رشد وہدایت

رشد وہدایت
خودنمائی کا بت
محمد موسیٰ بھٹو

ایک بڑا بت، جس کی پرستش میں ہم میں سے تقریباً ہر فرد کسی نہ کسی حد تک مصروف رہتا ہے، بالخصوص معاشرے کے مؤثر طبقات اور علم و دانش سے متعلق افراد اس بات کی پرستش میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں، وہ خود نمائی، خود ثنائی، نام و نمود اور شہرت اور ریا کا بت ہے۔
اس بات کی پرستش کے لیے عام طور پر ایسے ذرائع اور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، جس سے اس بت کی پرستش کا تاثر بھی نہ ابھرے اور لوگوں میں یہ بات ظاہر بھی نہ ہو، ساتھ ساتھ لوگوں کی طرف سے داد ملنا شروع ہوجائے، یا ان کی نظروں میں اپنی شخصیت کا وقار قائم رہ سکے اور توقیر و تعظیم ہونے لگے۔
بڑے بڑے دانشوروں، عالموں، محققوں اور کسی بھی محاذ پر خدمات سرانجام دینے والی شخصیتوں کے حالات کا گہرا جائزہ لیا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ ان کی خدمات اور کاموں کے پسِ پردہ عام طور پر داد و ریا اور خودنمائی کا جذبہ ہی کارفرما رہا ہے۔
ریا اور خودنمائی والا کردار اور اس کی کچھ علامتیں:
ریا اور خودنمائی کی بعض علامتیں یہ ہیں:
اپنے علم، اپنی دانش، اپنی تقاریر، اپنی ذہانت، اپنی تحریروں، اپنے پیش کردہ نکات، اپنے بیانات وغیرہ پر داد و ستائش کی آرزوئوں کا غالب ہونا، بالخصوص اس طرح کے ہر موقع؎ پر اپنے خاص دوستوں سے تعریف و تحسین کی امید رکھنا، اگر تعریف نہ ہو تو دوستوں و ساتھیوں سے ناراضیِ خاطر کا ہونا، اخبارات، رسائل اور میڈیا میں اپنے بیانات، مضامین اور اپنے خطوط شائع ہونے یا کم از کم نام کی اشاعت کا طلب گار ہونا، اپنے عقیدت مندوں سے اپنی تعریف کروانے اور اپنی شہرت کے لیے خصوصی اہتمام اور کاوش کا ہونا، لباس کی تراش خراش اور اپنی شخصیت کی ظاہری چمک دمک، چہرے کی خوب صورتی میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرنا اور اس کے لیے زیادہ فکرمند ہونا، تاکہ لوگوں کی نظر میں اس کے لیے حسن و جمال کی صاحب شخصیت کا امیج ابھر سکے۔ دین کے ایسے کاموں سے زیادہ دلچسپی کا ہونا، جس سے اس کی بزرگی، نیکوکاری اور خادمِ دین اور داعی ہونے کی حیثیت ابھر سکے، لوگوں کے سامنے نماز اور ذکر و اذکار کا زیادہ اہتمام کرنا، جب کہ تنہائی میں عبادت اور ذکر و اذکار سے طبعی مناسبت کا نہ ہونا، مدارس و مساجد اور غریبوں کی امداد کے کاموں میں اس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لینا کہ نیکی کے ان کاموں میں اس کے سرپرست ہونے کا تاثر پیدا ہوسکے، غلبہ دین کے ایسے کاموں میں زیادہ دلچسپی رکھنا جس سے شہرت اور ناموری ہو، محلہ سے لے کر شہر اور صوبہ اور ملک کی سطح پر قائم انجمنوں، اداروں اور تنظیموں میں قیادت و سیادت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے کوشاں ہونا، اداروں، تنظیموں اور درسگاہوں کی طرف سے تعارف و پبلسٹی پر زیادہ زور ہونا، جب کہ حقیقی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہو، جہاد جیسے کاموں میں بھی اپنی شہرت اور داد و ستائش کی امید رکھنا، مقرروں، خطیبوں اور تصنیف و تالیف کے صاحبوں کی طرف سے اپنی شخصیت کے بت کو نہایت خوب صورتی سے سامنے لانے کی کاوش کا ہونا، اپنے علم اور تقویٰ سے زیادہ اپنی حیثیت کو جتانا اور اسے اجاگر کرنا۔
غرض کہ اس طرح کے بہت سارے کام ہیں، جو خودنمائی، جذبہ شہرت اور ریا کے زمرے میں شامل ہوتے ہیں، المناک بات یہ ہے کہ ساری زندگی ریا جیسے بت میں صرف ہوجانے کے باوجود اس کے ادراک سے محرومی ہوتی ہے۔
