رئوف طاہر کے گھر ڈکیتی کی واردات

رئوف طاہر کے گھر ڈکیتی کی واردات
لاہور، پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیوں کے سیکورٹی انتظامات سوالیہ نشان بن گئے
تاثیر مصطفی
روزنامہ جسارت کے لاہور میں سابق بیورو چیف، عرب نیوز جدہ کے سابق ایڈیٹر، روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ جنگ، اور اب روزنامہ دنیا کے کالم نگار، معروف صحافی اور منفرد اسلوب کے دانشور جناب رئوف طاہر کے گھر ہونے والی ڈکیتی کی دلیرانہ واردات نے اہلِ صحافت ہی کو نہیں اہلِ لاہور کو بھی خوفزدہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر شخص سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ جناب رئوف طاہر شہر کے ایسے نیک نام سینئر صحافی ہیں جو ہر دوسرے تیسرے روز اپنی تصویر کے ساتھ ایک قومی اخبار کے ادارتی صفحے پر شائع ہوتے ہیں، تقریباً ہر روز کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر سیاسی تجزیہ کرتے نظر آتے ہیں، اور شہر کے علمی، ادبی، صحافتی اور سیاسی حلقوں میں سرگرم ہیں۔ ملک کے مقتدر ایوانوں میں بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ملک کے ہر صدر اور وزیراعظم کے ساتھ اُن کی ذاتی شناسائی ہے۔ اگر ایسے شخص کو اُس کے تین بچوں کے ساتھ دو گھنٹے تک یرغمال بناکر گن پوائنٹ پر لوٹا جاسکتا ہے تو ایک عام شہری کا کیا حال ہوگا! اہل صحافت میں تو یہ خوف جناب اسد اللہ غالب کے گھر ہونے والی ڈکیتیوں، جناب حمید اختر کے گھر ہونے والی ہولناک چوری، اور جناب منو بھائی کے گھر کا صفایا ہونے کے دنوں میں بھی پیدا ہوا ہوگا۔ لیکن اب جبکہ میڈیا پر ویسے ہی بہت برا وقت ہے، اور ملک پر ’’ریاست مدینہ‘‘ کے دعویداروں کی حکمرانی ہے، ایسے میں یہ واردات خوف کے زیادہ گہرے سائے پیدا کررہی ہے۔ اس واردات کی تفصیل قومی اخبارات کی خبروں کے علاوہ خود جناب رئوف طاہر کے تازہ کالم میں دیکھی جاسکتی ہے جس کے مطابق 24 ستمبر کی رات جب جناب رئوف طاہر مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کی جانب سے معروف کرکٹر عبدالقادر مرحوم کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس کے بعد گھر پہنچے تو رات 12 بجے کے قریب سات نقاب پوش ڈاکو لیک سٹی میں واقع اُن کے گھر کی ایک جالی توڑ کر گھر میں داخل ہوئے، پہلے جناب رئوف طاہر اور پھر دوسری منزل پر موجود اُن کے تین بچوں کو یرغمال بنا کر 5 لاکھ روپے کیش اور تقریباً 15 لاکھ روپے مالیت کا سونا اور دوسرا سامان سمیٹا، اس مالِ غنیمت کو اسی گھر میں بیٹھ کر تقسیم کیا اور دو گھنٹے بعد اطمینان کے ساتھ پچھواڑے کے کھیتوں میں اُتر کر غائب ہوگئے۔ لیکن یہاں کے مکینوں سے سیکورٹی کے نام پر 6 ہزار روپے ماہانہ لینے والی سوسائٹی کے سیکورٹی اسٹاف اور گشت کرنے والے پہرے داروں کو معلوم ہوسکا اور نہ اس رہائشی کالونی کے گرد رات بھر ناکے لگا کر گشت کرنے والی پولیس کو کوئی خبر ہوسکی۔ رئوف طاہر کے بقول اس واردات کے بعد مقامی پولیس اور لیک سٹی انتظامیہ بہت ایکٹو ہوگئی ہے، ہماری رائے میں وہ مزید چند دن ایکٹو رہے گی یا ایکٹو ہونے کا تاثر دے گی اور پھر اللہ اللہ خیرصلا۔
اتنے ہائی پروفائل کیس میں پولیس کو کچھ دن تو ایکٹو ہونا ہوگا۔ رہی سوسائٹی انتظامیہ، تو اُسے اپنی کمزور سیکورٹی کا کوئی تو جواز دینا ہے۔ پھر اُس کا تو دعویٰ ہی یہی ہے کہ اس سوسائٹی میں سیکورٹی کا سب سے بہتر انتظام ہے۔ خود رئوف طاہر نے اسی دعوے سے متاثر ہوکر اس سوسائٹی میں گھر بنایا تھا، کیوں کہ اس سے قبل واپڈا ٹائون میں رہتے ہوئے اُن کے ساتھ پہلے ڈکیتی اور پھر صرف ایک ماہ میں چوری کی دو بڑی وارداتیں ہوچکی تھیں۔ پہلی واردات اُس وقت ہوئی جب اُن کی اہلیہ مرحومہ اپنے بیٹے کے ساتھ گھر پہنچیں اور اپنی گاڑی سے اُتر بھی نہیں پائی تھیں کہ موٹر سائیکل سوار ڈاکو آگئے۔ بیٹے آصف سے پرس، موبائل، اُس کی والدہ سے بیگ اور موبائل کے علاوہ ہاتھوں میں پہنی ہوئی 3 طلائی چوڑیاں کاٹ کر یہ جا وہ جا۔ چوری کی واردات اُس وقت ہوئی جب اُن کی اہلیہ اتفاق اسپتال میں زیر علاج تھیں اور سارا خاندان وہیں تھا کہ چوروں نے گھر کا صفایا کردیا، جسے بچوں نے اپنی بیمار ماں سے چھپائے رکھا۔ چند دن بعد جب بیگم رئوف طاہر دوبارہ اسپتال میں تھیں تو چوروں نے دوسری بار گھر کا صفایا کردیا۔ یہ واردات جس روز ہوئی اس سے اگلے روز شدید بیماری کے باعث بیگم رئوف طاہر چل بسیں۔ بیگم رئوف طاہر کے انتقال اور چوری پر اظہارِ افسوس کے لیے وزیراعظم نوازشریف، بیگم کلثوم نواز، شہبازشریف اور دیگر اہم لوگ اُن کے گھر آئے، تسلیاں دیں، مگر آج تک نہ تو کوئی مجرم گرفتار ہوسکا اور نہ ایک پائی کا مسروقہ مال برآمد ہوا۔
حالیہ واردات اور جناب رئوف طاہر کے کالم کی اشاعت کے بعد گورنمنٹ کالج ٹائون شپ کے پرنسپل ڈاکٹر اعجاز بٹ نے فون پر راقم کو بتایا کہ واپڈا ٹائون کے ہر تیسرے چوتھے گھر میں چوری یا ڈکیتی کی واردات ہوچکی ہے۔ خود ان کے گھر سے اہلِ خانہ کی عدم موجودگی میں چور 6 لاکھ روپے کا کیش لے کر فرار ہوگئے۔ بعد میں دو چور پکڑے بھی گئے مگر انہیں ایک پائی بھی واپس نہ ملی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ چوروں نے رقم کھاپی کر ختم کردی ہے۔ ہمارے ایک دوست پروفیسر اعظم نے لقمہ دیتے ہوئے بتایا کہ اُن کی بھتیجی چوری کی دو وارداتوں کے بعد یہ کہہ کر ملک چھوڑ گئی کہ جس ملک کے لوگ اپنی ہی بہن، بیٹی کو لوٹتے ہوں اور ادارے تحفظ نہ دیتے ہوں وہاں رہنا بہت مشکل ہے۔ سینئر صحافی جناب حمید اختر کے گھر واقع ڈیفنس میں چوری کی ایک بڑی واردات کئی سال قبل ہوئی۔ وہ اس چوری کے بارے میں لکھتے لکھتے مر گئے لیکن چور نہ پکڑے جاسکے۔ خود راقم کی چوری ہونے والی کار اُس وقت کے گورنر کی واضح ہدایت کے باوجود آج تک برآمد نہیں ہوسکی۔ جناب رئوف طاہر نے اپنے کالم کے آخری حصے میں تفتیش کے لیے آنے والے پولیس افسران اور اہلکاروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ کچھ عرصے سے تھانوں میں مبینہ پولیس تشدد کی ویڈیوز وائرل ہونے سے پولیس ڈی مورالائز ہوئی ہے، اُن کا کہنا ہے کہ جسمانی تشدد کے بغیر چوروں سے چوری اُگلوانا ممکن نہیں۔ یقینا سیکورٹی کے کسی ادارے کا ڈی مورالائز ہونا کسی طرح اچھا نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ویڈیوز تو گزشتہ کچھ عرصے سے سامنے آنے لگی ہیں، جن کا زیادہ شک خود پولیس اہلکاروں ہی پر کیا جارہا ہے۔ لیکن اس سے قبل تشدد کے ذریعے پولیس کتنا مسروقہ مال برآمد کرنے میں کامیاب رہی ہے اور کتنا مال متاثرین تک واپس پہنچایا گیا ہے؟ ادارے کی نیک نامی کے لیے ضروری ہے کہ خود پولیس یہ اعداد و شمار جاری کرے کہ فلاں سال اتنی مالیت کا سامان چوری ہوا یا لوٹا گیا۔ اور اس کا اتنا فیصد برآمد کرکے مالکان تک پہنچادیا گیا۔ جناب رئوف طاہر کو پولیس سے بھرپور تعاون کرتے ہوئے مجرموں کی تلاش جاری رکھنی چاہیے اور اپنی رہائشی سوسائی کے خلاف نقصان کی تلافی کے لیے دعویٰ دائر کرنا چاہیے کہ وہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے اُن سے اور سوسائٹی کے دوسرے رہائشیوں سے کروڑوں روپے سیکورٹی کے نام پر وصول کررہی ہے، اس لیے اُن کے نقصان کی تلافی کرے، کیونکہ سوسائٹی کے سیکورٹی انتظامات کا ناقص ہونا اس واردات نے ثابت کردیا ہے۔ حکومت بھی اس معاملے پر غور کرے کہ کیا پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیوں کے اپنے اپنے سیکورٹی انتظامات کے ذریعے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کیا جاسکتا ہے؟ یا خود ریاست کو یہ ذمہ داری لینا ہوگی۔
nn