سید عارف بہار
پاکستان اور بھارت کی ایک دن کی خبروں کا جائزہ لیں تو عمران خان کا یہ بیان سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا رہا ہے کہ ’’دنیا ساتھ دے یا نہ دے، پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا رہے گا اور یہ صرف اللہ کو خوش کرنے کے لیے ہے،کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہونا جہاد ہے‘‘۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ کشمیر کی خصوصی شناخت کا خاتمہ کشمیر میں مارے جانے والے فوجیوں کے لیے انعام ہے۔ بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے پھر زور دے کر کہا ہے کہ ضرورت پڑی تو کنٹرول لائن فضائی اور زمینی ذریعے سے عبور کریں گے، اب چھپن چھپائی کا کھیل زیادہ دیر تک نہیں کھیل سکتے۔ بھارتی آرمی چیف جو دھمکی دے رہے ہیں یہ پاکستان کی مقرر کردہ ریڈلائن ہے، جس کے بعد برصغیر کے اوپر برسوں سے منڈلانے والے جنگ کے بادل برس سکتے ہیں، اور اس برسات میں کیا کچھ بہہ جائے گا اس کا تصورمحال ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر کی خصوصی شناخت کو چیلنج کرنے کے لیے دائر کی جانے والی رٹ پٹیشنز کی سماعت کا آغاز تو کیا مگر یہ کہہ کر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی درخواست قبول نہیں کی کہ عدالت کے پاس روزانہ کی بنیاد پر سننے کے لیے اس سے اہم ایودھیا کیس ہے۔ جس پر ایک دل جلے بھارتی نے تبصرہ کیا ’’انصاف کا التوا انصاف کا انکار ہوتا ہے‘‘۔ اس کا کہنا تھا کہ ایودھیا بابری مسجد ایک مُردہ کیس ہے، جبکہ کشمیر آج کا زندہ مسئلہ ہے جو عوام کے انسانی حقوق سے تعلق رکھتا ہے، اس کے باوجود عدالت کا تیس برس پرانے کیس کو ایک تازہ معاملے پر ترجیح دینا عدالت کی بے بسی کا ثبوت ہے۔ حکومت نے اس حوالے سے پٹیشنرز کا جواب داخل کرنے کے لیے چار ہفتوں کی مہلت طلب کی ہے جسے عدالت نے قبول کرلیا ہے۔ 31 اکتوبر کو کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے کا ایکٹ مؤثر ہوجائے گا۔ یوں لگ رہا تھا کہ بھارتی حکومت اس دن کے انتظار میں عدالت میں اپنے جواب کو طوالت دینا بھی چاہتی ہے اور اسی انتظار میں کرفیو میں نرمی بھی نہیں کرنا چاہتی۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں یہ معنی خیز جملہ کہا ہے کہ عدلیہ پٹیشنرز کے حق میں فیصلہ سناکر قانون کے مؤثر ہونے کے بعد بھی گھڑی کی سوئی کو اُلٹا گھما سکتی ہے۔ یہ موجودہ حالات میں بھارت کی سبکی اور ندامت کا باعث بننے والے فیصلے کی واپسی کی راہ کے کھلا ہونے کا اظہار بھی ہے۔ ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی طرف سے کہا گیا کہ کشمیریوں کے ساتھ جو ہوا بہت برا ہوا، کشمیر میں طاری سکوت خوفناک ہے، نئی دہلی کی پالیسیوں سے کشمیر کا بحران سنگین سے سنگین تر ہوگا اور عالمی مداخلت کی راہ تیزی سے ہموار ہورہی ہے۔ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے بھارتی ٹی وی چینل کو ایک دبنگ قسم کا انٹرویو دیا ہے جس میں وہ کسی معذرت خواہی کا شکار ہونے کے بجائے دوٹوک انداز میں کہہ رہی تھیں کہ اس وقت کشمیری بھارت کو قابض سمجھ رہے ہیں۔
