گاہے گاہے ہے باز خواں
عبدالکریم عابد
عربی، فارسی سے بے تعلقی
قیامِ پاکستان کے بعد عربی مدارس کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہوا ہے اور مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جامعات سے عربی کے ایم اے بھی نکل رہے ہیں، لیکن عربی بولنے کی صلاحیت اچھے اچھے علما کو بھی حاصل نہیں۔ حالات اور ضروریات کے تحت کاروباری خطوط اور کاغذات کا عربی ترجمہ کرنے والے دستیاب ہیں، لیکن عربی میں تحریر و تقریر پر شاذ شاذ لوگوں کو قدرت حاصل ہے۔ نظر یہ آتا ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں مسعود عالم ندوی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کے مرحوم ہوجانے کے بعد ان کی طرح کا کوئی اور صاحبِ طرز عربی ادیب پیدا نہیں ہوگا جو عرب دنیا کو متاثر کرسکے۔ ہماری صحافت بھی عربی، فارسی سے دور ہے۔ ان کے دفاتر میں عربی، فارسی اخبارات یا رسائل کا گزر نہیں، حالانکہ تراجم کرنے والے دستیاب ہیں لیکن اخبارات کی اس جانب توجہ نہیں۔
عربی سیکھنا زیادہ مشکل نہیں، جو قرآن پڑھتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ عربی کی شدبد حاصل کرلیتے ہیں، اور کوشش کی جائے تو عربی آسانی سے سیکھی جاسکتی ہے۔ اب عربی سیکھنے کے جدید طریقے ہیں اور طلبہ کو اکتاہٹ پیدا کرنے والی گردانیں رٹنے کی ضرورت نہیں۔ پہلے عربی سیکھنے کو مذہبی نقطہ نظر سے اچھا خیال کیا جاتا تھا، لیکن آج عالمِ عرب سے اقتصادی تعلقات کے لیے بھی اس کی اہمیت ہوگئی ہے۔ فارسی بولنے والے صرف ایران میں ہی نہیں افغانستان اور وسط ایشیا کے ملکوں میں بھی ہیں۔ عربی، فارسی اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ ہمارا سارا مذہبی اور ادبی لٹریچر ان زبانوں میں ہے، اور ان زبانوں سے کٹ کر اس لٹریچر سے بھی ہم کٹ چکے ہیں، حالانکہ پاکستان بننے سے پہلے فارسی کا ’’آمدن نامہ‘‘ نصاب میں شامل تھا اور فارسی بطور دفتری زبان حال ہی کی بات ہے۔ افغانستان میں اب بھی دفتری کاروبار فارسی میں ہوتا ہے۔ حیدرآباد دکن میں آخری نظام میر عثمان علی خاں سے پہلے میر محبوب علی خاں کے دور میں فارسی سرکاری زبان تھی۔ پنجاب میں مہاراجا رنجیت سنگھ اور کشمیر میں ڈوگرہ راج کے دوران بھی فارسی دفتری زبان رہی اور اس میں ہندوئوں کے کائستھ طبقے نے مسلمانوں سے بھی بڑھ کر مہارت حاصل کرلی تھی۔ ٹیپو سلطان کی ریاست میسور کی زبان بھی فارسی تھی، حد یہ کہ مغل دور میں دربار سے تعلق کی بنا پر مرہٹوں نے بھی فارسی سیکھ لی تھی۔
آج عربی اور فارسی دونوں زبانوں کی طرف ہماری بے توجہی ہے، حالانکہ اردو ادب کا بہت کچھ تعلق عربی، فارسی سے ہے۔ ان زبانوں میں مہارت کے بغیر اردو نویسی بھی ناقص رہتی ہے۔ اقبال کو سمجھنے کے لیے تو فارسی لازمی ہے، اور جس کو فارسی نہیں آتی اس نے اقبال کو بہت کم سمجھا ہے۔
فارسی صرف ایک زبان نہیں ایک تہذیب کا نام بھی تھا۔ ادبی ذوق کا ابھار اور نکھار اس زبان کے لٹریچر سے ہی پیدا ہو۔ حکمت کی باتیں، معرفت کے راز جو صوفیہ کے کلام میں ہیں، اکثر فارسی میں ہیں۔ اگر آپ رومیؒ و سعدیؒ سے ناآشنا ہیں تو اپنی تہذیب کی اصل سے ناآشنا ہیں۔ پہلے تو کہا جاتا تھا کہ ’’فارسی پڑھو اور بیچو تیل‘‘۔ لیکن اب فارسی بہتر روزگار فراہم کرنے میں بھی معاون ہے۔ یہی صورت عربی کی ہے جو نہ صرف عالمِ عرب بلکہ افریقہ تک پھیلی ہوئی ہے۔
مغربی تہذیب کی ماں یونانی، لاطینی ہے۔ اور اسلامی تہذیب نے عربی، فارسی سے جنم لیا ہے۔ اس تہذیب کی خصوصیت ہفت زباں لوگ تھے جو اب نظر نہیں آتے۔
دنیا کی تہذیب ساز زبانوں میں انگریزی بھی ہے، فرانسیسی بھی، جنہوں نے ایشیا پر بہت اثر ڈالا۔ مسلمان بھی ان کے اثر سے آزاد نہیں، اور تہذیبوں کے مثبت اثرات قبول کرنا اچھی بات ہے لیکن ہمیں اپنی بنیادی تہذیبی اقدار کے لیے عربی، فارسی سے تعلق قائم رکھنا ہوگا اور ان زبانوں کے فروغ و اشاعت کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔
آج کی دنیا لسانی اعتبار سے بھی وحدت کی جانب جارہی ہے۔ عالمی زبان کے طور پر کوئی زبان ضرور غلبہ حاصل کرے گی اور چھوٹی چھوٹی بولیوں، زبانوں کا اب دور نہیں ہے۔ لیکن عربی، فارسی چھوٹی زبانیں نہیں ہیں، خاص طور پر عربی عالمِ اسلام کے ایک بہت بڑے علاقے کی زبان ہے اور مسلمان اسے اپنی ’’عالمی زبان‘‘ کے طور پر فروغ دے سکتے ہیں۔ عالمی زبان نہ سہی ’’ملّی زبان‘‘ تو یہ بن سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر شخص عربی داں اور فارسی داں ہو، لیکن اتنی عربی تو ہر مسلمان کو آنی چاہیے کہ اسے معلوم ہو وہ نماز میں کیا پڑھ رہا ہے۔ اور ہر مسلمان ملک میں عربی، فارسی جاننے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہونی چاہیے تاکہ ربط و ضبطِ ملّت کا یہ ذریعہ ترقی کرتا رہے۔
nn