بیاد سید ابوالاعلی مودودیؒ
ادارہ معارف اسلامی ،لاہور کے زیر اہتمام سیمینار سے سینیٹر سراج الحق کا خطاب
حافظ محمد ابراہیم
واجب الاحترام قائدین تحریک اسلامی ،محترم بہن وبھائیو! السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔مجھے اس بات کاشدت سے احساس ہوا کہ: اتنے اہم موضوع پریہ وقت ان مہمانوںکے لیے بہت کم تھا۔دو تین باتیں آپ کے سامنے عرض کروںگا۔میںخودتومولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے نہیں ملا ہوں، مگرجس طرح شامی صاحب نے فرمایاکہ میں روز مولانا سے ملتا ہوں،میںبھی اسی طرح مولاناسے ملتا ہوں۔تفہیم القرآن پڑھتا ہوں،دینیات پڑھتاہوں، اس طرح دیگرکتب کا مطالعہ کرکے ان سے ملاقات رہتی ہے۔اورتحریک اسلامی کاہرکارکن ان کی کتب کامطالعہ کرکے ان سے ملاقات کرتاہے۔
ہمارے صوبہ خیبرپختون خواہ میںقوم پرستی کی تحریک اٹھی، خان عبدالغفار خان کے بعدخان عبدالولی نے اس تحریک کوجاری رکھا،وہ اپنے حامل نظریات کے طلبہ کو ’’ماسکو‘‘بھیجتے رہے۔اعلیٰ یونیورسٹیوںمیںتعلیم دلواتے تھے ،ان کے دستخطوں سے داخلے ملتے تھے ۔انہیںدنوں ڈاکٹراکبرعلی جوان کے نظریات سے وابستہ تھے،تعلیم کے لیے روس بھیجا ۔ ڈاکٹرصاحب نے بتایاکہ ہمارے پروفیسرہر روزلیکچر میںتکرار کے ساتھ یہ بات دوہراتے تھے کہ روس کوروسی نظام کوسب سے بڑاخطرہ پاکستان میںموجودشخص مودودی کے قلم سے ہے۔ایک دن میں نے ہمت کرکے میںنے ان سے پوچھ لیاکہ سرآپ ہرروز کہتے ہیں کمیونزم کوسب سے بڑا خطرہ سید مودودیؒ سے ہے۔ان سے روس ،روسی نظام روسی نظریات کوکیاخطرہ ہے ؟وہ تواقلیت میںہیں، صوبائی اسمبلی میںان کاصرف ایک رکن ڈاکٹریعقوب ہے اورقومی اسمبلی میں ان کے صرف تین چار ممبرزہیں۔اگلے روز وہ آئے اوراس نے کہاکہ اس بچے نے کل کہاتھاکہ روسی نظام کو’’مودودیؒ‘‘ کے قلم سے کیاخطرہ ہے؟میری بات یادرکھو!میںرہوںیانہ رہوںجب بھی کمیونزم کی موت واقع ہوگی اس کا سبب’’ مودودیؒ‘‘ کا قلم ہوگا۔ڈاکٹر اکبر علی خان نے وہاںسیدمودودیؒ کے لٹریچرکامطالعہ شروع کیا،اس سے متاثر ہوئے اور مولانا کے معتقدبن گئے۔ بعدمیںایک چیچنی عورت سے رشتہ ازدواج میںمنسلک ہوگئے ۔وہ دونوںصرف ایک کام کے لیے پاکستان سے استنبول منتقل ہوگئے۔وہ کام تھامولانا مودودی کالٹریچر روسی زبان میں ترجمہ کرکے روس بھیجنا۔زندگی کاایک بڑاحصہ استنبول گزار کر انہوں نے یہ کام کیا۔ پاکستان میںبیٹھ کریہ کام مشکل تھا۔ایک اور تصویربھی آپ کے سامنے پیش کروںگا۔