منزل سے قریب
ملک نواز احمد اعوان
لالۂ صحرائی (14 فروری 1920ء۔ 7جولائی 2000ء) کا اصل نام محمد صادق تھا۔ وہ مہتہ ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی ان کا خاندان جہانیاں (ضلع ملتان) منتقل ہوچکا تھا۔ اوائل عمر سے ہی کتب و رسائل کا مطالعہ بڑے ذوق و شوق سے کیا کرتے تھے۔ یوں ان کے اندر اعلیٰ درجے کا ادبی ذوق تخلیق پاتا رہا۔ ان کے اپنے بقول ’’غیر تدریسی کتابوں اور رسائل وغیرہ کے مطالعے کی لت مجھے آٹھویں جماعت ہی میں پڑ گئی تھی، نثر اور نظم دونوں ہی اصناف کی اعلیٰ کتابوں کو میں نے نہایت شوق کے عالم میں نہ صرف پڑھا بلکہ انھیں پیا۔‘‘
جلد ہی آپ نے لکھنا شروع کردیا۔ سالہا سال تک آپ کی نثری کاوشیں علمی و ادبی رسالوں میں شائع ہوتی رہیں اور یہ کسی ایک صنف تک محدود نہ تھیں۔ آپ کی نثری نگارشات کے موضوعات میں بہت وسعت، تنوع اور ہمہ گیریت ہے۔ علمی و ادبی اور سیاسی و سماجی مضامین، افسانے، ڈرامے، تمثیلیں، خاکے، انشایئے، سفرنامے، تراجم اور طنز و مزاح غرض اردو کی بیشتر اصنافِ نثر میں ان کے وفورِ قلم نے یادگار اور اَن منٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ سب تحریریں ایک پختہ ادبی اور شگفتہ اسلوب کی عکاس ہیں جن میں کہیں کہیں طنز و مزاح کے ہلکے ہلکے چھینٹوں کی گل کاریاں نظر آتی ہیں۔
یوں تو وہ سرسید احمد خان، مولانا حالی، علامہ شبلی، مولانا محمد اشرف علی تھانوی، ابوالکلام آزاد، راشد الخیری، سید سلیمان ندوی اور ظفر علی خاں کے مداح ہیں لیکن فکری اور نظریاتی جہت میں وہ علامہ اقبال اور سیدابوالاعلیٰ مودودی کے مقلد ہیں۔ ان کی متعدد نثری کتابیں (نورمنارہ، چمن میری امیدوں کا، نئے پھول، پرانی خوشبو) شائع ہوچکی تھیں کہ نعت گوئی کی طرف ملتفت ہوئے اور پھر انہوں نے بے شمار بڑی عمدہ اور پیاری نعتیں کہیں جو مجموعوں کی شکل میں شائع بھی ہوگئیں۔ مشاہیر اہلِ قلم نے ان کے متعلق جو آرا دی ہیں وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔
پروفیسر خورشید احمد:لالۂ صحرائی کی شخصیت کے حُسن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جس طرح پہلے ان کی تحریروں نے دل کو موہ لیا تھا، اب اُن کی شفقت اور خوش گفتاری نے (ان کی کم گوئی کی عادت کے باوجود) عقیدت، محبت اور رفاقت کے رشتوں کو استوار کردیا۔ وہ میرے بزرگ تھے مگر یہ ان کی شخصیت کا بڑا دل آویز پہلو تھا کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے اس خورد سے بھی ایک بزرگ والا معاملہ کیا اور اس طرح ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام اور محبت و التفات کے رشتے میں جڑے رہے۔ نعت کے میدان میں انہوں نے اپنی عمر کے آخری دور میں جو خدمت انجام دی ہے وہ محیر العقول ہے۔ حضور اکرمؐ سے ان کی محبت ہر ہر مصرعے سے عیاں ہے۔ وہ عشقِ رسولؐ میں ڈوب کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے سارے نعتیہ کلام کا محور حضورؐ کی محبت اور آپؐ کی اطاعت ہے۔
