برین ٹیومر عمر کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر عتیق احمد سے تبالہ خیال

دماغ اور اس سے متعلق بیماریوں میں دماغی سرطان(Brain Tumor) میں خاص طور پر اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کے لیے انگریزی میں glioblastoma کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں یہ مرض زیادہ تر مرد حضرات کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2035ء تک برین ٹیومر کے شکار افراد کی تعداد ڈھائی یا تین کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔ اس اہم موضوع پر ہم نے پروفیسر ڈاکٹر عتیق احمد سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر عتیق احمد ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے شعبہ سرجری کے سربراہ ہیں اور سرجری کے شعبے میں اپنا بڑا اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ آپ کے والد چیسٹ اسپیشلسٹ تھے اور والدہ پروفیسر رہی ہیں۔ آپ کی ساری تعلیم کراچی میں ہوئی اور جناح ہسپتال سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ کچھ عرصے یوکے میں رہے، پھر پاکستان آگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تصویر چھاپنے سے منع کیا تھا اس لیے ہم ان کے احترام میں نہیں چھاپ رہے۔ آپ سے دماغی سرطان، اسپائن کینسر، ٹروما، انجریز، انفیکشن،کمر اور اعصابی درد، موبائل فون کے استعمال اور ٹیومر جیسے موضوعات پر تفصیلی گفتگو ہوئی، جو نذرِ قارئین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال:برین ٹیومر کیا ہے، کیسے ہوتا ہے، وجوہات کیا ہیں؟
ڈاکٹر عتیق احمد: برین ٹیومر کی کوئی خاص وجہ نہیں، تاہم جب دماغ میں ابنارمل سیلز کی نشوونما حد زیادہ بڑھ جائے اور یہ ایک جگہ جمع ہوجائیں تو ٹیومر ہونے کے خدشات پیدا ہوجاتے ہیں۔ برین ٹیومر عمر کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے۔ دماغ کی رسولی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو وہ بچے جو پیدائشی طور پر اس عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں، جسے ہم جینیاتی (genetically) کہتے ہیں۔ آپ اسے یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک بچہ ہے جس کے پیدائشی طور پر جینز میں یہ بیماری موجود ہے اور وہ اس جینز کے ساتھ ہی اس دنیا میں آیا ہے۔ دنیا میں جینز ایکسپرٹ اس قدر ماہر ہیں کہ وہ بتاسکتے ہیں آپ کے والدین کو شوگر تھی یا بلڈ پریشر تھا تو اس کے چانسز آپ کے اندر بھی ہیں۔ تو جینز جو کہ پیدائشی طور پر اگر کسی بچے میں موجود ہیں تو اس میں ٹیومر موجود ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ یہ ان کے خاندان کا مسئلہ ہوتا ہے، اور اگر تحقیق کریں تو ان کے خاندان میں پہلے سے یہ بیماری موجود ہوگی۔ ان کے دماغ میں رسولیاں تھیں، ان میں کمر کی رسولیاں تھیں، آنکھوں میں یا جسم کے دیگر اعضا میں رسولیاں موجود تھیں۔ تو یہ موروثی ہوسکتی ہے۔ دوسری رسولیاں تیس یا چالیس سال کی عمر کے افراد یا عمر رسیدہ افراد میں نظر آتی ہیں۔
