جو بوؤگے…وہ کاٹوگے!۔

ہمارا معاشرہ قیامِ پاکستان سے قبل بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی عملاً ایک سیکولر معاشرہ رہا ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلی ہے اور انہی لوگوں نے سیاسی تحریکیں چلائی ہیں اور قومی ذہن بنایا ہے۔ مدارس کی روزافزوں تعداد کے باوجود ہمارا عام تعلیم یافتہ نوجوان جو معاشرے میں مؤثر اور دخیل ہے وہ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ مدارس کے طلبہ وہ ہیں جو مولانا صاحب یا مفتی صاحب کے حکم پر ان کے جلسے میں تقریر سننے یا ان کے جلوس میں زندہ باد کے نعرے لگانے کے لیے آجاتے ہیں۔ ان کا فہمِ اسلام یقیناً ناقص ہے، عصبیتوں کا حامل بھی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جدید نظام تعلیم کے مراکز کیا مدرسوں سے بہتر اور کشادہ ذہن کے نوجوان پیدا کررہے ہیں؟ ایک زمانہ تھا کہ طلبہ ایک سیاسی قوت تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لے کر کراچی یونیورسٹی اور ملک کی دیگر یونیورسٹیوں، کالجوں میں طلبہ تحریک زندہ تھی، ان تحریکوں کے دوران طلبہ یونینوں کا اپس میں تصادم بھی ہوا، کچھ تشدد بھی دیکھنے میں آیا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہماری نئی نسل نے قومی اور سیاسی معاملات پر غور کرنا سیکھا، ان کے درمیان آپس میں جہاں مجادلہ ہوا وہاں مکالمہ بھی ہوا، اور ایک دوسرے کے نظریات سمجھے، سمجھائے گئے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا تو نئی نسل کی ذہنی و قلبی کشادگی اور وسعت نظری کے لیے یقینا مفید ثابت ہوتا۔ لیکن جب سیاسی جبر کا دور آیا تو طلبہ کی سرگرمیوں کو ناپسندیدہ سمجھا گیا اور کہا گیا کہ طلبہ اپنے معاشرے میں آنکھیں بند کرکے صرف پڑھائی میں مصروف رہیں، گرد و پیش سے کوئی واسطہ نہ رکھیں۔ حالانکہ گرد و پیش کے حالات کا دبائو ان کے ذہن پر کافی تھا جو انہیں سوچنے کے لیے مجبور کرتا تھا، اور یہ نئی نسل کا حق تھا کہ وہ تعلیم کے دوران ہی ملکی حالات کے بارے میں غور کرے اور مختلف طالب علم حلقے اپنی اپنی آرا کا اظہار بھی کریں، کیونکہ نئی نسل کی سوچ بزرگوں کے مقابلے میں زیادہ جرأت مندانہ ہوتی ہے اور اس میں عصری شعور کے ارتقا کو بھی دخل ہوتا ہے۔ اگر مسلم نوجوان قیامِ پاکستان سے پہلے تعلیمی اداروں میں کتابی کیڑے بنے رہتے اور برصغیر میں مسلمانوں کو جو مسائل درپیش تھے ان کے بارے میں نہیں سوچتے تو تحریکِ پاکستان وجود میں ہی نہیں آسکتی تھی۔ اس تحریک کی ابتدا کا شرف طلبہ کو حاصل ہے۔ اس کے خیالات کا اوّلین بیج یا تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ڈالا گیا، یا پنجاب کی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے پاکستان کے نظریے کو پیش کیا، اور یہ بیج ملک بھر کے مسلم اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں بارآور ہوا۔ اس سے مسلم قومیت کا ذہن مضبوط ہوا جس نے ہندی یا ہندو قومیت میں جذب ہونے سے انکار کیا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ہمارے عہد کی دو بڑی تحریکیں جو اسلامی فکر اور سوشلسٹ فکر پر مبنی تھیں ان کا سرگرم اظہار تعلیمی اداروں میں ہی ہوا، اور یہ کوئی بری بات نہیں تھی، اس سے نئی نسل نے عصرِ حاضر کی تشکیلِ نو کے لیے سوچنے سمجھنے کی ذمہ داری کا احساس کیا اور یقیناً ان کے درمیان ایک سیاسی کلچر آیا، لیکن اس کلچر کو ختم کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوان ملک و قوم کے معاملات و مسائل سے بے تعلق ہوتے گئے، ان کے ذوقِ مطالعہ نے دم توڑ دیا اور اب ان میں تبادلہ خیال کے موضوعات فلم اور ٹی وی کے اداکار اور اداکارائیں تھیں، یا زیب و زینت اور بننے سنورنے کا مقابلہ تھا۔ جو خلا پیدا ہوا اس میں نوجوانوں نے منشیات کے دامن میں بھی پناہ لی، اور جہاں اس طرح کی گمراہی پھیلی وہاں ایک اور نئی قسم کی گمراہی نے بھی جنم لیا کہ انہوں نے سندھی، مہاجر، پنجابی، پشتون، شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی کے تعصبات کو اپنایا۔ کیونکہ نوجوانوں کو ذہنی تشکیل کے لیے کسی نہ کسی نظریے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں صحیح نظریات کی راہ روکی گئی وہاں غلط سلط چیزوں نے نوجوانوں کے خالی ذہن پر قبضہ کیا۔ اس میں انتہا پسندی اور نفرت کے فلسفے بھی شامل تھے، اور حکمرانوں نے قومی سیاسی جماعتوں کے توڑ کے لیے اس تعصب اور انتہا پسندی کی سرپرستی بھی کی۔ اب اپنے بوئے ہوئے اس بیج کے کڑوے پھل دیکھ کر وہ الزام دوسروں کو دے رہے ہیں، لیکن انتہا پسند ذہنیت اور تشدد پسندی کا جو ہنگامہ رہا ہے وہ مدرسوں سے نہیں کالجوں، یونیورسٹیوں سے آیا ہے، اور جس انتہا پسندی کی شکایت ہے اس کے پیدا کرنے میں پروفیسروں، انجینئروں، ڈاکٹروں، وکیلوں، ججوں حتیٰ کہ سائنس دانوں نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ یہ ذہنی زوال اور انحطاط اس بات کا نتیجہ ہے کہ ہماری نئی نسل کے لیے تعلیمی اداروں میں غور و فکر کے دروازے جان بوجھ کر بند کردیے گئے، انہیں قومی سوچ سے متعلقہ سرگرمیوں سے ہٹا کر غلط سرگرمیوں کی طرف لے جایا گیا۔ اور اگر آپ مدرسوں کا رونا چھوڑیں اور اسکول، کالج ٹھیک کرلیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