ریا اور داد وتحسین قرآن کی نظر میں:
ریا اور خود نمائی کے لیے قرآن و احادیث میں سخت انتباہات دیئے گئے ہیں۔ قرآن کی کچھ آیات اور احادیث پیش کی جاتی ہیں۔
قرآن نے اہلِ کتاب کی نفسیات کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’جو لوگ اپنے کاموں سے خوش ہوتے ہیں، اور جو اچھے کام کرتے نہیں۔ اپنے (ان ناکردہ) کاموں کے بارے میں چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے۔ ان کے بارے میں خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے بچالیے جائیں گے‘‘۔
داد وستائش احادیث کی نظر میں:
ریا اور جذبہ شہرت کی ہلاکت خیزیوں اور اعمال کے غارت ہوجانے کے بارے میں احادیث میں بھی انتباہات دیئے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم اس سلسلے کی کچھ احادیث نقل کرتے ہیں اور ریا کے مقابل جذبہ اخلاص و للہیت کی اہمیت کے بارے میں بھی احادیث نقل کرتے ہیں۔
ذیل کی احادیث امام غزالیؒ کی کتاب ”احیا العلوم“ سے ماخوذ ہیں، جو حدیث کی مختلف کتابوں میں بھی نظر سے گزری ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسا کوئی عمل قبول نہیں کرتا جس میں ذرہ بھربھی ریا ہو۔
آپؐ نے فرمایا: معمولی ریا بھی شرک ہے۔
فرمایا: خفیہ عمل ظاہری عمل سے ستر گنا زیادہ افضل ہے۔
فرمایا: خفیہ عمل کا ثواب اعلانیہ عمل کے مقابلے میں ستر گنا زیادہ ہے، اور اعلانیہ عمل کا ثواب اگر دوسرے لوگ اس عمل کی اقتدا کریں تو خفیہ عمل کے مقابلے میں ستر گنا زیادہ ہے۔
ابو عبدالرحمٰن ابن سیرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ابو عبدالرحمٰن، امارت مت طلب کرنا، اگر تجھے بغیر مانگے امارت ملی تو اس پر تیری مدد کی جائے گی، اور مانگنے سے حاصل ہوئی تو تجھے اس کے حوالے کردیا جائے گا۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے علم کو غیر خدا کے لیے حاصل کیا، جس نے علم کے ذریعے غیر خدا کی رضا جوئی کا ارادہ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کرے۔
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم امارت کی حرص کرتے ہو، حالانکہ وہ قیامت کے روز ندامت و حسرت کا باعث ہوگی، اِلّا یہ کہ کوئی شخص اسے حق کے طور پر اختیار کرے۔
آپؐ نے فرمایا: جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی، اس نے گویا شرک کیا۔ اور جس نے دکھاوے کے لیے خیرات کی، اس نے بھی شرک کیا۔
nn
حضرت ابراہیمؑ کی دعا
حضرت ابراہیم ؑ جب اپنے باپ کے ظلم سے تنگ آکر گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور پھر برسہا برس تک اپنی قوم کو بت پرستی چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت میں آنے کی دعوت دیتے رہے اور وہ قوم کہ جس میں ان کا باپ بدستور شامل رہا، مسلسل انکار کرتی رہی تو حضرت ابراہیم ؑ نے یہ دعا کی اور اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے صالحین میں شمولیت کی التجا کی، اس پر اللہ تعالیٰ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ دیکھ لینا قیامت کے روز جنت صرف ایمان لانے والوں کے لیے اور دوزخ منکرین کے سامنے ہمیشہ کے لیے کھول دی جائے گی:
’’اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا، اور بعد میں آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر، اور مجھے جنت کے وارثوں میں شامل فرما، اور میرے باپ کو معاف کردے کہ وہ بے شک گمراہ لوگوں میں سے ہے، اور مجھے اُس دن رسوا نہ کر جب کہ سب لوگ زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے‘‘۔ (الشعرا:87-83)