خیبر پختون خوا: صحت اصلاحات کے نام پرضلعی ہیلتھ اتھارٹی بل کی منظوری

ہیلتھ الائنس کی ہڑتال او راحتجاج

محکمہ صحت نے صوبے کے تقریباً تمام ہسپتالوں میں طبی عملے کی ہڑتال کی وجہ سے او پی ڈیز اور آپریشنوں کا نظام بری طرح سے متاثر ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ کے ذرائع کے مطابق پشاور سمیت صوبے کے تمام اضلاع میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کی اپیل پر طبی عملے نے ہڑتال کررکھی ہے، اس حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر تمام تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتالوں سے او پی ڈیز کے مکمل بند ہونے اور مریضوں کو شدید مشکلات کی نشاندہی پر مبنی مراسلے بھیجے جارہے ہیں، جن میں متعلقہ ہسپتالوں کی انتظامیہ کی جانب سے ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ کو ہڑتال کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھانے کی درخواستیں کی جارہی ہیں۔ ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ سے یہ مراسلے کارروائی کے لیے سیکریٹری صحت کو ارسال کیے جارہے ہیں۔ پشاور کے ایم ٹی آئی ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ ضلع میں ڈسٹرکٹ اور تحصیل سطح کے ہسپتالوں میں بھی او پی ڈیز سے بائیکاٹ کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہسپتالوں کی انتظامیہ متبادل انتظامات کے لیے محکمہ صحت کے فیصلے کا انتظار کررہی ہے۔ ہڑتال کی وجہ سے ہسپتالوں میں تمام چھوٹے بڑے آپریشن بھی معطل ہیں جس کی وجہ سے عام مریضوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ واضح رہے کہ خیبرپختون خوا محکمہ صحت کے ملازمین بشمول ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس، نرسز اور کلاس فور پچھلے دو ہفتوں سے ہڑتال پر ہیں جنہوں نے یہ ہڑتال گرینڈ ہیلتھ الائنس کے مشترکہ پلیٹ فارم سے صوبائی حکومت کی جانب سے ریجنل اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی بل کی صوبائی اسمبلی سے منظوری کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس کے بے پناہ تشدد اور درجنوں ملازمین کی گرفتاریوں کے خلاف شروع کررکھی ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹروں نے مولانا فضل الرحمان کے مارچ میں شمولیت سے متعلق اپنا اعلان واپس لیتے ہوئے کسی قسم کے سیاسی احتجاج سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے حکومت کو وزیر صحت کو ہٹانے کی بڑی شرط پیش کردی ہے، جبکہ مقدمات کے خاتمے اور غیر مشروط رہائی کے مطالبات کو دوسرے درجے پر رکھا گیا ہے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں میڈیا کو دی گئی بریفنگ میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کے رہنمائوں ڈاکٹر حضرت اکبر، ڈاکٹر رضوان راجپوت، ڈاکٹر انوارالحق، ڈاکٹر اسفندیار اور ڈاکٹر رضوان کنڈی نے بتایا کہ آزادی مارچ کی حمایت نہیں کرتے، کیونکہ بحیثیت ڈاکٹر یہ ان کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ سیاسی جماعتوں سے ملاقاتوں کا مقصد منتخب نمائندوں تک آواز پہنچانا تھا، تمام ہسپتالوں میں ہڑتال جاری رہے گی اور جمعرات کے روز لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاورمیں ہسپتالوںکی نجکاری کے خلاف مارچ میں ہیلتھ ملازمین کے ساتھ ساتھ مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی دعوت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مطالبات تسلیم کیے جانے تک میڈیکل سروسز بند رہیں گی لیکن ایمرجنسی شعبے میں مریضوں کو ٹریٹ کیا جارہا ہے، اور جو مریض او پی ڈی میں نہیں دیکھے جارہے ہیں انہیں ایمرجنسی شعبوں میں موجود ڈاکٹرز سے معائنے کی سہولت دی جارہی ہے۔ مقررین نے کہا کہ ایمرجنسی بند نہیں کررہے ہیں کیونکہ یہ میڈیکل اخلاقیات کے منافی ہے، ڈسٹرکٹ و ریجنل ہیلتھ اتھارٹیز کی صورت میں عوام پر ڈرون پھینکا گیا ہے، محکمہ صحت کے ملازمین کو ٹھیکیداروں کے ہاتھوں فروخت کیا جارہا ہے، ہسپتال میں تشدد کے بارے میں حکومت پشاور ہائی کورٹ کو ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیل کے اندر ان کے ساتھیوں کے ساتھ برا سلوک کیا جارہا ہے۔ 14دن بعد بھی وہ ابھی تک پھٹے اور میلے کپڑوں میں ہیں اور وکلا تک کو گرفتار افراد سے ملنے نہیں دیا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ پُرامن احتجاج میں تشدد سے 25 ڈاکٹر زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک ڈاکٹر کو کل ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا ہے اور18 ساتھی ہڑتال میں شریک ہیں۔ ترجمان گرینڈ ہیلتھ الائنس کا مزید کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے ساتھ وعدہ خلافی نہیں کرسکتے تھے اس لیے مشاورت کے ساتھ ہسپتالوں میں ہڑتال جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے وہ جیل میں ہی رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہڑتالی طبی عملے کے مطالبات دو مراحل پر مبنی ہوں گے، مذاکرات میں جانے کے لیے گرفتار افراد کی غیر مشروط رہائی، وزیر صحت کو فارغ کرنے اور ایس ایس پی آپریشن اور ڈاکٹر نوشیروان برکی کے خلاف تشدد کے الزامات کے ایف آئی آر درج کرنے کی شرط حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گی، اس کے بعد ہی قانون سے متعلق مذاکرات ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کے لیے اپنی لیگل کمیٹی کو ذمہ داری دے دی ہے جو کہ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ حیرت اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ پچھلے تقریباً دو ہفتوں سے صوبے کے تمام چھوٹے بڑے طبی مراکز بند ہیں، ملازمین سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں، ایمرجنسی کے سوا تمام خدمات معطل ہیں اور حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، حکومت کی ہٹ دھرمی اور غیر سنجیدگی سارے مسئلے کو مزید خراب کررہی ہے۔ رہی سہی کسر حکومت کے غیر سنجیدہ اور نااہل وزراء پوری کررہے ہیں، جن کے بے سر و پا بیانات اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس پر مزید تیل چھڑک رہے ہیں۔
اس ساری صورت حال کا نزلہ بیچارے عوام پر گر رہا ہے جنہیں یہ تک معلوم نہیں ہے کہ ڈاکٹر احتجاج کیوں کررہے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں عمران خان نے ان کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگائی ہے، کچھ کے نزدیک ڈاکٹروں کو اپنے ڈومیسائل والے علاقے میں ڈیوٹی کے لیے بھیجا جارہا ہے، اس لیے احتجاج کررہے ہیں، کچھ اس احتجاج کو سیاست دانوں کی چال سمجھ رہے ہیں… جتنے منہ اتنی باتیں۔ ان بیچاروںکو یہ پتا ہی نہیں کہ ڈاکٹروںکے احتجاج کی وجہ وہ قانون ہے جسے نہ صرف اپوزیشن کی تمام جماعتیں مسترد کرچکی ہیں بلکہ محکمہ صحت کا شاید ہی کوئی ملازم ہوگا جو اس قانون کے حق میں ہوگا۔