احمد ندیم قاسمی: لالۂ صحرائی کے ساتھ میری رفاقت و محبت کی تاریخ نصف صدی پرانی ہے۔ لالۂ صحرائی محبت اور نیکی کے معاملے میں استقامت کے ایک معجزے سے کم نہیں تھے۔ وہ ان اِکا دُکا اصحاب میں شامل ہیں جن کے دم سے یہ دنیا قائم ہے، ورنہ اس کو تہس نہس کرنے میں ہم میں سے کسی نے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اور یہ محمد صادق مرحوم اور ان کے سے چند دیگر بندگانِ خدا تھے جن کا وجود اس امر کی ناقابلِ تردید شہادت تھا کہ روزِ ازل اگر اللہ تعالیٰ کے حکم پر فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تھا تو ٹھیک کیا تھا۔
مشفق خواجہ: جناب محمد صادق زندگی بھر نثر کی شاہراہ پر گامزن رہے۔ اس کا گمان نہ انہیں تھا اور نہ اُن کے مجھ جیسے نیازمندوں کو کہ ان کے ادبی سفر کی منزل شاعری ہے، اور شاعری بھی وہ جسے حاصلِ شاعری کہنا چاہیے۔ ان کی نعت گوئی کو اگر ایک ادبی معجزہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ ایک عرصے سے اس کے خواہش مند تھے کہ ان کے دل میں عشقِ رسولؐ کے جو جذبات موجزن ہیں، انہیں لفظوں کی زبان مل جائے۔ یہ دعا قبول ہوئی اور صرف چھ مہینے کے عرصے میں ان کے دلی جذبات نے صفحہ قرطاس پر منتقل ہوکر ایک سو نعتوں کی صورت میں گل و گلزار کا سماں پیدا کردیا۔ اور پھر یہ ایک سیلِ رواں بن گیا۔
ڈاکٹر خورشید رضوی: لالۂ صحرائی کے نتائجِ قلم پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ خاموشی سے کام کرنے والے کیسے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ’’نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو‘‘ کے مصداق ہیں۔ لالۂ صحرائی نے مبدئِ فیاض سے بلا کا تنوع اور کمال تسلسل پایا تھا۔ لالۂ صحرائی نے مضمون، خاکہ، رپورتاژ، افسانہ، طنز و مزاح، ترجمہ، تبصرہ، ڈراما، سفرنامہ جیسی متنوع اصناف میں بہت کچھ لکھا۔ نثر میں اُن کے اشہبِ قلم کی یہ جولانیاں اہلِ نظر سے داد پاتی رہیں۔ پیرانہ سالی میں جب کئی بار حج و عمرہ کی سعادت پائی اور روضۂ رسولؐ پر حاضری نصیب ہوئی تو نعت گوئی کی آرزو دل میں چٹکیاں لینے لگی اور پھر ایسے بھرپور انداز میں پوری ہوئی کہ اس کا فیضان آخری وقت تک جاری رہا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم انصاری: لالۂ صحرائی کی تحریریں پڑھ کر مجھ پر حیرت طاری ہوجاتی ہے کہ اتنا خوب صورت کلام، ایسی وضاحت اور ندرتِ خیال شاذونادر ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ مدحتِ رسولؐ کا چشمہ پھوٹنا نہ صرف لالۂ صحرائی بلکہ اُن کے احباب کے لیے باعثِ فخر و انبساط ہے۔ ان کی شاعری عشقِ رسولؐ کا ایسا چشمہ ہے جو دلوں کی کھیتیوں کو سدا سیراب کرتا رہے گا۔ اس چشمۂ مدحت کی روشنی خیرہ کن ہے اور پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔
ڈاکٹر عبدالغنی فاروق: موضوع کی مناسبت سے لالۂ صحرائی جب قلم ہاتھ میں لیتے تو بلامبالغہ ادب و انشا کی ساری خوبیاں ہاتھ باندھ کر اُن کے سامنے کھڑی ہوجاتیں۔ سلاست و شعریت، لہجے کا باوقار دھیماپن اور قوتِ استدلال، شگفتگی، دل فریبی، منظر نگاری، جزئیات نگاری، جذبات و احساسات کا برجستہ اور مسحور کن اظہار ان کی تحریر کا طرّۂ امتیاز تھا جسے خلوص اور مقصدیت کی گرم جوشی دو آتشہ بناکر دل و دماغ میں اتار دیتی ہے۔