سوال: وہ خاص وجوہات کیا ہیں جن کی وجہ سے دماغ میں یہ رسولی اس عمر میں پیدا ہوتی ہے؟
ڈاکٹر عتیق احمد: اس کی تین سے چار بنیادی وجوہ ہیں۔ اب تک کی سائنسی ترقی کی روشنی میں اگر بڑی عمر یعنی تیس سے چالیس سال کی عمر کے کسی فرد کو دماغ کی رسولی ہے تو کچھ کو تو ہم کہتے ہیں معصوم رسولی۔ یعنی جو کینسر ٹائپ کی نہیں ہوتی، لیکن دماغ کی کچھ رسولیاں جو دماغ کے اندر کینسر کی طرح عوامل پیدا کرتی ہیں، دماغ کے اسٹرکچر کو نقصان پہنچاتی چلی جاتی ہیں تو اسے ہم کہتے ہیں کہ وہ کینسر ہے۔ اور کچھ رسولیاں ایسی ہوتی ہیں جو ایک جگہ منجمد رہتی ہیں اور دماغ کے دوسرے حصے کو متاثر نہیں کرتی بلکہ دماغ کے کسی ایک حصے کو متاثر کرلیتی ہیں، اور اگر ان کو آپ نکال دیں تو دوبارہ ان کے پیدا ہونے کا امکان ختم ہوجاتا ہے اور ان کے پھیلنے کے امکانات بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ دو طرح کی رسولیاں ہوتی ہیں ایک تو کینسر والی، ایک بغیر کینسر والی رسولی۔ ایک معصوم اور ایک ایگریسو۔ عام طور پر تیسری قسم کی رسولی جو عمر رسیدہ افراد میں دیکھنے کو ملتی ہے وہ اس قسم کی ہے جیسے کسی کے پیٹ میں کینسر موجود ہے، کسے کے گلے میں، کسی کے سینے میں کینسر تھا، کوئی سگریٹ پیتا تھا بہت زیادہ، اس کے پھیپھڑے میں کینسر ہوا جو بعد میں پھیل کر دماغ میں چلا گیا۔ یہ تیسری قسم کی رسولی ہے جو جسم سے پھیل کر دماغ میں چلی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چوتھی قسم کی رسولی جو آج کل ہندوستان اور پاکستان میں زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے وہ انفیکشن کی وجہ سے بن رہی ہے۔ انفیکشن سے مراد جیسے ٹی بی کا انفیکشن ہے۔
سوال: دماغ کی ٹی بی کیا ہے؟ اس بارے میں بتائیے۔
ڈاکٹر عتیق احمد: اب دماغ کی ٹی بی بھی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو گردن توڑ بخار کی شکل میں ہوتی ہے، جس سے لوگوں کی جان چلی جاتی ہے۔ دوسری ٹی بی کی رسولیاں ہوجاتی ہیں۔ یعنی ٹی بی ایک جگہ جمع ہوکر ایک رسولی کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے جسے ہم ٹیوبر کلوماز کہتے ہیں۔ اس کے دو طرح کے علاج ہیں، اس میں ٹی بی کی دوا بھی دیتے ہیں اور اگر آپریشن کی ضرورت ہو تو اسے آپریٹ بھی کیا جاتا ہے۔
سوال: پاکستان میں کتنے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں؟
ڈاکٹر عتیق احمد: پاکستان میں دو چار کیسز ہم نے کیے ہیں۔ لیکن ضروری ہے کہ ہم اس قابل ہوں اس معیار اور اس طرز پر تحقیق کے لیے کہ ہم جینسیز پر کام کریں، جینٹک ریسرچ کریں۔ اس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ہم اپنے ہاں ایسا سسٹم متعارف کرائیں جس میں بنیادی نیورو سرجری کی سہولیات عام لوگوں کو ملنا شروع ہوں، اور اس حوالے سے جو دنیا کا معیار ہے اُس پر آسکیں۔ یہ تحقیق کی باتیں اس کے اگلے مرحلے کی ہیں۔