خالدجوکہ سیدحامد علی کا بیٹاتھا، ۱۹۷۶ء میںجامعہ اسلامیہ دھلی میں داخلہ لیا۔تاکہ اضافی مضمون کے طورپرہندوازم کوکسی مسلمان خطیب یاپروفیسرسے سمجھنے کے بجائے کسی کٹرہندو سے سمجھا جائے۔وہ ہندواستاداسلام کابہت سخت دشمن تھا۔ہر روزاسلام پرتنقیدکرتاتھاتاکہ وہ مجھے اسلام سے دور کرسکے۔وہ میرے متعلق سمجھتاکہ میںعالم فاضل ہوںاسلام کوجانتاہوں۔میں خاموشی سے اس کالیکچرسنتارہتا گونگابہرابنارہتاکوئی جواب نہ دیتا۔ایک دن اس نے کہا خالد میری باتوں کاتم پرکچھ اثرہواہے۔بالآخرایک دن میںنے اس سے کہاکہ سر’’ہندوازم ‘‘کوسمجھنے کے لیے میںنے اپنی مرضی سے آپ کاانتخاب کیا۔آپ کوبھی چاہیے کہ آپ اسلام کوسمجھنے اورجاننے کے لیے کسی ایسے فردکاانتخاب کریں ،جواسلام کوجانتاہے ،اس پرگہری نظررکھتا ہے۔ اس نے کہابتائو وہ کون ہے؟میںنے سیدمودودی کانام لیا اور اسے دینیات دی۔اس نے کتاب کامطالعہ کیا۔دس،پندرہ دنوںکے بعداس نے اپنے بیگ سے دینیات نکالی، میزپرہاتھ مارکرکہا، خالدبیٹے اگراسلام یہی ہے جواس کتاب میںہے توآج سے میرابھی یہی دھرم ہے۔
نعیم صدیقی نے مولانامودودی کو’’شاہ بلوط‘‘سے تشبیہ دی ہے ۔کہاوہ شاہ بلوط تھے، جن کی مجلس میںبیٹھ کربوڑھوںکوجوانی ملتی تھی،بچوں آکرکھیلتے ان کوکہانی ملتی تھی۔مولاناکاجسمانی سایہ آج توموجودنہیںہے، مگران کاروحانی سایہ آج بھی ہم پرسایہ افگن ہے۔
مجیب الرحمن شامی صاحب نے تاریخ کاحوالہ دیا،جب لیاقت بلوچ اورشبیراحمدنے مولانا مودودیؒ سے انفرادی طورپر جہادافغانستان میںشرکت کے حوالے سے رہنمائی لی، تو انہوں نے منع کردیااورکہاکہ جہادریاست کاکام ہے۔ فرداورتنظیم کاکام نہیں،ریاست ،ریاست کاکام کرے اور فردتنظیم اپناکام کریں۔آج جوپاکستان کاسلوگن ،بیانیہ ہے۔’’پیغام پاکستان ‘‘اس فتویٰ پرپانچ ہزارعلماء نے دستخط کیے ہیںکہ قتال وجنگ کااعلان اورقتال ریاست وحکومت وقت کاکام ہے۔اوریہی اسٹیٹ منٹ مولانامودودی کی بھی تھی۔اس وقت لوگوںنے مولاناکوجہادکشمیرکا مخالف قراردیا۔لیکن آج ان کے وارثین اورجانشینوںکے بھی ’’پیغام پاکستان ‘‘پردستخط موجودہیں۔آج کاایک اہم موضوع مسئلہ کشمیر ہے۔ کشمیرکے حوالے سے مولانا مودودی کی رائے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ اس موقف کے بارے میںمیاں طفیل محمدنے گواہی دی۔ان کی بیٹی نے اس کاتذکرہ اپنی کتاب میںکیا ہے۔وہ دارالسلام میں موجود تھے۔بانڈری کمیشن نے فیصلہ دیااور’’ضلع گورداس پور‘‘ ہندوستاں کے حوالے کیا۔