کشمیر تا یروشلم
نعیم صدیقیؒ
کشمیر کے چنار کہ سینا کے ریگ زار
انسان ہر دیار میں دیووں کا ہے شکار
میں دیکھتا ہوں آج ہمالہ سے طُور تک
تہذیبِ حُسن کار کی اقدار کے مزار
دانش کے مہر و ماہِ درخشاں کے باوجود
اِک رات چھا گئی ہے سیہ، مثلِ زلفِ یار
دونوں طرف ہے رشتۂ دردِ جگر مرا
یہ بھی مرا دیار ہے، وہ بھی مرا دیار
یاں بھی مرے رفیق ہیں، واں بھی مرے عزیز
اِس خاک سے بھی پیار ہے، اُس خاک سے بھی پیار
دونوں جگہ ہوا ہے مرا خونِ آرزو
دونوں جگہ لُٹی ہے مری دولتِ قرار
لاشیں بہ صد قطار ہیں یاں بھی ندائے حُسن
واں بھی نثارِ یار ہیں لاشیں بہ صد قطار
نغمہ الاپتا ہوں، مگر گُھٹ رہی ہے سانس
چھیڑا ہے وہ ستار کہ ٹوٹے ہیں جس کے تار
کشمیر پر کڑک چکی چنگیزیت کی برق
بغداد پر گزر گیا پھر فتنۂ تتار
موجِ نسیم ہے یہاں گلشن کی نوحہ خواں
بادِ شمال کرتی ہے واں ماتمِ بہار
اب منزلِ ثبات شہادت گہِ جنوں
اور جادئہ حیات ہے خنجر کی تیز دھار
ہر برگِ گُل پہ کانٹوں سے لکھا ہے حرفِ راز
ہر ذرے پر لہو کا کوئی نقشِ یادگار