سوال: برین ٹیومر یا دماغ کے سرطان کی علامات کیا ہیں، اس کی خاص تشخیص ہوتی ہے؟ عام فزیشن اس کی تشخیص کرسکتا ہے؟
ڈاکٹر عتیق احمد: اس کی تشخیص کے لیے سمجھیے کہ ایک بچہ ہے جو نہ بول سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے، ابھی بہت چھوٹا ہے۔ ایک بڑا آدمی ہے جو کہ اظہار کرسکتا ہے اپنی تکلیف کا کہ میرے سر میں درد ہورہا ہے، میرا جی متلا رہا ہے، مجھے نظر میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ اندھا پن آنا، ہاتھ پیر میں معذوری آنا، فالج کا اٹیک ہوجانا، دورے یا جھٹکے پڑنا، بے ہوش ہوجانا، نگلنے میں پریشانی ہونا، نیند کا غائب ہوجانا، سننے میں پریشانی لاحق ہونا، بولنے میں مشکل پیدا ہونا، الفاظ کی ادائیگی میں دشواری یا آواز کا چلے جانا۔۔۔۔۔ یہ تمام علامات دماغ کی رسولی کی ہیں۔ بچوں کے حوالے سے یہ ہے کہ ماں باپ اُس وقت بچے کو لاتے ہیں جب وہ بے ہوش ہوجائے، دورہ یا جھٹکا پڑ جائے۔ اُس وقت تک بچہ ظاہر ہے بتا نہیں پاتا، ایسے میں خاص طور پر بچوں میں عام فزیشن کو بھی دیکھتے رہنا چاہیے۔ ماہرین کو بھی اس جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ عام فزیشن کی تربیت کا اہتمام کریں۔ دنیا میں فیملی میڈیسن بنیادی اسٹرکچر ہوتا ہے پوری دنیا میں مریض کو ریفر کرنے کا۔ پراپر جگہ پر جو فزیشن کلینک پر بیٹھا ہوا ہے یا سب سے زیادہ مریض دیکھ رہا ہے اُس کی تربیت کرنا ضروری ہے۔ چھوٹے بچوں میں ایک علامت اور ہے کہ ان کے سر کا سائز بڑا ہوجاتا ہے۔
سوال: کیا بچوں میں موبائل کے استعمال سے بھی برین ٹیومر یا دماغ کا سرطان ہوسکتا ہے یا ہورہا ہے؟
ڈاکٹر عتیق احمد: اصل میں سماعت کی ایک نس ہے جو دماغ تک آواز پہنچاتی ہے۔ اس کے اندر رسولیاں بن جاتی ہیں۔ ان کے بننے کی بہت ساری وجوہ ہیں۔ ابھی تک اس پر مصدقہ ثبوت کوئی نہیں ہے۔ جیسے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ لوگ جو کہ ایئر فورس میں کام کرتے ہیں، جن کے قریب جہازوں کی آوازیں بہت زیادہ سنائی دیتی ہیں اس کی وجہ سے ان کی سماعت بھی چلی جاتی ہے اور ان کے دماغ میں رسولی بننے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ جو ہائی ٹینشن وائرز کے نیچے رہتے ہیں، گیارہ بارہ ہزار وولٹ کے نیچے ان کا گھر ہے تو کہتے ہیں کہ یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے رسولی بننے کی۔ اسی طرح ایک نئی ریسرچ یہ ہے جس کے بارے میں آپ پوچھ رہے ہیں کہ موبائل فون استعمال کرنے سے ہوسکتی ہے، تو اس کا کوئی باقاعدہ مصدقہ ثبوت یا ایسا کوئی دستاویزی ثبوت جس کی بنیاد پر ہم تحقیق کرتے ہیں ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ سارے غیر تصدیق شدہ خدشات ہیں۔
