۔’’عرب نیوز‘‘ نہیں،’’اُردو میگزین‘‘۔

میرے ہاں ڈکیتی کی واردات کو تاثیر مصطفی نے اپنی ’’رپورٹ‘‘ کا موضوع بنایا اور آپ نے اسے میری تصویر اور ہیڈ لائن میں میرے نام کے ساتھ، تازہ شمارے میں اس اہتمام کے ساتھ شائع کیا جس پر شکرگزار ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ لاہور (بلکہ پنجاب بھر) میں ایسے واقعات اتنے عام ہوگئے ہیں کہ ان میں ’’خبر‘‘ والی کوئی بات نہیں رہی۔ آج صبح ’’اردو قومی تحریک‘‘ والے ڈاکٹر محمد شریف نظامی بتا رہے تھے کہ ان کی walledاورGated جدید بستی بھی ایسی وارداتوں سے محفوظ نہیں رہی، حالانکہ حسن نثار بیلی پور میں اپنا فارم ہائوس چھوڑ کر یہاں آبسنے کا واحد جواز یہاں کی فول پروف سیکورٹی بتاتے تھے (بجلی کے ہرپول پر کیمرے بھی)۔ آپ کے نام اس مراسلے کا مقصد اظہارِ تشکر کے علاوہ ایک ضروری وضاحت بھی ہے، یہ کہ میں جدہ میں ’’عرب نیوز‘‘ (انگریزی روزنامہ)کا نہیں، ہفتہ وار’’اُردو میگزین‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ مجھ سے پہلے برادرانِ عزیز ومحترم جناب نصیر ہاشمی، اطہر ہاشمی اور مظفر اعجاز روزنامہ ’’اُردو نیوز‘‘ میں موجود تھے جن کی محبت اور شفقت میرے بہت کام آئی۔ تاثیر مصطفی سے یہ سہو اس لیے ہوا کہ ’’عرب نیوز‘‘ کی مالک بھی سعودی ریسرچ اینڈ پبلشنگ کمپنی ہی تھی جو اردو جرائد سمیت کوئی درجن بھررسائل وجرائد نکالتی تھی۔ ان میں مشرق وسطیٰ کا عربی زبان میں سب سے بڑا روزنامہ ’’الشرق الاوسط‘‘ بھی تھا۔ جنوبی ہند والوں کے لیے ’’ملیالم نیوز‘‘ کا اہتمام تھا اور ہم سب ایک ہی عمارت میں، ایک ہی چھت تلے کام کرتے تھے۔
…رئوف طاہر، لاہور…

کشمیر اب یا پھر کبھی نہیں…۔

آج کشمیر کے مظلوم بہن بھائیوں کو بھارت کے وحشیانہ مظالم برداشت کرتے ہوئے دو ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ حکومتِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کو کشمیریوں کی امداد کے لیے جو اقدامات کرنے چاہیے تھے اس میں وہ بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ سوائے زبانی جمع خرچ اور قوم کو دھوکا دینے کے کچھ نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، امریکہ، برطانیہ نے اگر اس مسئلے کو حل کرانا ہوتا تو 72 برسوں میں یہ مسئلہ حل کرا دیتے۔ ان پر تکیہ کرنا بھی قوم کو دھوکا دینا ہے۔ میں آپ کو قرآن پاک کی ایک آیت کا ترجمہ اور خلاصہ لکھ رہا ہوں، غور کریں، سوچیں کہ کیا یہی رویہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران کا ہونا چاہیے؟
’’تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی خاطر نہیں لڑتے ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر، جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور وہ فریاد کررہے ہیں کہ اے اللہ ہمیں اس ظالم بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی مدد گار بھیج‘‘۔
یہ آیات پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کشمیر کے مظلوم بھائیوں کے لیے قدم اٹھائو، مگر آپ ہیں کہ بت بنے ہوئے ہیں۔ پوری قوم جذبہ جہاد سے سرشار ہے اور وہ ہر حد عبور کرنے کے لیے تیار ہے، مگر سالار سوئے ہوئے ہیں اور قوم کو سلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ”اب یا پھر کبھی نہیں“ پوائنٹ پر پہنچ چکا ہے۔ میں آپ کو خدا کا واسطہ دے کر کہہ رہا ہوں کہ جہاد کا اعلان کریں، اللہ کی مدد ایسی جگہ سے آئے گی جس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار یہ قوم خود ہی بھارت سے نمٹ لے گی۔
…محمد طفیل، سانگھڑ، سندھ…