چاہتے تو ہوں گے مگر وہ بھارت کی ناراضی کے ڈر سے اس خواہش کا برملا اظہار کرنے سے کترا رہے ہیں۔ یوں عالمی طاقتوں اور اداروں کی حالت یہ ہے کہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘۔ دوسراآپشن یہ ہے کہ تقسیم ہند کے اصول اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت پاکستان تنازعے کا اہم فریق ہے، اور پاکستان آگے بڑھ کر حالات کے بھنور میں چھلانگ لگا لے۔ یہ براہِ راست تصادم اور دوبدو لڑائی کا منظر ہے۔ شاید وقت اور حالات پاکستان کو اسی مقام تک لائیں، مگر پاکستان یک طرفہ طور پر اس سمت میں پہل کرتا نظر نہیں آتا۔ یوں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کشمیری عوام کو بھارت کے رحم وکرم پر یونہی یکا وتنہا چھوڑا جائے گا؟ یہیں سے آزادکشمیر کے عوام کا کردار شروع ہوتا ہے۔ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کا آزادی مارچ اس سوال کا جواب فراہم کرتا ہے۔ ریاستوں، حکومتوں اور اداروں کے لب مصلحت کے تاروں سے سل سکتے ہیں، اور ان کے ہاتھ پیر مصلحت کی زنجیروں میں جکڑے جا سکتے ہیں، مگر خلقِ خدا اور زمین زادوں کو آگ کی لکیر پر رقص سے روکا نہیں جا سکتا۔ بے بسی جب آخری حد کو چھونے لگتی ہے تو سرکشی کا رنگ اختیار کرتی ہے۔ آزادکشمیر کے عوام نے تاریخ کے جس دور میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کے لیے بے بسی محسوس کی تو اس فرسٹریشن نے سرکشی کو جنم دیا۔ کبھی یہ مضطرب عوام کی جانب سے کنٹرول لائن توڑنے کے لیے ہونے والے مارچ کی شکل اختیار کرتی رہی، اور کبھی جوانوں کو خاموشی سے ہزاروں فٹ برفانی گھاٹیوں کو عبور کرکے وادی میں داخل ہونے کی صورت میں ڈھلتی رہی۔ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ نے دنیا کی توجہ آزادکشمیر کے عوام کے بھڑکتے ہوئے جذبات کی جانب مبذول کرانے کے لیے آزادکشمیر کے ایک کونے بھمبر سے مارچ کا آغاز کیا جو مختلف علاقوں سے بڑے قافلوں کو اپنے جلو میں لیتا ہوا مظفر آباد پہنچا، جہاں سے قافلے نے رات قیام کرکے چکوٹھی کی راہ لی۔ مارچ میں ہزاروں پُرجوش افراد شریک تھے جن میں بوڑھے، جوان اور خواتین بھی شامل تھیں۔ شرکائے مارچ کا مطالبہ تھا کہ انہیں چکوٹھی کے کمان پل کے ذریعے مقبوضہ علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ چکوٹھی سے آٹھ کلومیٹر دور جسکول کے مقام پر آزاد کشمیر انتظامیہ نے رکاوٹیں کھڑی کرکے مارچ کو رو ک دیا، جس کے بعد شرکائے مارچ وہیں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔
جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد محمد یاسین ملک دہلی کی تہاڑ جیل میں اس انداز سے قید ہیں کہ بھارتی ادارے انہیں یاسرعرفات کی طرح قطرہ قطرہ زہر دے کر قدم بقدم موت سے قریب کررہے ہیں۔ اگر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوئے تو یاسین ملک کی گردن کے گرد رسّی ڈال کر ایک اور ’’مقبول بٹ‘‘ تیار کرنے کا سامان کیا جارہا ہے۔ ایسے میں لبریشن فرنٹ کا مارچ معاملے کی سنگینی کا احساس بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں اور اداروں کو اس احتجاج کو کشمیریوں کی جائز بے چینی سمجھ کر ڈیل کرنا چاہیے۔ مارچ میں بزرگ اور بچے بھی شامل ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ ایک مارچ سے حالات کا منظر ہی بدل جائے، مگرکنٹرول لائن کے اس جانب کے کشمیری اپنی فرسٹریشن اور غصہ کہاں اتاریں؟ وہ اُس پار کے لوگوں کے ساتھ ایک غیر تحریری عہدِ وفا میں بندھے ہیں۔ یہ عہد نامہ انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دے گا۔ جوں جوں مقبوضہ علاقے میں ستم کی گھٹا گھور اور جبر کی رات سیاہ ہوتی جائے گی، آزاد علاقے کے لوگ مشعل ِجاں لیے روشنی بکھیرنے کی اپنی سی کوششیں کرتے رہیں گے۔ آزادکشمیر کے عوام کسی معاہدے، ضابطے، حد بندی، باڑھ کے پابند نہیں۔ ان کا معاہدہ اور ضابطہ اُس پار کے لوگوں کے ساتھ درد اور وطن کا رشتہ ہے۔ یہ مضبوط بندھن انہیں آگ کے دریا میں کودنے پر بار بار مجبور کرتا رہے گا۔ اس دوران وزیراعظم عمران خان کا یہ ٹویٹ سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ کنٹرول لائن کی طرف مارچ بھارتی بیانیے کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ وزیراعظم کا یہ مؤقف خاصا بے موقع اور غیر ضروری تھا۔ یوں تو کشمیر 72 برس سے حالات کی صلیب پر جھول رہا ہے، مگر تین عشروں سے تو جھولتا بدن خون میں لتھڑا ہوا ہے اور قطرہ قطرہ خون ٹپک رہا ہے۔ ایک زمانہ اس منظر کو حیرت سے دیکھ رہا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں جب کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو بھارت نے اپنی فوج کی تعداد بڑھادی اور اسے جنگی ہتھیاروں سے لیس کرنے کے ساتھ ساتھ مرکزی قوانین کے زیادہ مہلک ہتھیاروں سے بھی نواز دیا۔ فوج نے عوام کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے ان اختیارات اور ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا، اور یوں وادی کشمیر المیوں کی سرزمین بن کر رہ گئی۔ روز ایک نہیں، کئی کئی نئی کہانیاں باہر آتیں اور انسانی ضمیر کو جھنجھوڑکر یادداشت کے صحرا میں گم ہوجاتیں۔ ان کہانیوں سے آزادکشمیر کے نوجوانوں کے دل موم ہوتے، اور آخرکار انہوں نے ہتھیاروں کے ساتھ چھپتے چھپاتے کنٹرول لائن عبور کرنے کا راستہ اپنانا شروع کیا۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے ایک اور ’’بوسنیا‘‘ اُبھرتا برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ ان پُرجوش نوجوانوں میں ہر نظریے کے لوگ تھے، وہ بھی جو کشمیر کو آزاد ریاست بنانا چاہتے، اور وہ بھی جو اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے۔ ان نوجوانوں کو پتا ہوتا تھا کہ کنٹرول لائن کی صورت میں انہیں پہلے مرحلے پر پلِ صراط کا سفر درپیش ہوگا۔ ہزاروں فٹ بلند برفانی پہاڑی چوٹیاں اور ہزاروں فٹ گہری کھائیاں اور گھنے اور ویران جنگل، اس پر مستزاد گشت پر مامور بھارتی فوجی اور بچھی ہوئی بارودی سرنگیں… یہ سب ان کے لیے پہلا مقتل ثابت ہوسکتا ہے، اور بے شمار لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا، جو سری نگر پہنچنے کی تمنا میں راہ کی انہی سختیوں کے بھنور میں گھر کر چیل کووں کے پیٹ کا ایندھن بن گئے۔ اس کے بعد وادی میں اترجائیں تو یہ بھی ایک قتل گاہ میں رقص ہی تھا۔ لیکن یہ نوجوان عورتوں اور بچوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کرنے والوں کو سبق سکھانا چاہتے تھے، یعنی جان لینے جاتے تھے۔ اس کے باوجود آزادکشمیر کے نوجوان اس جانب کشاں کشاں چلتے رہے۔ یہاں تک کہ عالمی دبائو پر ریاست پاکستان کی پالیسی تبدیل ہوئی۔ کئی کریک ڈائون ہوئے جس کے بعد ریاست اس قابل ہوئی کہ آزادکشمیر سے کسی نوجوان کو مسلح ہوکر وادی میں داخل نہ ہونے دے۔ اب آزادکشمیر کے نوجوانوں کے جان لینے پر پابندی ہے، اور وہ وادی کے محصور عوام کے لیے نعروں اور فریادوں کا سہارا لیے ہوئے ہیں۔ وہ جارحانہ پوزیشن پر کھیلتے کھیلتے اب مدافعانہ مقام پر کھڑے ہیں۔ اس بے بسی کی کیفیت میں حالات سے تنگ آکر آزادکشمیر کے نوجوان بار بارکنٹرول لائن کی طرف مارچ کی کوششیں کررہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ ایک محصور و مجبور بھائی کے ساتھ یکجہتی کا آسان طریقہ ہے۔ یوں کنٹرول لائن عبور کرنے کی ایک کے بعد دوسری کوشش ہورہی ہے، اور اس کے بعد بھی یہ کوششیں جاری رہیں گی۔ آزادکشمیر کے نوجوان نہتے ہوکر کنٹرول لائن کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ ان کا ہتھیار جان ہے جو ہتھیلی پر رکھی ہوتی ہے، کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ بھارتی فوج انہیں کنٹرول لائن عبور نہیں کرنے دے گی اور اس عمل کا نتیجہ گولیوں کی بوچھاڑ کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ اس طرح یہ جان لینے کا نہیں جان دینے کا جذبہ ہے۔ ایک بندوق بردار کے مقابل خالی ہاتھ کھڑا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جان دینا چاہتے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان کا ایک ٹویٹ سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کنٹرول لائن عبور کرنا انڈین بیانیے کے ہاتھوں میں کھیلنا ہوگا۔ جان لینے پرتو پابندی تھی، اب کشمیریوں کے جان دینے پر پابندی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اس وقت پاکستان بھارت کے دہشت گردی منترا کے ہاتھوں دبائو میں ہے اور ایف اے ٹی ایف میں بھارتی باشندوں نے پاکستان کو پوری طرح گھیرے میں لے رکھا ہے۔ 16 اکتوبر کو اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکلتا ہے یا اس میں مزید توسیع ہوتی ہے۔ پاکستان کو یہاں دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی کارکردگی رپورٹ پیش کرنا ہے۔ پاکستان کے بلیک لسٹ ہونے کا امکان اس لیے کم ہے کہ اس فورم پر چین، ترکی اور ملائشیا موجود ہیں جو پاکستان کے کھلے حامی ہیں۔گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان کو 37 میں سے 15 ممالک کی حمایت درکار ہے۔ بھارتی میڈیا نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ چیخ پکار شروع کردی ہے کہ پاکستانی سینا اب کنٹرول لائن مارچ کے نام پر کشمیر میں داخل ہونا چاہتی ہے۔ چانکیہ سیاست کے کیا کہنے! وہ تو کشمیر کو جس زاویے سے دیکھیں انہیں پاکستانی سیناکی شبیہ نظر آتی ہے، اور اسی نفسیاتی عارضے نے کشمیر کے حالات کو اُن کے لیے دلدل بنا رکھا ہے۔ اس مشکل مرحلے کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت کے پروپیگنڈے کے خوف سے ’اسٹیٹس کو‘ توڑنے کی ہر سوچ اور ہر کوشش کا ’’کریک ڈائون‘‘کردیا جائے۔کنٹرول لائن توڑنا نہتے عوام کے پاس جان دینے کا ایک کارڈ ہے، اور یہ کسی طور بھارتی بیانیے کی حمایت کے مترادف نہیں ہوسکتا۔ بھارت تو وادی کی داخلی مزاحمت اور عوامی مظاہروں کو بھی پاکستان کی کرشمہ سازی کہتا ہے، اور اگر وادی کے عوام اس الزام سے ڈر گئے ہوتے تو وہاں اس قدر بے مثال تحریک نہ چل رہی ہوتی، بلکہ چہار سو سکوت ِمرگ طاری ہوتا۔ بھارتی بیانیے کی تقویت کا خوف اگر طاری ہوگیا تو یہ مستقل روگ بن کر رہ جائے گا۔