گرینڈ ہیلتھ الائنس کا دعویٰ ہے کہ پاس شدہ بل کے بعد محکمہ صحت کا موجودہ ڈھانچہ تبدیل کردیا جائے گا، ضلع اور ڈویژن کی سطح پر بورڈ آف گورنر کی تشکیل کی جائے گی۔ یہ پرائیویٹ لوگوں کا ایک گروہ ہوگا جو وزیر صحت کی زیر نگرانی کام کرے گا۔ یہ گروپ صحت کے تمام کاموں کا ذمہ دار ہوگا۔ اس گروپ میں کوئی سرکاری ملازم نہیں ہوگا بلکہ سب ریٹائرڈ اور پرائیویٹ لوگ ہوں گے جن میں سے دو ارکان کا صحت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا بلکہ یہ زیادہ تر سیاسی لوگ ہوں گے۔ یہی گروپ اپنے ضلع اور ڈویژن کے صحت کے سارے فیصلوں میں خودمختار ہوگا۔ نئے قانون سے سرکاری ملازمت کا تصور ختم ہوجائے گا سوائے ان کے جو موجودہ ملازمین ہیں۔ نئے ملازمین تین سالہ مدت کے لیے کنٹریکٹ پر بھرتی ہوں گے۔ صوبے سے سال میں صرف ایک دفعہ بجٹ دیا جائے گا۔ اسی بجٹ میں تمام امور چلانے ہوں گے۔ تنخواہوں سے لے کر ادویہ تک اسی بجٹ سے پوری کرنا ہوں گی۔ اس بل کے بعد ہسپتالوں کو زیادہ تر اخراجات خود پورے کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے عطیات اور قرض کا سہارا لے گی۔ لہٰذا جب ہسپتال کے پاس فنڈز نہیں ہوں گے تو وہ اپنے اخراجات کہاں سے پورے کرے گا؟ ایسے میں ظاہری بات ہے کہ ہسپتال پرچی، لیبارٹری ٹیسٹوں، الٹرا ساؤنڈ اور داخلے وغیرہ کے پیسے بڑھائیں گے جس کا بوجھ عام لوگوں پر پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں مریض آکر اپنا غصہ کس پر اتارے گا؟ کس کو گالی دے گا؟ کس کی بے عزتی کرے گا؟ اس سیاست دان کی، جس نے یہ قانون بنایا؟ جس نے پاس کیا؟ یا اُس آن ڈیوٹی ڈاکٹر کی جو خود اس ظالم بل کا نشانہ بنا ہے؟ اس کے علاوہ ڈاکٹروں پر اعلیٰ تعلیم اور اسپیشلائزیشن کے دروازے بھی بند کردیئے گئے ہیں جس کے نتیجے میں صوبے میں اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی شدید کمی ہوجائے گی۔ آج کل ڈاکٹر بغیر تنخواہ چھٹی لے کر اپنی اسپیشلائزیشن پوری کرکے واپس اپنی نوکری پر آجاتے ہیں اور بطور میڈیکل افسر کام کرتے ہیں حالانکہ ان کی قابلیت اسپیشلسٹ کی ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مریض سرکاری ہسپتال میں دس روپے کی پرچی پر ماہر ڈاکٹروں سے چیک اپ کرا لیتا ہے۔ صرف DHQ ہسپتال تیمرگرہ میں 30 ایسے اسپیشلسٹ ہیں جو میڈیکل افسر کے طور پر کام کررہے ہیں، جس کا فائدہ عام مریضوں کو پہنچ رہا ہے۔ اس طرح دوسرے DHQ ہسپتالوں میں بھی ماہر ڈاکٹر بڑی تعداد میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کا مؤقف ہے کہ زیر بحث بل آنے کے بعد ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم اور مریض اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی سہولت سے بہت حد تک محروم ہوجائیںگے۔ یاد رہے کہ اسی طرح کا ایک ناکام منصوبہ پہلے ہی حکومت MTI کی صورت میں تدریسی ہسپتالوں میں جاری کرچکی ہے۔ اس کے تحت تمام تدریسی ہسپتالوں کو محکمہ صحت سے الگ کرکے خودمختار ادارہ بنایا گیا ہے۔ ان تمام تبدیلیوں کو صحت اصلاحات کا نام دیا گیا ہے جس کے روحِ رواں وزیراعظم عمران خان کے امریکی نژاد کزن ڈاکٹر نوشیروان برکی ہیں۔ جب MTI کے نام پر اصلاحات ہورہی تھیں تو انہیں تمام ڈاکٹروں نے یہ سمجھ کر بہ خوشی قبول کیا تھا کہ شاید یہ نوشیروان برکی کے ذہن میں پیدا ہونے والے عظیم خیالات ہوں گے جن سے مریضوں اور ڈاکٹروں دونوں کو فائدہ پہنچے گا، مگر وقت کے ساتھ پتا چلا کہ یہ ایک مریض کُش اور غریب کُش منصوبہ تھا۔ جو لوگ پہلے سے ان ہسپتالوں میں جاتے رہے ہیں ان کو پتا ہوگا کہ تبدیلی سرکار سے پہلے اور بعد میں تمام فیسوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری ملازمین، مستحقینِ زکوٰۃ اور غرباء کے مفت علاج کا سلسلہ بہت حد تک ختم ہوچکا ہے اورIBP کی شکل میں سرکاری ہسپتالوں کے اندر پرائیویٹ پریکٹس شروع کی گئی ہے جہاں پر عوام اپنے علاج کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس نئے نظام کے تحت اسسٹنٹ پروفیسر سطح کے ڈاکٹر کی فیس بائیس سو روپے ہے، ایسوسی ایٹ اور فل پروفیسر کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس میں ہسپتال کا اپنا حصہ ہوتا ہے، یعنی جتنی زیادہ فیس ہوگی اتنا ہی سرکار کا فائدہ ہوگا۔ ابھی بھی عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ DHA، RHA بل کا نقصان ڈاکٹروں کو اتنا نہیں ہوگا جتنا عوام کو ہوگا۔ ڈاکٹر آج بھی مریض دیکھ رہے ہیں، کل بھی دیکھیں گے، فرق یہ ہوگا کہ آج 10 روپے کی پرچی پر اسپیشلسٹ ڈاکٹر سے معائنہ ہوجاتا ہے، کل اس سے زیادہ پر ہوگا۔ ڈاکٹروں کی تنخواہ موجودہ سے کم از کم دو گنا بڑھ جائے گی، لیکن اپنے مریضوں کا احساس کرنے کی وجہ سے انہوں نے یزیدِ وقت کی حکومت سے ڈنڈے کھائے، جیل گئے جہاں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوا،15 کے قریب ڈاکٹر ابھی بھی مردان جیل میں ہیں، صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے ان عوام کے لیے آواز اٹھائی جو انھیں گالیاں دیتے ہیں، اب آگے عوام کی مرضی ہے۔ اگر انہوں نے آج ڈاکٹروں کا ساتھ نہیں دیا،ان کے شانہ بشانہ کھڑے نہ ہوئے تو کل جب سرکاری ہسپتال میں بھی علاج برداشت کرنے کی سکت نہ رکھنے کا گلہ کریں گے تو یہی ڈاکٹر ان کو یاد دلائیں گے کہ ہم نے تو آپ لوگوں کو بروقت خبردارکردیا تھا لیکن آپ لوگ حکمرانوں کے بہکاوے میں آگئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق محکمہ صحت نے ہڑتالی ملازمین کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور میں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کے ماتحت 14 ملازمین کو ہسپتال کی ڈیوٹی سے فارغ کرکے مختلف دور دراز اضلاع میں ٹرانسفر کردیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈی جی ہیلتھ سروسز کے دفتر سے جاری اعلامیہ کے مطابق خیبر ٹیچنگ ہسپتال سے محکمہ صحت کے جن14ملازمین کا تبادلہ کیاگیا ہے ان میں کلاس فور ہمایوں کو اگلی تعیناتی کے لیے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کوہستان کو رپورٹ کرنے، کمپیوٹر آپریٹر بلال خان کو کولائی پالس کوہستان، کلاس فور غلام علی کو ڈی ایچ او کوہستان کو رپورٹ کرنے، کمپیوٹر آپریٹر سید ناصر علی شاہ کو تورغر، وارڈ اردلی بشیر اور اسد کو ڈی ایچ او اپر کوہستان کو رپورٹ کرنے اور وارڈ اردلی حیا خان کو تورغر تبدیل کردیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق دائی معراجہ اور دائی سعیدہ بیگم کی خدمات ڈی ایچ او چارسدہ، دائی قدرمنہ بی بی کو ڈی ایچ او صوابی کو رپورٹ کرنے، دائی زرجانہ کو ڈی ایچ او مردان، وارڈ اردلی مقبلی خان کو تورغر، اور سوئپر لیاقت مسیح کا تبادلہ کولائی پالس کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں تمام ملازمین کو خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور میں فوری طور پر چارج چھوڑنے اور نئے مقامات پر چارج کی رپورٹ بھی ڈائریکٹوریٹ کے ساتھ سات ایام میں شیئر کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ جب کہ ایم ٹی آئی خیبر میڈیکل کالج، خیبر ٹیچنگ ہسپتال، خیبر کالج آف ڈینٹسٹری کی سات رکنی مینجمنٹ کمیٹی نے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الدین آفریدی کو ملازمت سے سبکدوش کرنے کے احکامات بھی جاری کردیئے ہیں۔ ہسپتال میں ہڑتال کرنے اور طلبہ ڈاکٹرز کو اشتعال دلانے کے الزامات پر طلب کیے گئے شوکاز نوٹس کا جواب نہ دینے پر کمیٹی نے انہیں اسسٹنٹ پروفیسر سے سینئر رجسٹرار کے طور پر تنزلی دینے اور ان کی سروسز ختم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ کمیٹی کی جانب سے ہسپتال میں طبی ملازمین کی ہڑتال کو بھی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ڈکلیئر کرتے ہوئے ہڑتال کرنے والے تمام ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت مقدمات درج کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر ضیاء الدین نے کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر نوشیروان برکی پر بطور احتجاج کے ٹی ایچ میں انڈے پھینکے تھے جس پر وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان کے ذاتی باڈی گارڈز نے ڈاکٹر ضیاء الدین کو بری طرح زدوکوب کرکے لہولہان کردیا تھا۔