سوال: موبائل فون کے استعمال کے حوالے سے اکثر تحقیقات ہوتی ہیں کہ اس کا استعمال ذہنی صحت کے لیے بہت خطرناک ہے؟
ڈاکٹر عتیق احمد: موبائل فون کے جہاں فوائد ہیں وہاں نقصانات بھی ہیں۔ عام طور پر جیسے لوگ باتیں کرتے ہیں کہ اتنا موبائل استعمال کرنے سے دماغ کا کینسر ہوسکتا ہے یا بینائی یا سماعت جا سکتی ہے۔ تو اس حوالے سے تحقیق میں اس بات کے اب تک بہت زیادہ شواہد نہیں کہ ایسا کچھ ہے، لیکن یہ ایک تھیوری ہے اور جب تک اس پر مکمل تحقیق نہیں ہوجاتی اس کا آپ ٹھیک اندازہ نہیں لگا سکتے کہ رسولی اسی وجہ سے ہوئی ہے۔ بطور نیورو سرجن میں کم از کم ایسا نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہماری تحقیق میں یا ٹیکسٹ بک میں ایسی کوئی بات ابھی تک شائع نہیں ہوئی ہے۔
سوال: ایک تازہ رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ معمول کے ٹیسٹ جن میں ایکسرے، سی ٹی اسکیننگ اور ایم آر آئی وغیرہ شامل ہیں، مرض کی تشخیص میں آسانی کے بجائے مریضوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے کہ ہم جو ایکسرے کرواتے ہیں، سی ٹی اسکین کرواتے ہیں، ایم آر آئی کرواتے ہیں اس سے بھی برین ٹیومر لاحق ہونے کا اندیشہ ہے؟
ڈاکٹر عتیق احمد: ایکسرے تو ایک قسم کی ریڈی ایشن ہے۔ 100ایکسریز کو اگر آپ جمع کرکے اس کی بیم بنائیں تو وہ سی ٹی اسکین کہلاتا ہے۔ یعنی ایک سی ٹی اسکین کا مطلب سو ایکسرے۔ اور آپ کو جان کر بڑی حیرت ہوگی کہ ایئرپورٹس پر سی ٹی اسکین لگا ہوا ہے، جو آپ کا سامان چیک ہوتا ہے وہ سی ٹی اسکینر ہی سے ہوتا ہے۔ وہیں یہ آئیڈیا آیا تھا کہ جب یہ باکس کے اندر چیزیں دکھا رہا ہے تو دماغ کے اندر بھی دکھائے گا۔ سی ٹی اسکین تو آپ کا ویسے بھی ہورہا ہے۔ آپ جب مالز میں جاتے ہیں، جہاں جہاں آپ کی تلاشی ہوتی ہے، اسکینر سے گزرتے ہیں، ریڈی ایشن تو آپ کو لگ رہی ہے۔ سی ٹی اسکینر ایک ریڈی ایشن ہے، اس سے برین ٹیومر کے حوالے سے خدشات تو نہیں البتہ اس کے اپنے نقصانات ہیں۔ چونکہ یہ پورے جسم پر آپ کو لگتے ہیں اور ایک تھیوری ہے کہ اوور ایکسپوژر آف ریڈی ایشن باعث ہوسکتا ہے برین ٹیومر یا دماغ کے سرطان کا۔ باقاعدہ اس پر کام ہوا ہے۔ بار بار ریڈی ایشن سے رسولیاں پیدا ہوسکتی ہے۔ سی ٹی اسکینر کی اتنی کم ریڈی ایشن ہے کہ اس کی وجہ سے کم امکان ہے۔ لیکن آپ ہزاروں سی ٹی اسکین کرتے جائیں تو پھر تو ہوسکتا ہے۔ جبکہ ایم آر آئی ایک نان ریڈیٹیو ٹول ہے جس میں کوئی ریڈی ایشن نہیں ہوتی بلکہ اس میں ایک میگنیٹک فیلڈ کے ذریعے دماغ کی تصویر کھینچ لی جاتی ہے، تو اس کا ریڈی ایشن سے کوئی تعلق نہیں، اور وہ سی ٹی اسکین کے مقابلے میں نقصان دہ نہیں ہے انسانی جسم پر۔ اور دونوں الگ الگ تشخیصی عوامل ہیں۔ کہیں سی ٹی اسکین کرانا ضروری ہوتا ہے تو کہیں ایم آر آئی۔
