مولانا صدر الدین اصلاحی مدظلہ نے لکھا تھا:۔
’’کسی اسلامی تحریک کے اسبابِ زوال میں سب سے نمایاں حیثیت اس مرض کو حاصل ہے جو اس کے کارکنوں کے اخلاص و للہیت کو لاحق ہوجاتا ہے۔ یہ مرض جتنا شدید اور عام ہوتا ہے، تحریک اتنی ہی زیادہ زندگی سے دور اور موت سے قریب ہوجاتی ہے۔ اگرچہ صرف اسی مرض پر تحریک کا ضعف اور فنا موقوف نہیں، بلکہ یہ بھی منجملہ بہت سے اسبابِ زوال کے صرف ایک سبب ہے۔ مگر دو باتیں ایسی ہیں جن کی بنا پر اس کی حیثیت دوسرے تمام عوامل سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ قطعاً ایک جان لیوا مرض ہے، اور اگر پوری شدت سے اس کا حملہ ہوجائے تو کسی تدبیر سے بھی اس کے مہلک اثرات کا ازالہ ممکن نہیں۔ اس کے مقابلے میں دوسرا کوئی بھی عامل ایسا سم قاتل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان دیگر عوامل میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کا شجرۂ نسب بھی بالآخر اسی سے جاملتا ہے اور جو دراصل اسی اُم الامراض کے انڈے بچے ہیں۔ اور باقی کا بھی حال یہ ہے کہ اگرچہ ان کی پیدائش کچھ اور ہی ذہنی اور نفسیاتی حقیقتوں کے بطن سے ہوتی ہے مگر یہ اخلاص و للہیت کی کمی ہی ہے جو عموماً انہیں پروان چڑھنے کے لیے ایک سازگار فضا بخشتی اور پھر تحریک پر کاری ضرب لگا سکنے کے قابل بنادیتی ہے۔ ان دو وجوہ سے اس کو اسبابِ زوال میں سب سے مقدم، سب سے اہم اور سب سے بنیادی حیثیت حاصل ہے، اور اسی لیے وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی حقیقت، اس کے عمل اور اس کے حدود اثر پر پھیل کر نگاہ ڈالی جائے۔
یہاں ہم نے دو لفظ استعمال کیے ہیں، ایک تو اخلاص کا، دوسرا للہیت کا۔
اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ تحریک کے مقصد پر دل یکسر مطمئن اور اسی کی خدمت کے لیے ذہن بالکل یکسو ہو۔ دنیا کے کسی اور کام کو اس کا شریک نہ بنایا جائے۔ حتیٰ کہ اس کی بابت کچھ سوچا بھی نہ جائے۔ اپنی تمام دوڑ دھوپ اسی کے لیے خاص کردی جائے، فکر پر وہی چھایا ہوا ہو، اور عمل و حرکت کی باگیں تمام تر اسی کے ہاتھوں میں ہوں۔ دوسری کسی چیز سے اگر تعلق ہو تو صرف اسی حد تک کہ خود یہ مقصد تحریک اس کا تقاضا کرتا ہو، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ وہ اس کی اجازت دیتا ہو۔
للہیت کا مطلب یہ ہے کہ مقصدِ تحریک کے ساتھ یہ تعلق اور اس تعلق میں یہ اخلاص صرف اللہ کے لیے اور اسی کی رضا کے لیے ہو۔ اس رضا کے سوا نہ کسی اور کی رضا کا دل میں گزر ہو اور نہ اس آخری غایت اور مفاد کے سوا اور کوئی غایت اور مفاد نگاہوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے۔ اپنا نفس اور اپنا خاندان، اپنی قوم اور اپنی ملت، اپنی پارٹی اور اپنی جماعت، اپنا ملک اور اپنا وطن، پوری انسانیت اور ساری دنیا، حتیٰ کہ کُل کی کُل کائنات، ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے جس کی رضا یا جس کا مفاد مقصدِ تحریک سے وابستگی کا محرک بن سکے۔ اس وابستگی کا حقیقی محرک اوّل و آخر صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کا حصول ہو۔ یہی للہیت وہ خاص جوہر ہے جو ایک تحریک کو اسلامی بناتا اور دوسری تمام تحریکات سے ممتاز کرتا ہے‘‘۔
(اشارات ’’زندگی‘‘ لاہور، اگست 1956ء)
مرد بز رگ
اس نظم میں اقبال نے مرد بزرگ کی جو تصویر کھینچی ہے وہ بڑی حد تک انہی کی تصویر ہے۔
اس کی نفرت بھی عمیق ، اس کی محبت بھی عمیق!۔
قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق!۔
پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں
ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق!۔
انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو
شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا ، سب کا رفیق!۔
مثلِ خورشید سحر فکر کی تابانی میں
بات میں سادہ و آزادہ، معانی میں دقیق!۔
اس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محرم نہیں پیرانِ طریق!۔
عمیق:گہری۔ تخلیق: پیدا کرنا۔ دقیق: لفظی معنی باریک، نازک۔
-1 مومن کی نفرت بھی گہری ہوتی ہے اور محبت بھی گہری۔ اس لیے کہ وہ اپنی نفرت اور محبت کو خدا کی رضا کے تابع رکھتا ہے۔ اگر وہ کسی پر سختی بھی کرتا ہے تو اس میں شفقت کا رنگ ہوتا ہے، کیونکہ اس کی سختی سزا کے لیے نہیں بلکہ اصلاح کے لیے ہوتی ہے۔ یہ بھی خدا کی رضا کے تابع رہنے کی ایک خصوصیت ہے۔
-2 وہ اگرچہ تقلید کے اندھیرے میں پرورش پاتا ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ نئی تجویزیں پیدا کرے۔
-3 وہ انجمن میں بھی بیٹھے تو اسے تنہائی کی لذت حاصل ہوتی رہتی ہے، اس لیے کہ وہ میل جول میں زندگی کے اصلی نصب العین یعنی خدا کی رضا کو نہیں بھلاتا۔ اس کی حیثیت شمعِ محفل کی ہوتی ہے جو سب سے جدا بھی رہتی ہے اور روشنی کے ذریعے سے سب کی دوستی کا حق بھی ادا کرتی ہے۔
-4 مردِ مومن کے خیال اور فکر کی چمک دمک صبح کے سورج کی طرح ہوتی ہے۔ وہ باتیں بہت سیدھی سادی کرتا ہے، لیکن ان کے معنی بہت باریک اور نازک ہوتے ہیں۔
-5 اس کے دیکھنے کا انداز زمانے سے بالکل جدا ہوتا ہے۔ جو لوگ طریقت کے پیرو مرشد ہونے کے دعویدار ہیں، وہ اس کے حالات سے آگاہ نہیں ہوتے۔