اسی دوران خیبر پختون خوا حکومت نے ڈاکٹروں کو ہڑتال پر اکسانے والے40 ڈاکٹروں کو نوکریوں سے فارغ کرنے کے لیے انہیں شوکاز نوٹس جاری کردیئے ہیں۔ حکومت نے واضح کیا ہے کہ بہت صبر کرلیا، اب مزید صبر نہیں کیا جاسکتا، اب ڈاکٹروں کے خلاف ایکشن ہوگا۔ گزشتہ روز اسمبلی کے احاطے میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ نے کہا کہ نیا قانون عوام کے لیے نقصان دہ نہیں، ایکٹ سب کے لیے موجود ہے، سب پڑھ سکتے ہیں، موجودہ نظام کومنظم کیا جا رہا ہے، جو ملازمین اس وقت بطور سول سرونٹ کام کررہے ہیں ان میں سے آخری بندہ 2058ء میں ریٹائر ہوگا اور یہ اُس وقت تک سول سرونٹس ہی رہیں گے، تاہم ایکٹ کے نفاذ کے بعد نئے بھرتی ہونے والے سول کے بجائے پبلک سرونٹ ہوں گے، عوام کو بہتر سہولیات ملیں گی۔ ہسپتالوں کی نجکاری نہیں کی جارہی ہے، ریجنل ہیلتھ اتھارٹیز فنڈز قائم کیے جائیں گے، حکومت ان اتھارٹیز کو فنڈز اور مالی تعاون فراہم کرے گی، اگر نجکاری کی جاتی تو آڈیٹر جنرل آف پاکستان ان اتھارٹیزکا آڈٹ نہ کرتے۔ وزیر صحت نے کہا کہ مینجمنٹ کیڈرکو انتظامی عہدوں پر تقرری میں ترجیح دی جائے گی۔ موجودہ ملازمین کی پنشن اور دیگر مراعات بحال رہیں گی۔ 700نئے ڈاکٹر بھرتی کررہے ہیں، وہ سول کے بجائے پبلک سرونٹ ہوں گے۔ وزیر صحت نے کہا کہ جو ڈاکٹر یا ٹی ایم اوز ہیں وہ ریجنل ہیلتھ اتھارٹیز کو ہی رپورٹ کریں گے۔ ڈاکٹروں کا ایک مخصوص ٹولہ ایسا کررہا ہے، ہڑتالی بازنہ آئے تو ان کے خلاف اب ایکشن ہوگا،40 ڈاکٹروں کو شوکاز نوٹس جاری کردیئے ہیں جس کا اختتام ان کی برطرفی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
بعض ذرائع سے یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ محکمہ صحت میں نئے قانون سے متعلق قائم صوبائی وزراء کی کمیٹی نے ڈسٹرکٹ اینڈ ریجنل ہیلتھ اتھارٹیز ایکٹ کو یکمشت سارے صوبے میں نافذ کرنے کے بجائے آزمائشی بنیادوں پر دو ریجنز میں نافذ کرنے کی سفارش کردی ہے۔ اس سلسلے میں سفارشات کا مسودہ محکمہ صحت کو ارسال کردیا گیا ہے جس کی روشنی میں حتمی فیصلہ آئندہ چند روز میں اعلامیے کے ذریعے کردیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق نئے قانون کے نفاذ پر محکمہ صحت کے تمام کیڈر کے ملازمین کی جانب سے شدید اعتراضات کی روشنی میں محکمہ صحت میں ایکٹ کو صرف ایک ڈویژن میں نافذ کرنے پر غور کیا گیا تھا جس میں پشاور کو رول ماڈل قرار دینے کی تجویز تھی، لیکن چونکہ پشاور میں تینوں تدریسی ہسپتال ایم ٹی آئی ایکٹ میں شامل کیے گئے ہیں اس لیے بہت کم ہسپتال اس تجربے کے لیے موجود تھے جہاں پر ملازمین کی مزاحمت کا خدشہ بھی کم تھا، لیکن ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ہڑتالی ملازمین اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے تین صوبائی وزراء سلطان محمد خان، محب اللہ خان اور اکبر ایوب پر مشتمل کمیٹی نے بھی ایکٹ کوآزمائشی طور پر نافذ کرنے کی سفارش کردی ہے، اس حوالے سے ایک ڈویژن جنوبی اضلاع اور ایک ڈویژن شمالی علاقہ جات سے منتخب کرنے کی منصوبہ بندی پر بھی غور کیا گیا ہے، جس میں ڈی آئی خان اور ہزارہ ڈویژن سے اسٹارٹ لینے کی سفارش کی گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ مذکورہ سفارشات کی بنیاد پر محکمہ صحت کی جانب سے نئے قانون کو آئندہ چند روز میں ڈی آئی خان اور ہزارہ ڈویژن میں نافذ کرنے کے حتمی فیصلے کی روشنی میں اعلامیہ جاری کردیا جائے گا۔