سوال :کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت برین ٹیومر کا 90 فیصد علاج پاکستان میں ممکن ہے ؟
ڈاکٹر عتیق احمد:ہماری سرجیکل اسکلز آف ایکسپرٹیز ہیں۔ نیورو سرجن بننے کے لیے ہی پندرہ سے بیس سال درکار ہیں، اس جگہ پر پہنچنے کے لیے کہ وہ تمام چیزوں کو ہینڈل کرسکے اور بہترین طریقے سے لوگوں کو ڈیلیور بھی کرے اور سکھائے بھی۔ پاکستان سے لوگ باہر چلے جاتے ہیں۔ یہاں ایکسپرٹیز ڈیویلپ ہی نہیں ہوپاتیں، جبکہ ہمارے ملک میں اس کی بہت شدید ضرورت ہے۔
سوال: اسپائنل ٹروما (spinal trauma)کیا ہے، اس کے بارے میں کچھ بتائیے؟
ڈاکٹر عتیق احمد: پاکستان میں دیکھنے میں آیا ہے کہ اسپائنل ٹروما کے بارے میں آگاہی بالکل نہیں ہے۔ اگر ایک بچہ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر رانگ وے جائے اور گر جائے، اس کی گردن کا مہرہ نکل جائے تو وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہوجاتا ہے۔ ہاتھ پیر بے کار ہیں۔ دیکھ سکتا ہے، سن سکتا ہے، بات کرسکتا ہے لیکن چل نہیں سکتا، اٹھ نہیں سکتا، لیٹا ہوا ہے۔ جوان بچے ہمارے پاس موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ کے آرہے ہیں آج کل، چھتوں سے گرے ہوئے پیشنٹ آرہے ہیں۔ چھتوں پر بائونڈری وال نہیں ہیں۔ یہ بنیادی مسائل ہیں جس کی آگاہی نہیں ہے۔ اگر حکومت اس حوالے سے کچھ مدد کرے تو اس کی شرح میں کمی ممکن ہے۔ یہ ایک طرح سے بہت مشکل ہے کہ مریض زندہ ہے لیکن وہ آکر لیٹ گیا ہے اور اس پر دو گنا، تین گنا خرچ آرہا ہے، اور لامحالہ وہ بچے گا نہیں، مرجائے گا۔ کئی مہینے یا چند سال رہ لے گا اگر اس کے گھر کے حالات اچھے ہوں اور اس کی دیکھ بھال بہت اچھی ہو۔ لمبے دوپٹوں اور لمبے عبایوں کے ساتھ خواتین موٹر سائیکل پرسفر کرتی ہیں۔ بعض اوقات یہ چین میں پھنسنے سے گردن پر جھٹکا آجاتا ہے اور گردن کا مہرہ ٹوٹ یا کھسک جاتا ہے۔ یہ وہ ضروری آگاہی ہے جو ہمیں سب کو دینی چاہیے کہ وہ اس بارے میں خیال رکھیں۔
سوال: گردن کے مہروں کے حوالے سے کون سی بیماریاں عام ہیں؟
ڈاکٹر عتیق احمد: گردن کے مہروں کے حوالے سے عام لوگوں میں اصطلاح پائی جاتی ہے کہ مجھے سروائیکل ہوگیا ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جیسے آپ کی ملازمت ہے۔ بہت سے لوگ کمپیوٹر کے آگے بیٹھ کر کام کررہے ہیں، ان میں ریڑھ کی ہڈی میں پریشانی ہوسکتی ہے۔ جو لوگ کھدائی وغیرہ کا کام کررہے ہیں ان کو بیک کے پرابلم زیادہ ہوتے ہیں، یا ویٹ لفٹنگ کررہے ہیں تو ریڑھ کی ہڈی پر بہت زیادہ پریشر ڈالنے سے نقصان ہوسکتا ہے۔ جھکنا کیسے ہے اور وزن کیسے اٹھانا ہے، اس بارے میں معلومات ہونی چاہیے۔ مہروں کے آپس میں گھسنے سے، رگڑنے سے ان میں نوکیں پیدا ہوجاتی ہیں اور وہاں پر جگہ تنگ ہوجاتی ہے، حرام مغز پر دبائو آتا ہے جسے ہم سروائیکل بھی کہہ سکتے ہیں۔