پروفیسر خواجہ محمد زکریا: محمد صادق ’لالۂ صحرائی‘ کے قلمی نام سے عمر بھر لکھتے رہے۔ ان پر یہ قول حرف بہ حرف صادق آتا ہے کہ ’’نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا‘‘۔ قدرت نے ان کے سینے میں تصنیف و تخلیق کا ایسا شعلہ فروزاں کررکھا تھا جو دمِ واپس تک برابر حرارت اور روشنی دیتا چلا گیا۔ نظم و نثر کا ایسا وفور کم کم دکھائی دیتا ہے۔ کم و بیش سولہ حمدیہ، نعتیہ اور متفرقات پر مشتمل شعری مجموعے ان کی قادرالکلامی کا ثبوت ہیں جو یکجا کرکے 2017ء میں ’’کلیاتِ لالۂ صحرائی‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوچکے ہیں، لیکن ان کی نثر شاعری سے زیادہ متنوع اور مقدار میں اس سے بڑھ کر ہے۔ انہوں نے خاکے، ڈرامے، مضامین، رپورتاژ، سفرنامے، انشایئے اور طنز و مزاح کی متعدد اصناف میں اتنا کام بطور یادگار چھوڑا ہے جو بیک نظر دیکھنے پر بھی ایک سلسلۂ کوہ کا تاثر دیتا ہے۔ ان سب کاموں پر مستزاد یہ کہ انہوں نے انگریزی سے اردو میں اتنے تراجم کیے ہیں کہ ان سب کو یکجا کیا جائے تو وہ کئی ضخیم جلدوں میں سما سکیں گے۔ ان میں سے بہت سا کام ابھی غیر مطبوعہ ہے۔ امید ہے کہ یہ جلد شائع ہوکر ادبی دنیا سے خراجِ تحسین حاصل کرے گا۔
الطافِ صحافت جناب الطاف حسن قریشی مدیر اردو ڈائجسٹ تحریر فرماتے ہیں:
’’مجھے اپنی اس خوش نصیبی پر بہت ناز ہے کہ میں جناب لالۂ صحرائی کے عہد میں سانس لیتا اور اُن کی صحبتوں اور میزبانیوں سے فیض یاب ہوتا رہا۔ وہ عمر میں مجھ سے کوئی دس سال بڑے اور علم و فضل میں عشروں آگے تھے۔ ان کی قدآور شخصیت میں انکسار اور تواضع کا وصف غیر معمولی طور پر نمایاں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس قدر فراوانی سے ذہنی، علمی اور تخلیقی صلاحیتیں عطا کی تھیں اور مطالعے اور مشاہدے کا ایک ایسا ذوق بخشا تھا کہ انہوں نے 1938ء میں میٹرک پاس کیا ہی تھا کہ حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کی وفات پر ایک ایسا پُرمغز مقالہ تحریر کیا جو ذہنوں پر ایک نقش ثبت کرگیا۔ پھر ادبی رسالوں میں ان کے افسانے اور انشایئے شائع ہونے لگے۔ 1945ء کے لگ بھگ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوئے اور ان کی اٹھائی ہوئی اسلامی تحریک کا حصہ بنے اور پھر اسی کے ہوکے رہ گئے۔ علمی اور ادبی محاذ پر انہوں نے جماعت اسلامی کا پوری توانائی سے دفاع کیا، اور وہ اسلام کا حیات افروز پیغام پوری استقامت سے زندگی بھر لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ اللہ کے دین سے گہری وابستگی نے ان کے اندر بے پایاں وسعتِ قلبی پیدا کردی تھی۔ جناب احمد ندیم قاسمی ان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے جن کے ساتھ خط کتابت 1939ء ہی میں شروع ہوگئی تھی اور ملاقاتوں کا سلسلہ زندگی کے آخر دنوں تک جاری رہا، حالانکہ وہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے بڑے مختلف تھے۔
پھر ہم نے ایک روز اپنے عہد کا ایک معجزہ تخلیق ہوتے دیکھا۔ جناب لالۂ صحرائی جو اپنی گفتگو اور اپنی تحریر میں شعر کا استعمال شاذونادر ہی کرتے، ان پر بے ساختہ حمد و نعت کے شعر نازل ہونے لگے۔ ان کا اپنے رب کریم سے جو گہرا تعلق اور خاتم النبیین حضرت محمدؐ سے جو لازوال عشق کا بندھن قائم تھا، وہ شعروں میں ڈھلتا گیا، اور یوں محسوس ہوا جیسے عشق و سرمستی کے چشمے ابلنے لگے ہوں جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہ اُن پر خالقِ کون و مکاں کا بہت بڑا کرم تھا جو اُن کی روحانی پاکیزگی اور ذہنی رفعت کا پتا دیتا ہے۔ اب میں جو تراجم لالۂ صحرائی ’’منزل سے قریب‘‘ کا مطالبہ کرنے بیٹھا تو حیرتوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ انہوں نے غیر ملکی کلاسیکی ادب سے بلند پایہ افسانوں، سفرناموں، قلبی وارداتوں اور فکر انگیز مضامین کے تراجم اس کمالِ قدرت سے کیے کہ وہ اصل سے کہیں زیادہ اثر انگیز محسوس ہوتے ہیں۔ ان تراجم میں روسی شاعری بھی اردو قالب میں ڈھلی ہوئی ہے جس کا اپنا ایک لطیف ذائقہ ہے۔ ایسے افسانے منتخب کیے گئے جو روح کے اندر اتر جاتے ہیں۔ موپساں کا افسانہ ’’بہن‘‘ جسے ٹالسٹائی نے اپنایا، تحیر اور تاثر کے اعتبار سے ایک بہت عظیم افسانہ ہے اور یورپ میں جنگوں کی تباہ کاریوں کا ایک دردناک نوحہ بھی، جو دل کی کائنات یکسر تبدیل کردیتا ہے۔ طنز و مزاح کا شاہکار ’’برطانیہ میں پاکستانی راج‘‘ آنے والی دنیا کی خبر دیتا ہے اور چپکے چپکے مسکرانے کا موقع بھی۔ جناب لالۂ صحرائی کے باکمال فنِ ترجمانی نے ایک عجب سماں پیدا کردیا ہے۔
اُن کی اس تخلیقی کاوش میں ادبی محاسن کے ساتھ ساتھ مقصدیت کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے چار ایسی شخصیات کا انتخاب کیا ہے جنہوں نے اسلام قبول کرنے کی اپنی داستانیں بڑے دلآویز انداز میں بیان کی ہیں اور ان کی تحریروں نے اسلام کی عالمگیریت کو عصری لہجے میں پوری دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ ان شخصیات میں علامہ محمد اسد نے اسلام قبول کرنے کے بعد عرب دنیا کا سفر کیا، وہ پاکستان بھی آئے تاکہ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے ماڈل پر نوزائیدہ مملکت کو دستوری ڈھانچہ فراہم کرسکیں۔ جناب لالۂ صحرائی نے ان کی معرکۃ الآرا تصنیف “Road To Makkah” ’’شاہراہ مکہ‘‘ کے چار ابواب کا ترجمہ کیا جو اس قدر رواں، خوبصورت اور اثر آفریں ہے کہ قاری اس میں جذب ہوکر سفرنامے کا حصہ بن جاتا ہے۔ دوسری شخصیت ایک امریکی خاتون مارگریٹ مارکس ہے جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد مریم جمیلہ کے نام سے اپنے والدین کے نام خط لکھا جو اسلام کی آفاقی حقیقتوں پر تخلیقی انداز میں روشنی ڈالتا ہے۔ اس خاتون نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا اور وہ پاکستان چلی آئیں اور یہیں کی ہوکر رہ گئیں۔ ان کے مزید تین مضامین اس کتاب میں شامل ہیں جو ذہن کو جِلا اور تصورات میں ہلچل پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح ہنگری کے ایک نومسلم ڈاکٹر عبدالکریم جرمانوس کی تحریر کا جیتا جاگتا ترجمہ ’’سوئے اسلام ہم بادلِ دیوانہ چلے‘‘ کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ جرمانوس صاحب بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں، ان کا شمار دنیا کے مشہور مستشرقین میں ہوتا ہے۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برصغیر آئے اور انہوں نے اسلام قبول کرنے کا واقعہ نہایت ایمان افروز پیرائے میں بیان کیا۔ جناب لالۂ صحرائی نے پوری داستان اردو میں منتقل کردی ہے جو ادبِ عالیہ میں ایک بلند مقام رکھتی ہے۔ اسی طرح جرمن نومسلمہ فاطمہ ہیرن کی تحریر ’’اپنے بچوں کی خبر لیجیے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ وہ اس بنیادی حیثیت کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسلام بچوں کی تعلیم و تربیت اور شخصیت سازی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
