-1 نہیں معلوم کیا انجام ہو؟ خدا جانے تقدیر کیا دکھائے؟ معاملہ کیا صورت اختیار کرتا ہے؟ اس کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب کئی حکایتیں ہیں جو معمولی فرق کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی حکایت اس طرح ہے:
ایک مرتبہ ایک کمہار اور ایک گھسیارے نے ساجھے میں ایک اونٹ خریدا۔ گھسیارے نے اونٹ کی پیٹھ کے ایک طرف گھاس لادی اور کمہار نے دوسری جانب اپنے مٹی کے برتن لادے۔ وہ دونوں اونٹ کے ساتھ اپنا اپنا مال فروخت کرنے کے لیے شہر کے بازار کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں اونٹ گردن اٹھا اٹھا کر گھسیارے کی گھاس کھاتا جارہا تھا۔ اونٹ کو گھاس کھاتا دیکھ کر کمہار ہنسنے لگا۔ گھسیارے نے سوچا: ’’عجیب آدمی ہے؟ میرے نقصان پر ہنس رہا ہے‘‘۔
اس نے کمہار سے کہا: ’’کاہے ہنسے کمہار کے پوت، کونے کروٹ بیٹھے اونٹ‘‘۔
’’یعنی اے کمہار کے بیٹے تُو میرے نقصان پر ہنس رہا ہے، دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘‘۔
آخرکار جس وقت وہ دونوں اونٹ کے ساتھ شہر کے بازار پہنچے تو اونٹ اسی کروٹ بیٹھ گیا جس طرف کمہار کے برتن لدے تھے۔ بہت سارے برتن چور چور ہوگئے۔
-2ایک قصبے سے ایک کسان اور ایک منہار اپنے اپنے اونٹ پر مال لے کر شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ کسان نے اپنے اونٹ کی پیٹھ پر چارہ لاد رکھا تھا اور منہار نے کانچ کی چوڑیاں۔ دونوں اونٹ ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ کسان نے منہار سے کہا: ’’تم اپنے اونٹ کو آگے کرلو‘‘۔ (منہار: چوڑیاں بیچنے والا)
منہار نے جواب دیا: ’’عجیب آدمی ہو۔ تم اپنے اونٹ کو آگے رکھو۔ میرا اونٹ تمہارے اونٹ کے سہارے آگے بڑھتا رہے گا۔ کیونکہ تمہارے اونٹ پر چارہ لدا ہوا ہے، اگر میرا اونٹ آگے چلے گا تو پیچھے مڑ مڑ کر تمہارے اونٹ کی پیٹھ پر لدے چارے کی طرف دیکھتا رہے گا جس سے اس کی چال کم ہوجائے گی، پیچھے ہونے کی وجہ سے تمہارے اونٹ کی رفتار پر بھی اثر پڑے گا، اس کے علاوہ میرے اونٹ کے آگے چلنے میں بھی خطرہ ہے۔ کہیں اونٹ بدک گیا تو کانچ کی چوڑیاں ہیں۔ نازک اتنی ہوتی ہیں کہ سب کی سب چکنا چور ہوجائیں گی اور میری رقم ڈوب جائے گی۔ تمہیں کاہے کا ڈر، تمہارے اونٹ پر تو چارہ لدا ہوا ہے، نہ ٹوٹنے کا ڈر نہ پھوٹنے کا‘‘۔
کسان خاموش ہوگیا اور اس نے اپنے اونٹ کو چپ چاپ آگے کرلیا۔ منہار کے اونٹ نے کسان کے اونٹ پر لدے چارے کو منہ مار مار کر کھانا شروع کردیا۔ کسان اور منہار سفر بھر ملہاریں گاتے رہے۔ منہار دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ مفت کے چارے میں اس کے اونٹ کا پیٹ بھر جائے گا۔ کسان نے بھی تاڑ لیا تھا کہ منہار کا اونٹ، اس کے اونٹ پر لدے ہوئے چارے میں منہ مارتا چل رہا ہے۔ اس نے راستے میں کچھ بھی کہنا مناسب نہ سمجھا۔ صبر و ضبط سے کام لیا، مگر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد یہ ضرور کہتا رہا: ’’دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟‘‘
