جناب ادریس بختیار کے انتقال کے صرف ساڑھے تین ماہ بعد جناب عثمان اجمیری کی اچانک وفات اہلِ صحافت کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔ یہ صدمہ اس وجہ سے بھی زیادہ گہرا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں مرحومین میں کئی مماثلتیں موجود تھیں۔ دونوںکے آباء کا وطن اجمیر تھا۔ دونوں 1940ء کی دہائی میں ولیِ کامل خواجہ معین الدین چشتیؒ کے شہر میں پیدا ہوئے۔ دونوں کے خاندانوں نے تقسیمِ ہند کے وقت اجمیر سے ہجرت کرکے حیدرآباد سندھ میں سکونت اختیار کی۔ دونوں نے اسی شہر میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ دونوں نے صحافت کو بطور پیشہ اپنایا اور اسی شہر سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا۔ دونوں نظریات کے اعتبار سے دائیں بازو کے صحافی تھے، لیکن خبر اور تجزیے کے معاملے میں نظریات کے بجائے پیشہ ورانہ دیانت پر قائم رہے۔ دونوں نے صحافیوں کی سیاست میں بھرپور حصہ لیا اور مرتے دم تک صحافیوں کے ایک ہی دھڑے سے وابستہ رہے۔ ادریس بختیار تو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے صدر ہوئے، جبکہ عثمان اجمیری چیئرمین پی ڈی ایم کے پُروقار مقام تک پہنچے۔
عثمان اجمیری حیدرآباد شہر کا ایک چلتا پھرتا کردار اور صحافتی دنیا کی رونق تھے۔ حیدرآباد جیسے اہم صحافتی مرکز میں 60 سال تک نوائے وقت جیسے مؤقر اخبار سے بطور بیورو چیف وابستہ رہے۔ اس حیثیت سے وہ سیاست اور صحافت کی تین نسلوں کے شناسا تھے۔ وہ بھری جوانی میں اس دشت کی سیاحی کے لیے آئے، اور پھر جوانی، ادھیڑ عمری اور بڑھاپا سب اسی دشت سیاہ مست کے نام کردیا۔ 1960ء کی دہائی میں جب روزنامہ نوائے وقت ابھی کراچی سے اپنی اشاعت کا آغاز نہیں کرپایا تھا اور لاہور ہی سے شائع ہوکر حیدرآباد پہنچتا تھا، اُس زمانے میں ڈاکٹر بشارت ناگی اس شہر میں اس اخبار کی نمائندگی کرتے تھے۔ وہ لاہور کے رہنے والے تھے اور تعلیم کے لیے لیاقت میڈیکل کالج جامشورو آئے تھے۔ وہ اس میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں قیام پذیر تھے۔ اپنے ادبی اور صحافتی میلانِ طبع کے باعث حیدرآباد میں نوائے وقت کے نمائندے کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ عثمان اجمیری نے غالباً ان ہی کے ساتھ اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اُن کا خاندان شہر کے وسط میں پنسار کا وسیع کاروبار کرتا تھا، مگر نوجوان عثمان اجمیری کاروبار کے بجائے لکھنے پڑھنے میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ ڈاکٹر ناگی کے ساتھ کام کرتے ہوئے انہیں اُن کی محنت اور دلچسپی نے بہت فائدہ پہنچایا۔ چنانچہ جب ڈاکٹر بشارت ناگی کی تعلیم مکمل ہوگئی اور وہ ایم بی بی ایس کی ڈگری کے ساتھ واپس لاہور جانے لگے تو عثمان اجمیری کو نوائے وقت حیدرآباد کا نمائندہ مقرر کردیا گیا۔ یہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے اقتدار کے آخری سال تھے۔ تب سے عثمان اجمیری نے اپنی موت تک اس پیشے اور اس اخبار کے ساتھ اپنی وفاداری اس انداز میں نبھائی کہ وفاداری کا حق ادا ہوگیا۔ اس پورے عرصے کے دوران وہ صحافتی ٹریڈ یونین میں بھی فعال کردار ادا کرتے رہے، لیکن چونکہ شہر ہی نہیں سندھ، بلکہ پورے ملک کے سیاسی، سماجی، علمی، صحافتی، ادبی اور کاروباری حلقوں میں اُن کی قابلِ قدر پذیرائی تھی اس لیے وہ صحافتی حلقوں کی عہدیداریوں سے بچتے رہے، لیکن ہر موقع پر صحافیوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ حیدرآباد کے صحافی اس بات کی گواہی دیں گے کہ حیدرآباد پریس کلب کے قیام، تعمیر اور اس کو چلانے کے لیے وہ ہر دور میں فنڈز کے حصول اور فراہمی کے لیے سرگرم رہے۔ صحافتی ٹریڈ یونین کو بھی وہ اپنے تعلقات کے ذریعے فنڈز کی فراہمی کا بندوبست کرتے۔