’’منزل سے قریب‘‘ ایک قیمتی خزینہ ہے جس میں ادب اور شاعری بھی ہے، مزاح و شگفتگی بھی، علم و حکمت کے موتی بھی ہیں اور انسانی تہذیب و تمدن کے مختلف عنوانات بھی… تاہم اس میں اسلام کے جو انقلاب آفریں تصورات پیش کیے گئے ہیں اور اس کی روحانی اور اخلاقی قوت کے جو مظاہر ایک نئی شان سے اجاگر ہوئے ہیں، وہ بلاشبہ جوہری قدر و قیمت کے حامل ہیں۔ اس عظیم تخلیقی کاوش پر جناب لالۂ صحرائی کی ہمہ گیر شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کو بے اختیار دل چاہتا ہے اور ڈاکٹر زاہرہ نثار صاحبہ سینئر مدیر دائرۂ معارف اسلامیہ جامعہ پنجاب کو بھی، جنہوں نے ’’منزل سے قریب‘‘ کی ترتیب؍ تدوین میں بڑی ریاضت سے کام لیا ہے۔‘‘
مرتبہ کتاب ڈاکٹر زاہرہ نثار تحریر فرماتی ہیں:
’’زیر نظر مجموعے میں لالۂ صحرائی نے افسانے، ناول، سفرنامے، آپ بیتی، انشائیہ، طنز و مزاح اور شاعری جیسی متعدد اصناف کے انتخاب کو بہ زبانِ اردو اس عمدگی سے پیش کیا ہے کہ ترجمے پر تخلیق کا گمان گزرتا ہے۔ ان کی ترجمہ نویسی کی غیر معمولی صلاحیت سے عہدِ حاضر کے مترجمین محروم ہیں، جو اس بات کے شاکی ہیں کہ اردو زبان، زبانِ غیر کی کلّی ادائیگی سے عاری ہے اور اگر اچھا ترجمہ کیا جائے تو اس میں روانی کا عنصر مفقود ہوگا۔ اکثر ناقدینِ ترجمہ نے اس قسم کی آرا کو رواج دے کر اردو ادب کو اچھے ترجمہ نگاروں سے محروم رکھا ہے۔ فنِ ترجمہ سخت مشقت اور علمی ریاضت کا متقاضی ہوتا ہے، لیکن اسے جواز بناکر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اردو زبان میں اظہار کے پیمانے موجود نہیں۔ لالۂ صحرائی جیسا اعلیٰ مترجم اگر قیام پاکستان سے قبل کی اردو زبان میں اظہار کے سانچے تلاش کرسکتا ہے تو موجودہ دور میں ایسا ہونا خارج ازامکان نہیں۔‘‘
کتاب کے محتویات درج ذیل ہیں:
افسانے؍ناول:٭دوگز زمین۔ ٹالسٹائی، ٭بہن۔ موپساں،٭قیدِ حیات۔ٹالسٹائی، ٭دو دوست۔ موپساں، ٭پہلی اڑان۔ لی ایم اوفلاہرٹی، ٭صابن کی ٹکیہ۔ ایچ ایچ منرو، ٭حماقتوں کی دنیا میں۔ الفریڈ ہیلر، ٭اپنے پرائے (ناول)۔ مریم جمیلہ، ٭ امید کا عذاب۔ دلیرس ڈی لاینٹل ایڈم۔
سفرنامے: ٭منزل سے قریب۔ علامہ محمد اسد، ٭اے خنک شہرے۔ علامہ محمد اسد،٭پہلا وہ گھر خدا کا۔ علامہ محمد اسد، ٭ بازگشت۔ علامہ محمد اسد، ٭جادۂ ہنزہ۔ ایان اسٹیفنز۔
آپ بیتی: ٭سوئے اسلام جو ہم بادل دیوانہ چلے۔ عبدالکریم جرمانوس۔
انشائیہ:٭سرخوشی اور سکون۔ مصنف نامعلوم۔
طنز و مزاح:٭برطانیہ میں پاکستانی راج۔ مصنف نامعلوم۔
شاعری:٭منتخب منظومات۔ لیرمنٹوف۔ مترجم: پروفیسر محمد مجیب۔
متفرقات:٭ایک نازی لڑکی کے خطوط۔ مصنف نامعلوم، ٭ اپنے والدین کے نام کھلا خط۔ مریم جمیلہ، ٭اپنے بچوں کی خبر لیجیے۔ فاطمہ ہیرن۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اردو ادب میں یہ کتاب ایک وقیع و ثمین اضافہ ہے۔ اردو زبان میں بامقصد ادب کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
کتاب خوب صورت طبع کی گئی ہے۔ رنگین حسین سرورق سے آراستہ ہے۔
nn