تقریر بہت اچھی، مگر حالات عمل کا تقاضا کرتے ہیں

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ماحولیاتی تبدیلیوں، منی لانڈرنگ، اسلاموفوبیا اور خاص طور پر مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے ناگفتہ بہ حالات پر پاکستانی قوم کے جذبات مؤثر الفاظ اور انداز میں عالمی رائے عامہ تک پہنچائے۔ ان سے قبل ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنی تقریر میں ان کے لیے فضا ہموار کی، اور ان کے بعد ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے زوردار الفاظ میں پاکستانی وزیراعظم کی تائید میں خطاب کیا اور دنیا کو بتایا کہ بھارت نے اپنے ملک میں بھی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کررکھا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود جموں و کشمیر پر حملہ آور ہوکر طاقت کے ذریعے قبضہ کررکھا ہے۔ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر روہنگیا اور اویغور مسلمانوں پر مظالم کی بھی مذمت کی اور اسرائیل کے قیام کو اسلام دشمنی میں اضافے کا سبب قرار دیتے ہوئے بیت المقدس پر اس کے غاصبانہ قبضے اور یہودی آبادکاری کو تسلیم کرنے سے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا۔
پاکستان کی مؤثر سفارت کاری کے نتائج بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ امریکی کانگریس کی امورِ خارجہ سے متعلق ذیلی کمیٹی نے بریڈشرمین کی سربراہی میں 22 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر سماعت کا اعلان کردیا ہے۔ اس سماعت کے دوران 13 ارکانِ کانگریس کے موجود رہنے کا امکان ہے، جب کہ دوسری جانب 14 امریکی اراکینِ کانگریس نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، جبری بندشیں اور مواصلاتی نظام کا بلیک آئوٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی ارکانِ کانگریس کے بیان میں کہا گیا کہ امریکہ میں موجود جموں و کشمیر کے ہزاروں خاندان مواصلاتی بندشوں کی وجہ سے اپنے گھر والوں کی خیریت جاننے سے محروم ہیں۔ وزیراعظم مودی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جموں و کشمیر میں جاری پابندیاں ختم کریں۔ ارکانِ کانگریس نے کشمیر میں مسلمانوں کو مذہبی تہوار منانے سے روکنے، بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کے اقلیتوں پر حملوں اور مذہب کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا، اور بھارتی وزیراعظم پر زور دیا کہ بھارت میں مذہبی آزادی کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے۔ قائم مقام امریکی وزیر خارجہ ایلس ویلز نے بھی امریکی صدر کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش اور بھارت کی جانب سے اسے قبول نہ کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ وسیع پیمانے پر مقامی سیاسی اور کاروباری رہنمائوں کی گرفتاریوں اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے رہائشیوں پر پابندیوں پر تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ بھارتی حکومت کو ایک مرتبہ پھر کشمیریوں پر سے پابندی اٹھانے کی یاددہانی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے مقامی رہنمائوں کے ساتھ سیاسی روابط کی بحالی اور جلد از جلد انتخابات کا وعدہ پورا کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
دولتِ مشترکہ کی پارلیمانی ایسوسی ایشن میں بھی بھارت کو سفارتی محاذ پر ایک اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جس نے افریقی ملک یوگینڈا کے دارالحکومت کمپالا میں منعقدہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے جاری محاصرے کی تحقیقات کا فیصلہ کرلیا۔ یہ فیصلہ پاکستان کی بین الصوبائی رابطہ کی وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا کی قیادت میں پاکستانی مندوبین کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات کی طرف متوجہ کیے جانے پر کیا گیا۔ اس پارلیمانی کانفرنس کی جنرل اسمبلی کے صدر نے پاکستانی وفد کے سربراہ کو معاملے کی تحقیقات کے لیے تحریری درخواست پیش کرنے کی ہدایت کی۔ بھارتی مندوب نے اپنی روایات کے مطابق صورت ِحال کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے کر تحقیقات کا فیصلہ رکوانے کی بھرپور کوشش کی مگر اجلاس کے شرکاء نے یہ مؤقف مسترد کر دیا۔
یوں صورتِ حال کا یہ پہلو یقینا اطمینان بخش قرار دیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے اقوام متحدہ سے مدلل خطاب کو قومی ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور پاکستان کی سفارت کاری بھی نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا محض دلکش تقاریر اور زور دار سفارت کاری ہی کافی ہے یا کچھ اور کرنا بھی لازم ہے؟ کیا پاکستانی حکومت کی اب تک کی سرگرمیوں کے نتیجے میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں دو ماہ سے جاری کرفیو ختم کردیا ہے ؟ عوام پر عائد کی گئی غیر انسانی پابندیوں میں کوئی کمی آئی ہے؟ حریت رہنمائوں کی رہائی کی جانب کوئی پیش رفت ہوئی ہے ؟ گھروں سے اٹھائے گئے کشمیری نوجوانوں کی گھروں کو واپسی شروع ہو گئی ہے ؟ بھارت نے اپنے آئین میں کی گئی یک طرفہ ترامیم واپس لینے کا کوئی عندیہ دے دیا ہے؟ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حقِ خودارادیت اور رائے شماری کرانے پر کسی قسم کی آمادگی ظاہر کردی گئی ہے؟ جی نہیں، ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ یہاں تو الٹا جنگ بندی لائن پر گولہ باری میں اضافہ کردیا گیا ہے اور بے گناہ شہریوں کی شہادتوں کا سلسلہ طویل تر ہوگیا ہے، بلکہ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بین راوت نے تو پاکستان کے اندر گھس آنے کی دھمکی بھی دے دی ہے اور ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں اپنے جارحانہ عزائم کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب آنکھ مچولی کا کھیل نہیں چلنے دیں گے، چاہے زمینی راستہ اختیار کرنا پڑے یا فضائی کارروائی، یا دونوں کا ایک ساتھ استعمال کرنا پڑے، ہم گریز نہیں کریں گے۔ بھارتی فضائیہ کے نئے سربراہ رامیش کمار سنگھ نے بھی پیر کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد چین اور پاکستان کو دھمکایا ہے کہ رافیل طیاروں کی فضائی بیڑے میں شمولیت سے ہمیں پڑوسی ملکوں پر برتری حاصل ہو جائے گی۔ ہمارے اطمینان اور جشن کا جواز آخر کیا ہے؟ گویا علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اقوامِ متحدہ اور اقوامِ عالم کی تاریخ اٹھاکر دیکھیے، یہ کیسی کیسی پُرجوش اور اثرانگیز تقاریر سے بھری ہوئی ہے۔ عالمی اداروں کے اجلاس کی رودادیں بھی پڑھ کر دیکھیں، ان میں کتنی زبردست اور زوردار الفاظ میں قراردادیں منظور کی جاتی رہیں… مگر سوال یہ ہے کہ ان میں سے کتنی پر عمل ہوا؟ جواب مایوس کن ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے نیویارک سے واپسی پر اسلام آباد میں اپنے استقبال کے لیے آنے والے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا چاہتے ہیں اس لیے جہاد سمجھ کر کشمیریوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ جذبہ بہت قابلِ قدر ہے، مگر اس کے لیے محض تقاریر کافی نہیں۔ وہ جس منصب پر بیٹھے ہیں وہ عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ نے واضح الفاظ میں رہنمائی فرمائی ہے کہ:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
(حامد ریاض ڈوگر)