باغِ بلوچستان

تبصرہ نگار:حامد ریاض ڈوگر

کتاب
:
باغِ بلوچستان
مصنف
:
ڈاکٹر انعام الحق کوثر
ضخامت
:
528 صفحات
قیمت
:
1000 روپے
ناشر
:
ادارۂ تصنیف و تالیف بلوچستان کوئٹہ
تقسیم کار
:
فائن پبلی کیشنز، کمرہ نمبر 16 دوسری منزل
ڈیوس ہائٹس، 38 ڈیوس روڈ، لاہور
بلوچستان کے شناس ماہرِ تعلیم، ممتاز محقق اور معروف ادیب ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے 1931ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر کے گائوں کنیان کلاں میں آنکھ کھولی۔ تقسیم برصغیر کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1953ء میں جامعہ پنجاب لاہور سے جے۔ ڈی (ڈپلوما ان جرنلزم) کیا۔ 1954ء میں فارسی زبان و ادب میں ایم اے کی ڈگری درجہ اوّل میں حاصل کی۔ 1956ء میں گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں لیکچرار تعینات ہوئے اور پھر عمر کا بڑا حصہ بلوچستان ہی میں اس طرح گزار دیا کہ تمام تر توجہات کا مرکز بلوچستان ہی رہا۔
1963ء میں جامعہ پنجاب ہی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1970ء سے 1980ء تک آپ گورنمنٹ کالج مستونگ، گورنمنٹ ڈگری کالج لورالائی اور گورنمنٹ ڈگری کالج سبی کے پرنسپل رہے۔ کچھ عرصہ بلوچستان یونیورسٹی میں بھی بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر کام کیا۔
1980ء سے 1985ء تک آپ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری ایجوکیشن بلوچستان کوئٹہ کے چیئرمین رہے۔ اس دوران انٹر بورڈ کمیٹی آف چیئرمین اسلام آباد کے بھی چیئرمین رہے۔ ان کو حکومت اور کئی اداروں نے ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا۔ بعد ازاں 1991ء تک ادارۂ نصابیات و مرکز توسیع تعلیم بلوچستان کوئٹہ کے ناظمِ تعلیمات کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
نوجوانوں کی ذہنی و روحانی تربیت اور بالیدگی کے لیے بلوچستان بھر میں سیکڑوں علمی، ادبی، دینی اور تعلیمی پروگرام منعقد کرائے جن کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے ڈیڑھ سو کے قریب قومی و بین الاقوامی مذاکروں میں مقالات پیش کیے۔ علمی مجالس میں شرکت کی غرض سے کئی ممالک کے دورے بھی کیے۔ بلوچستان کے بیسیوں طلبہ اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات کی تکمیل کے سلسلے میں آج بھی ان کے علمی و تحقیقی کام سے استفادہ کررہے ہیں۔
اپنی سرکاری ذمہ داریوں کے ضمن میں انتظامی مصروفیات کے باوجود ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے تصنیف و تالیف کے کام پر بھی بھرپور توجہ دی اور ایک سو سے زائد انگریزی اور فارسی تصانیف کے علاوہ 76 درسی کتب، علمی، ادبی، سائنسی اور نصابی رپورٹس تحریر کیں، جب کہ آپ کے شائع شدہ مقالات کی تعداد بھی چھ سو سے زیادہ ہے، جب کہ ساٹھ براہوی، بلوچی اور پشتو تراجم ان کے علاوہ ہیں۔ زندگی کا آخری حصہ انہوں نے لاہور میں گزارا۔ 12 دسمبر 2014ء کو لاہور ہی میں دارِفانی سے کوچ کیا اور یہیں سپردِ خاک ہوئے۔ شدید علالت کے دوران بھی خود کو تحقیق و تصنیف میں مصروف رکھا اور نماز باجماعت کی ادائیگی کا خصوصی اہتمام کرتے رہے۔ یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ ان کے بچے ان کی وفات کے بعد مرحوم کی غیر مطبوعہ کتب کی اشاعت اور مطبوعہ کتب کی دوبارہ اشاعت کا اہتمام کررہے ہیں۔ زیرنظر تصنیف ’’باغِ بلوچستان‘‘ بھی اسی سلسلۂ اشاعت کی ایک کڑی ہے، جس کے آغاز میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے کالم نویس، ماہنامہ پھول کے مدیر اور پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی کے صدر محمد شعیب مرزا ’’آفتابِ بلوچستان۔ ڈاکٹر انعام الحق کوثر‘‘ کے عنوان سے مصنف کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر انعام الحق کوثر کا شمار ہمارے قومی محسنوں میں ہوتا ہے۔ ان کے احسانات کی فہرست طویل ہے، لیکن دو حوالوں سے ان کے کارنامے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ایک تو ان کی اپنی تعلیمی و ادبی شعبوں میں نمایاں خدمات ہیں۔ دوسرا انہوں نے بلوچستان کے تحریکِ پاکستان میں کردار، قائداعظم، مادرِ ملت اور علامہ اقبال و بلوچستان کے دیگر زعما، شاعروں، ادیبوں اور بچوں کے ادب کے حوالے سے مجموعی طور پر سو کے قریب کتابیں لکھی ہیں۔ مختلف کالجوں میں درس و تدریس، پرنسپل کے عہدے پر تقرری اور بلوچستان بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے تعلیم، قومی یکجہتی، حب الوطنی اور ادب کے فروغ کے لیے نمایاں اور قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اپنے عمدہ اخلاق و کردار اور حسنِ تدبر کے ساتھ بلوچ نوجوانوں کو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار کیا۔‘‘ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 1991ء میں انہیں اعزازِ فضیلت، بہترین استاد اور 1997ء میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔
’’باغِ بلوچستان‘‘ میں اُن اہلِ قلم کی خدمات کا تذکرہ ہے جنہوں نے بلوچستان جیسے دور افتادہ خطے میں رہتے ہوئے علمی و ادبی اداروں سے دوری اور وسائل کی کم یابی کے باوجود محنت اور لگن سے اپنا مقام بنایا اور سرزمینِ بلوچستان میں علم و ادب کے حوالے سے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ ڈاکٹر انعام الحق کوثر سے بطور رفیقِ کار یا شاگرد ان کا براہ راست تعلق رہا۔ کتاب میں شامل ان اہلِ علم و قلم کی تعداد 127 تک پہنچتی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان کی سنگلاخ سرزمین میں کیسے کیسے گہر ہائے گراں مایہ نے جنم لیا یا پرورش پائی۔ بعض ایسے مشہور و معروف اور بلند پایہ ادیبوں اور شاعروں کا تعارف بھی اس کتاب میں شامل ہے، لاہور میں رہتے ہوئے جن کے متعلق کبھی گمان بھی نہ گزرا تھا کہ ان کا تعلق بلوچستان سے رہا ہوگا، اور خود مصنف کے بقول علالت کے باعث نظرثانی نہ ہوسکنے کے سبب ابھی یہ تذکرہ نامکمل ہے، یعنی بقول شاعر ؎
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
کتاب میں بلوچستان کے جن اہم ادیبوں اور شاعروں کا تعارف کرایا گیا ہے مصنف نے اُن کے نظم و نثر کے شہ پاروں سے انتخاب بھی کتاب میں محفوظ کردیا ہے، جس سے یہ تذکرہ زیادہ معتبر اور مفید ہوگیا ہے۔ مناسب ہوگا کہ حکومتِ بلوچستان خاص طور پر اور وفاقی و دیگر صوبوں کی حکومتیں کتاب کو اپنے تعلیمی اداروں اور پبلک لائبریریوں کی زینت بنائیں تاکہ موضوع سے دلچسپی رکھنے والے زیادہ سے زیادہ تشنگانِ علم اس سے استفادہ کرسکیں۔
nn