سوال: پٹھوں میں درد، اعصابی کھنچائو اب عام سی بات ہے، اس سے بچائو کیسے ممکن ہے؟
ڈاکٹر عتیق احمد: ہر مرض کے علاج کا پہلا اصول ہے اس کی تشخیص۔ ہمارے روزانہ کے مشاہدے میں آتا ہے کہ لوگوں میں پٹھوں میں کھنچائو، درد اور تکلیف ہوتی ہے جس کی بنیادی وجہ لائف اسٹائل موڈی فکیشن ہے، جیسے کوئی اگر بینک میں کسی جگہ ملازمت کرتا ہے تو وہ اس بات کا خیال رکھے کہ کرسی پر درست انداز میں بیٹھے، کرسی کو درست رکھے۔ کوئی اگر مزدور ہے، وزن لے کر چلتا ہے تو اُسے ہمیں بتانا پڑے گا کہ آپ کو اپنی کمر کو اس طرح استعمال نہیں کرنا اور احتیاط سے وزن اٹھانا ہے۔ اسی طرح آج کل بہت عام سی بات ہے کہ ہر گھر میں ڈسپنسر ہے اور 19 لیٹر کی بوتل ہے جو بچے بھی اٹھا کر ڈسپنسر میں لگاتے ہیں۔ اس سے بھی بہت سے لوگ کمر درد کی تکالیف کے ساتھ آرہے ہیں۔ جوتوں کا استعمال ٹھیک ہو، جوتے ایسے استعمال کریں جو پیر، گھٹنوں اور کمر کے لیے آرام دہ ہوں۔ گاڑی چلاتے وقت آپ کو خیال رکھنا ہے کہ کمر سیدھی رہے۔ ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جن کا خیال رکھنا چاہیے۔ لیکن بات پھر وہیں آتی ہے کہ مرض کی پہلے تشخیص ضروری ہے۔
سوال: آج کل ہر دوسرا شخص کمر کے درد کی شکایت کرتا ہے۔ کمر کا درد کس حد تک خطرناک ہوسکتا ہے؟
ڈاکٹر عتیق احمد: کمر کا درد بھی بہت عام ہے۔ اس میں بھی لوگ احتیاط نہیں کرتے۔ موٹر سائیکل چلاتے ہیں، اس کی جمپ خراب ہیں، سڑکیں خراب ہیں۔ مزدور لوگ کام کرتے ہیں، ان میں یہ شکایات عام ہیں۔ اگر پیٹ نکلا ہوا ہے اس کے وزن کی وجہ سے بھی کمر میں درد ہوجائے گا۔ پراپر ایکسرسائز نہ کرنے سے بھی کمر میں درد ہوجائے گا۔ روزمرہ کے معمولات ایسے ہیں جن میں بے احتیاطی ہو تو کمر میں درد ہوجائے گا۔ یہ تمام صورتیں ایسی ہیں جن میں احتیاط کرنے سے کمر کا درد ٹھیک ہوسکتا ہے۔
سوال: آپ سرجری، وہ بھی دماغ کی سرجری میں بڑا مقام اور تجربہ رکھتے ہیں۔ آپ کے طویل تجربے میں کوئی ایسا پیچیدہ آپریشن جسے آپ بتانا چاہیں، جو لوگوں کے لیے بھی ایک مثال ہو؟
ڈاکٹر عتیق احمد: زندگی میں کئی ایسے آپریشن کیے، کئی واقعات سے زندگی بھری ہوئی ہے۔ ٹیومر کے کئی ایسے کیسز آئے جن میں اندازہ تھا کہ وہ نہیں بچیں گے۔ آٹھ آٹھ گھنٹے اور بارہ بارہ گھنٹے کے آپریشن بھی ہوئے اور الحمدللہ مریض ٹھیک ہوکر گئے۔ ایک واقعہ جو میں آپ سے شیئر کروں گا کہ اس میں ایک سبق بھی ہے اور میرا ایمان اس سے بہت پختہ ہوا۔ ایک بچی تھی سات سال کی، ایک ڈاکٹر میرے پاس آیا اور اُس نے مجھ سے کہا کہ سر آپ دیکھیں یہ بچی بے ہوش ہوگئی ہے۔ میں نے جیسے ہی سی ٹی اسکین دیکھا تو اس میں بچی کے دماغ میں کافی خون جم گیا تھا۔ میں سارے کام چھوڑ کر بھاگا کہ اگر آپریشن فوراً کیا جائے تو یہ بچی بچ جائے گی، اور میں نے جاکر دیکھا تو بچی بے ہوش تھی۔ باپ اس کا بے چارہ بہت پریشان تھا اور وہ پرائیویٹ ہسپتال تھا۔ میں نے اس کے والد کو کہا کہ میں اس کو آپریشن تھیٹر لے جارہا ہوں باقی چیزیں آپ دیکھ لیجیے گا۔ ان کو میں نے بتایا کہ کم ٹائم ہے آپ کے پاس۔ تو ہم لے کر گئے اس کو آپریشن تھیٹر میں۔ ظاہر ہے وہاں پہلے انتظامات کرنے ہوتے ہیں۔ بے ہوشی کے ڈاکٹرکو ہونا چاہیے، آپریشن کے انسٹرومنٹس آپ کے پاس ہونے چاہئیں۔ ہمارے پاس تو اتنا ٹائم بھی نہیں تھا۔ لیکن لوگ چونکہ مجھے جانتے ہیں لہٰذا اسٹاف نے بھی اسی طرح تیزی دکھائی اور انتظامات بھی فوری ہوگئے۔ بے ہوشی کا ڈاکٹر نہیں پہنچا، تاہم ٹیکنیشن نے بچی کو پراپر بے ہوش کیا۔ جب ہم نے آپریشن شروع کیا تو مجھے لگا کہ شاید عجلت میں ہم سے کچھ گڑبڑ ہوگئی ہے، اسی اثناء میں مَیں نے دوبارہ سی ٹی اسکین دیکھا تو اندازہ ہوا کہ میں تو غلط سائیڈ آپریشن کرنے جارہا تھا، اللہ نے بچایا، لیکن تیاری میں ساری کرچکا تھا۔ میں نے آپریشن اسٹارٹ کیا ہی تھا اور نائف لگائی ہی تھی، جلد کٹتے ہی وہاں پر آگ کی چنگاری بلند ہوئی اور میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ آگ کیسے لگی۔ ہم نے جلدی سے دوبارہ بچی کو ٹیبل سے نیچے اتارا، زمین پر لٹایا، پانی ڈال کر آگ بجھائی۔ آگ کپڑوں میں لگ گئی۔ اس لمحے مجھے لگا کہ یہ بچی نہیں بچے گی۔ لیکن میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے بیٹھ کر دعا مانگی اور کہا کہ یااللہ جو بھی قوتیں اس کو روک رہی ہیں تُو ہماری مدد فرما۔ بطور نیورو سائنٹسٹ ان باتوں پر اعتماد کرنا میرے لیے ویسے بھی محال ہے کہ آپریشن کرتے ہوئے جلد میں آگ لگ سکتی ہے۔ بہرحال دوبارہ آپریشن شروع کیا تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ آپریشن کامیاب ہوا اور بچی اگلے دن ہوش میں آگئی، اس نے سیب کھایا اور چلنا پھرنا شروع کیا۔ اس کے والد کو میں نے بلایا اور پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں ایسا؟ میں آپ کو نہیں بتا سکتا جس تکلیف سے میں گزرا ہوں، آپ کی زندگی میں ایسے کیا معاملات خراب ہیں جو مجھے اتنی تکلیف ہوئی اور بچی کی جان پر بن آئی۔ ایک تو چوٹ لگنے کا طریقہ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ سائیکل سے گر کر اتنی گہری چوٹ لگ جانا، دماغ میں خون کا جم جانا۔ دوسری بات تو میں آپ کو نہیں بتاسکتا لیکن مجھے آپریشن میں بہت زیادہ رکاوٹ آئی۔ تو وہ کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے تو میں آپ کو ضرور سچ بتائوں گا۔ کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب میں سود کا کام کرتا ہوں۔ تو مجھے قرآن کی وہ آیت یاد آگئی جس میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ سود کا کام کرنے والے کے ساتھ اللہ کی اپنی جنگ ہے۔ ستّر مرتبہ بیت اللہ شریف میں زنا کرنے کے برابر گناہ ہے۔ یہ واقعہ ایسا ہے کہ ایک سرجن کے طور پر تو میرے لیے ناقابلِ یقین ہے۔