عمومی تاثر یہ ہے کہ عمران خان کے جنرل اسمبلی سے کھلے ڈلے خطاب نے وادی میں پرو انڈیا سیاست دانوں کی پوزیشن بھی مضبوط کردی ہے اور اُن کے اعتماد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ چونکہ یہ سیاست دان پاکستان کے ساتھ رابطوں میں نہیں تھے اس لیے وہ اس مخمصے کا شکار تھے کہ کہیں یہ فیصلہ دونوں ملکوں کے کسی باہمی راز ونیاز کا نتیجہ تو نہیں۔ جنرل اسمبلی کے دنگل نے اس تاثر کو ختم کردیا، جس کے بعد مقبوضہ کشمیر کے بھارت نواز سیاست دانوں کو بھارت کے سامنے کھڑا رہنے کا فیصلہ کرنے میں مدد ملی ہے۔ اس کا ایک ثبوت محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی کا سخت لب ولہجہ ہے، اور اس کے بعد فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے بھی صورتِ حال پر نرم سا بیان جاری کرکے باضابطہ تبصرہ کیا ہے۔ ایک نئی سیاسی جماعت جس کے بارے میں پانچ اگست سے پہلے کہا جاتا تھا کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی جگہ لینے جارہی ہے اور اس کے سربراہ انڈین سول سروس میں اوّل پوزیشن حاصل کرنے والے نوجوان شاہ فیصل ہیں جو اچانک ملازمت حاصل کرتے ہی امریکہ چلے گئے تھے، اور امریکہ سے بھارت کی مذمت کرنے والے ان کے ٹویٹ جاری ہوتے تھے، اور پھر اچانک وہ واپس آئے اور ملازمت سے استعفیٰ دے کر سیاست میں سرگرم ہوگئے۔ اس پارٹی کی ایک سرگرم لیڈر شہلا رشید بہت کھل کر بھارت پر برس رہی ہیں۔
امریکہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز کی ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کا مؤقف پاک بھارت مذاکرات کی ٹھوس بنیاد فراہم کرسکتا ہے، بھارت جلدازجلد کشمیر سے پابندیاں اُٹھائے اور انتخابات کی راہ ہموار کرے۔ صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش دو ایٹمی طاقتوں کو کشیدگی سے بچانے کے لیے ہے۔ ایلس ویلز سے آزادکشمیر کی طر ف سے کنٹرول لائن توڑنے کے لیے ہونے والی کوششوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اس کا گول مول جواب دیا۔ عین ممکن ہے کنٹرول لائن کی طرف پُرامن مارچ کی کوششوں کو اسلام آباد سے باہر بھی کسی طاقت کی اخلاقی تائید حاصل ہو، کیونکہ بیرونی طاقتیں اب کشمیر کے معاملے میں بھارتی خواہشات کے کھونٹے سے بندھی نہیں رہ سکتیں۔
ایک منظر وہ ہے جو پردے پر نظر آرہا ہے جس میں حالات کی کوئی واضح تصویر بنتی دکھائی نہیں دے رہی، جبکہ ایک منظر پردے کے پیچھے تشکیل پارہا ہے۔ پاکستان نے ایٹمی جنگ کا خوف دلاکر بے حس عالمی ضمیر کو ایک جھرجھری لینے پر مجبورکردیا ہے۔ حافظ سعید نے اقوام متحدہ سے منجمد فنڈز سے اخراجات کے لیے رقم استعمال کرنے کی اجازت کے لیے درخواست کی تھی جسے اقوام متحدہ نے قبول کرلیا اور بھارتی میڈیا نے اس پر آسمان سر پر اُٹھالیا ہے۔ یہ حافظ سعید کے اکائونٹس کی جزوی بحالی ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ اور بھارت کے دبائو پر ہی اقوام متحدہ حافظ سعید کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں ڈالنے کے علاوہ اُن کے فنڈز منجمد کرچکی ہے۔ اب اقوام متحدہ کا اس معاملے میں درمیانی راہ نکالنا کم اہم نہیں۔ ایلس ویلز نے اس عمل کو اقوام متحدہ کا روٹین اور قانون کے مطابق فیصلہ کہا ہے، مگر حافظ سعید کے کچن کے اخراجات چلانے کی اجازت بھلے سے قانونی اور روٹین میٹر ہی سہی، مگر اس مرحلے پر اقوام متحدہ کے فیصلے میں بھارت کے لیے ایک ملفوف پیغام ہے۔ اس بحرانی کیفیت میں اے ایس دولت کا یہ کہنا بجا ہے کہ کشمیر میں بھارت کی پالیسی اور حالات عالمی مداخلت کا راستہ ہموار کررہے ہیں۔
nn