اس وقت مولانا نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا، اگرمیرے پاس سو بندوقیںہوتیںتومیںراوی عبورکرکے کشمیر کی حفاظت کے لیے اس علاقے کوقبضے میںلے لیتا۔کیونکہ ان کایہی خیال تھاکہ یہ ضلع انڈیا کے حوالے کرنا،اس پرانڈیا کے قبضے کے لیے راستہ ہموارکرناہے۔۳۰اگست کوجب مولانا لاہور پہنچے ،ان کے کپڑوںپرسفرکی گردوغبارموجودتھی۔وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ افتخار ممدوٹ کے پاس گئے اورکہاکہ یہی وہ لمحہ ہے کہ پاکستان کی افوج اورسابقہ فوجی مل کرکشمیر میںانڈین فوج پر حملہ کریںاورہمیشہ کے لیے کشمیرکوانڈیاکے تسلط سے آزاد کرائیں۔ افتخارنے ان کی بات رد کردی۔ مولانانے چوہدری محمدعلی سے ملاقات کی اوران کوکہاکہ لیاقت علی کومیراپیغام پہنچائیںکہ یہی وقت کشمیرکوحاصل کرنے کا ہے۔ اگرآپ نے اس لمحہ کوضائع کردیا،توصدیاںبیت جائیںگی ،لیکن آپ اس خطے کو آزاد نہیںکراسکیںگے۔انہوںنے کہاکہ مولوی صاحب آپ اپناکام کریں،ہمیںہماراکام کرنے دیں،ہمیںنہ سمجھائیں، ہمیںمعلوم ہے ،ہم نے کیاکرناہے اورکیا نہیںکرنا۔لمحوںنے خطاکی صدیوں نے سزاپائی۔
مولاناایک نظریے ،جہد مسلسل ،روشنی اورایک وژن کانام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کانظریہ ہر طرف موجود ہے۔ انہوںنے اسلام کاجامع تصوردیاہے۔سیدمودودی نے نئی نسل کوجوبات سمجھائی کفر اس سے لرزہ براندام ہے۔چار پانچ دن پہلے مودی اورٹرمپ نے کہاکہ ہم نے مل کرریڈیکل اسلام کوختم کریںگے ۔ہم نے ریڈیکل کامعنٰی دیکھا،ڈکشنری سے رہنمائی لی، ریڈیکل اسلام کیاہوتا ہے ؟جومسلماںاپنی انفرادی واجتماعی زندگی میںقرآن وسنت سے رہنمائی لیتاہے، اقامت دین،شہادت حق،غلبہ اسلام یاجو بھی نام دیں،اس کے لیے کام کرتاہے وہ ان کے نزدیک ریڈیکل مسلم ہے۔دین کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا۔حضورﷺ کی رحلت کے بعد بعض شخصیات نے اس حق کی خاطرقربانیاں دیں۔اپنے خون سے چمنستان اسلام کوسینچا۔جس رات امام ابوحنیفہ کی رحلت ہوئی اسی رات امام شافعی دنیامیںآئے۔
آپ لوگوںکومبارک ہوآپ اس تحریک سے وابستہ ہیں۔ہم جماعت اسلامی سے وابستہ کسی فردکواپنی طرف نہیں بلاتے بلکہ اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔جماعت اسلامی کے دستورمیںیہ جملہ تمام جملوںپربھاری ہے۔حافظ ساجد انور صاحب کو مبارک بادپیش کرتاہوں۔اس اہم موضوع پرپروگرام منعقدکیا۔یہ پہلا مرحلہ ہے۔آخری مرحلہ نہیں،انشاء اللہ اس سلسلہ کو جاری رکھیں گے۔
مرتب حافظ محمدابراہیم مدرس جامعہ مرکزعلوم اسلامیہ
nn