میں ذاتی طور پر 1970ء کی دہائی سے نوائے وقت میں شائع ہونے والی اُن کی خبروں، رپورٹوں اور ڈائریوں کے باعث اُن کا ایک گمنام قاری تھا۔ پہلے یہ ڈائریاں اور رپورٹیں نوائے وقت لاہور میں شائع ہوتی تھیں، بعد میں کراچی سے نوائے وقت کی اشاعت کے بعد یہ نوائے وقت کراچی میں چھپنے لگیں۔ 1980ء کی دہائی کے آخری برسوں میں میرا حیدرآباد آنا جانا شروع ہوا تو حیدرآباد کے صحافیوں جناب ظہیر احمد، جناب عبدالحفیظ عابد، جناب علی حسن، جناب شاہد شیخ، جناب رئیس کمال، جناب عزیز اللہ ملک، جناب سلیم قریشی مرحوم اور جناب طاہر رضوی مرحوم کے ساتھ ساتھ جناب عثمان اجمیری کے ساتھ ملاقاتوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگیا جو اُن کی موت سے صرف دس دن پہلے تک چلتا رہا۔ میں حیدرآباد آتا تو جناب عثمان اجمیری سے پریس کلب حیدرآباد میں ملاقاتیں رہتیں۔ وہ کئی بار کھانے اور چائے کے لیے دیالداس کلب بھی لے جاتے۔ ایک بار انہیں میری حیدرآباد آمد کا علم ہوا تو خود پیدل چل کر میرے پاس تشریف لے آئے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کی فیڈرل ایگزیکٹو کونسل کے ہر تین ماہ بعد ہونے والے اجلاسوں میں بھی اُن سے ملاقاتیں رہتیں۔ وہ اہتمام کرکے لاہور، راولپنڈی، رحیم یار خان، ملتان اور بہاولپور کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے آتے۔ ایک بار دو سالہ مندوبین کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ پہلے ہر بار انتخابات میں بآسانی فیڈرل ایگزیکٹو کونسل کے رکن منتخب ہوجاتے۔ ان اجلاسوں میں وہ عام طور پر خاموش رہتے، لیکن جب ضرورت ہوتی تو بڑی اہم، اور گہرے انداز میں اپنی رائے دیتے۔ ایف ای سی کے کئی اجلاسوں میں اُن کی اہلیہ محترمہ بھی ساتھ ہوتیں، اجلاس ختم ہوتے ہی یہ دونوں بزرگ مزارات پر حاضری کے لیے نکل جاتے۔ ہر مزار پر پہنچ کر ہم جیسے گناہ گاروں کے لیے دعا کرتے اور موبائل پر اس کا پیغام بھی عنایت فرما دیتے۔ کوئی دو سال قبل وہ مزارات پر حاضری کے لیے آئے تو لاہور میں کئی دن قیام پذیر رہے، اس دوران وہ تقریباً روزانہ ملاقات کے لیے تشریف لے آتے تو لمبی گپ شپ رہتی۔ انہوں نے مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے ایک دو پروگراموں میں پوری دلچسپی کے ساتھ شرکت کی۔ تقریباً روزانہ ہی وہ نوائے وقت لاہور کے دفتر میں جاتے اور دوستوں سے مل کر خوش ہوتے۔ ایک روز نوائے وقت کی موجودہ چیف ایگزیکٹو رمیزہ نظامی سے ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے بڑی عزت افزائی کی۔ اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئیں اور انتہائی عزت کے ساتھ کھانا کھلا کر رخصت کیا۔ وہ بار بار کہتی رہیں کہ آپ ہمارے بزرگ اور نوائے وقت کے انتہائی سینئر اسٹاف ممبر ہیں، ہماری رہنمائی کرتے رہا کریں۔ جناب عثمان اجمیری پیدل چلنے کے شوقین تھے یا اس کے عادی ہوگئے تھے۔ وہ لطیف آباد نمبر 11 سے روزانہ پیدل چل کر اپنے دفتر اور پریس کلب پہنچتے، وہاں کچھ وقت گزار کر واپس پیدل گھر لوٹ آتے۔ 2018ء میں وہ اسی طرح پیدل چلے جارہے تھے کہ ایک موٹر سائیکل کی ٹکر سے ان کے کولہے کی ہڈی فریکچر ہوگئی جس کے باعث وہ تقریباً ایک سال تک صاحبِ فراش رہے۔ اِس سال فروری میں صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے پیدل چلنے کی روش دوبارہ اپنالی، مگر تھوڑی کمی کے ساتھ۔ میرا اِس دوران ٹیلی فون پر اُن سے رابطہ رہتا۔ میں اُن سے چھیڑ چھاڑ کرتا تو وہ نہایت تحمل اور خوش دلی سے سن لیتے اور ڈھیر ساری دعائیں دیتے۔ 9ستمبر 2019ء کومیرا حیدرآباد آنا ہوا تو میں جناب عبدالحفیظ عابد کے ساتھ جناب عثمان اجمیری سے ملاقات کے لیے اُن کے گھر واقع لطیف آباد نمبر 11 حاضر ہوا۔ وہ نہایت تپاک سے ملے۔ بڑی خاطر مدارات کیں۔ چلتے ہوئے ہمیں نیچے تک چھوڑ کر آنے پر مُصر تھے مگر عابد صاحب نے بصد اصرار انہیں روک دیا۔ یہ اُن سے میری آخری ملاقات تھی۔ میں واپس لاہور آگیا اور چند دن بعد جناب فرخ سعید خواجہ کے ٹیلی فون سے اُن کے انتقال کی خبر ملی۔ دل کو ایک دھچکا سا لگا۔