منہار کی سمجھ میں اس جملے کا مطلب کچھ نہ آیا۔ وہ سمجھا کہ کسان یوں ہی بڑبڑا رہا تھا۔ آخرکار دھیرے دھیرے وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ منہار کے اونٹ کا پیٹ بھر چکا ہے۔ وہ منزل پر پہنچتے ہی ایک کروٹ سے بیٹھ گیا۔ منہار کی بہت سی چوڑیاں چکناچور ہوگئیں۔ کسان یہ دیکھتے ہی خوش ہوگیا اور فتح مندی سے مسکرایا۔ اب منہار کی سمجھ میں آیا کہ کسان بار بار کیوں کہہ رہا تھا کہ ’’دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟‘‘
تیسری حکایت معمولی فرق کے ساتھ اس طرح بیان کی جاتی ہے:
-3 ایک کنجڑے (سبزی فروش) اور ایک کمہار نے شراکت میں ایک اونٹ کرائے پر لیا۔ کنجڑے اور کمہار کو اپنا اپنا مال بیچنے کے لیے اونٹ پر لاد کر قصبے کے بازار میں فروخت کرنے کے لیے لے جانا تھا۔ کنجڑے نے اونٹ کی پیٹھ کے ایک طرف ترکاری اور کمہار نے دوسری جانب مٹی کے برتن لادے۔ راستے میں اونٹ اپنی گردن اٹھا اٹھا کر کنجڑے کی ترکاری کھاتا جاتا تھا۔ کمہار اسے دیکھ دیکھ کر بہت خوش تھا۔ جب منزل پر پہنچے تو اونٹ والے نے جیسے ہی اونٹ کو بٹھایا تو وہ اس کروٹ بیٹھ گیا جدھر کمہار کے برتن لدے تھے۔ ان میں سے بہت سے برتن دبنے سے ٹوٹ گئے۔ جب کنجڑے اور کمہار نے اپنے اپنے نقصان کا مقابلہ کیا تو زیادہ نقصان کمہار کا ہوا۔ اس وقت کنجڑے نے کمہار سے طنزاً کہا: ’’بھائی افسوس کیوں کرتے ہو، اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے، آئندہ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟‘‘
(مرتب:علی حمزہ، ماہنامہ چشمِ بیدار، ستمبر 2019ء)
ہنرورانِ ہند
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کے مزار!
موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں
زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار!
چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقاماتِ بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ، بدن کو بیدار
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار!
اعصاب:عصب کی جمع۔ رگ پٹھے۔
-1 ہندوستان کے ہنروران کی حقیقی حیثیت واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے خیالات عشق اور مستی کے لیے موت کا پیغام ہیں۔ ان کی اندھیری فکر میں قوموں کے مزار بنے ہوئے ہیں۔ یعنی یہ جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ قوموں کی زندگی برباد ہی کرنے کا باعث ہوتا ہے۔
-2 ان کے بت خانوں میں موت کی تصویریں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ ایسے برہمن ہیں جن کا ہنر زندگی کی لذت سے بیزار ہے، یعنی اس میں زندگی کی کوئی خصوصیت نظر نہیں آتی۔
-3 یہ اونچے مقامات کو انسان کی آنکھ سے چھپاتے ہیں۔ اس کی روح کو سلا دیتے ہیں اور اس کے بدن کو جگا دیتے ہیں۔ یعنی روحانی قوتوں کو بے دست و پا بناکر حیوانی قوتوں کو جوش میں لاتے ہیں۔
-4 ہندوستان کے شاعر ہوں، یا مصور یا افسانہ نویس، افسوس کہ ان سب کے رگ پٹھوں پر عورت سوار ہے۔
یعنی یہ عورتوں کی تصویریں اور کردار ایسے انداز میں پیش کرتے ہیں جس سے لوگوں کی نفسانی خواہشات بھڑک اٹھیں۔ اسی میں ان کا کمالِ فن محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ لہٰذا اس سے قوم کو زندگی کا کیا سبق مل سکتا ہے؟